پاکستان نے بھارتی وزیرِ اعظم، نریندر مودی کو’’ شنگھائی تعاون تنظیم‘‘ کے سربراہی اجلاس میں شرکت کے لیے اسلام آباد آنے کی باقاعدہ دعوت دی ہے، جو 15اکتوبر سے شروع ہو رہا ہے۔ چوں کہ پاکستان اِس مرتبہ شنگھائی فورم کا چیئرمین ہے، تو3 روزہ اجلاس کی میزبانی اِسی کے حصّے میں آئی ہے۔ پاکستان اور بھارت کے درمیان گزشتہ کئی سالوں سے جس قسم کے کشیدہ تعلقات ہیں، اُس پس منظر میں نہ صرف فورم کے رُکن ممالک بلکہ عالمی برادری کے لیے بھی یہ امر دِل چسپی کا باعث ہے کہ بھارت کی شنگھائی فورم اجلاس میں شرکت کس لیول پر ہوگی۔
واضح رہے، بھارت میں ہونے والے Shanghai Cooperation Organisation (ایس سی او) اجلاس میں پاکستان نے وزیرِ خارجہ کی سطح پر شرکت کی تھی اور پاکستان کے وزیرِ خارجہ، بلاول بھٹّو دہلی گئے تھے۔سوال یہ ہے کہ کیا حال ہی میں تیسری مرتبہ منتخب ہونے والے وزیرِ اعظم نریندر مودی اسلام آباد اجلاس میں شرکت کریں گے، جب کہ شہباز شریف مُلک کے وزیرِ اعظم ہیں۔ مسلم لیگ نون کے سربراہ، میاں نواز شریف نے اپنے منشور میں اعلان کیا تھا کہ مُلکی ترقّی کے لیے تمام ہم سایوں سے اچھے تعلقات ضروری ہیں۔
اِس منشور سے تمام بھارتی تلخیوں کے باوجود، اختلاف ممکن نہیں، خاص طور پر اگر پاکستان کی موجودہ معاشی صُورتِ حال دیکھی جائے، تو پڑوسیوں سے بہتر تعلقات کی اہمیت دوچند ہوجاتی ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ اگر نریندر مودی اسلام آباد آتے ہیں، تو اس کے دوطرفہ، علاقائی اور عالمی سیاست پر کیا اثرات مرتّب ہوں گے۔
چین کے وزیرِ اعظم کی اجلاس میں شرکت کی تصدیق ہوچُکی ہے۔ چین ہی شنگھائی فورم کا روحِ رواں ہے۔ پاکستان صرف دو سال کے لیے اِس فورم کی میزبانی کر رہا ہے اور اِس اجلاس میں وہ اِس میزبانی کو کسی دوسرے مُلک کے حوالے کردے گا۔ اِس لیے کسی مُلک کے سربراہ کی شرکت کرنے یا نہ کرنے کا براہِ راست اثر تو چین ہی پر پڑے گا کہ وہ مُلک اُسے کتنی اہمیت دیتا ہے۔
گزشتہ برسوں کے دَوران علاقے میں جس قسم کی تبدیلیاں رُونما ہوئی ہیں، جیسے یوکرین جنگ، افغانستان پر غیر تسلیم شدہ طالبان حکومت اور امریکی فوجوں کا انخلا، مشرقِ وسطیٰ میں غزہ کا ایک سالہ تصادم اور بنگلا دیش میں آنے والی حالیہ تبدیلی نے شنگھائی فورم کے حالیہ اجلاس کی اہمیت بڑھا دی ہے۔ اس میں ان امکانات پر بہت زیادہ غور کیا جارہا ہے کہ خطّے کے ممالک کے درمیان کسی ازسرِ نو صف بندی کے کتنے امکانات ہیں اور اگر ایسا ہوتا ہے، تو پھر نئی صُورتِ حال میں علاقے، ممالک اور عوام کے تعلقات پر کیا اثرات مرتّب ہوں گے اور یہ کہ عالمی طاقتیں اُسے کس نظر سے دیکھیں گی۔
شنگھائی تعاون تنظم اٹھائیس سال قبل، 1996ء میں قائم کی گئی اور یہ چین کا آئیڈیا تھا۔ اُس وقت اسے’’ شنگھائی فائیو‘‘ کہا گیا، بعدازاں اس میں توسیع ہوئی اور اسے’’ شنگھائی تعاون تنظیم‘‘ کا نام دیا گیا، جس میں چین، روس، قازقستان، کرغیزستان اور ازبکستان شامل تھے۔یعنی اُس وقت اِس کا فوکس صرف وسط ایشیا پر تھا۔ وجہ ظاہر ہے کہ سوویت یونین کے ٹکڑے ہوچُکے تھے اور اُس کی بارہ مسلم ریاستیں آزاد ہوچُکی تھیں۔ امریکا اور مغربی طاقتوں کا توتی سَر چڑھ کر بول رہا تھا، اِسی لیے ایک ایسی تنظیم کی ضرورت محسوس کی گئی، جو علاقائی طاقت کا توازن قائم کرسکے۔
آج شنگھائی فورم کے 9ارکان ہیں اور بہت سے ممالک اس کے ڈائیلاگ پارٹنر ہیں۔ پاکستان اور بھارت جون2017 ء میں ایک ہی دن اِس ادارے کے رُکن بنے۔ایس سی او دنیا کا سب سے بڑا علاقائی فورم ہے۔ یہ دفاع اور اقتصادی تعاون کا ادارہ ہے اور اِس کے قیام کے وقت عالمی امور کے ماہرین کا کہنا تھا کہ یہ نیٹو کے متبادل کے طور پر وجود میں آیا ہے۔ یاد رہے، سوویت یونین کو شکست دینے میں نیٹو کا مرکزی کردار تھا۔ اُسی کی فوجی طاقت نے مشرقی یورپ اور وسط ایشیائی ریاستوں کو سوویت یونین سے توڑ کر مغربی بلاک کا حصّہ بنایا تھا۔
اگر جغرفیائی لحاظ سے دیکھا جائے، تو شنگھائی فورم کے رُکن ممالک کی سرحدیں یورپ اور ایشیا کے80 فی صد علاقے پر محیط ہیں، جب کہ دنیا کی کُل آبادی کا40 فی صد یہاں رہتا ہے۔ اس کے ممالک کا مشترکہ جی ڈی پی دنیا کا32 فی صد ہے۔ اس نے اپنے گزشتہ اجلاس میں جو اہداف متعیّن کیے تھے، اُن میں خاصی پیش رفت کی۔ اس فورم کا ایک اہم حصّہ برکس بینک ہے، جسے عالمی بینک کے متبادل کے طور پر دیکھا جاتا ہے اور دنیا کے بڑے بڑے ممالک اس میں شرکت کے خواہش مند ہیں۔
یہ کم ترقّی یافتہ ممالک کو قرضے فراہم کرتا ہے۔ بھارت اس کا بنیادی رُکن ہے، جب کہ پاکستان نے رُکنیت کے لیے درخواست دے رکھی ہے۔ چین اس کے ذریعے اکثر رُکن ممالک کی مالی مدد کرتا ہے۔اس کا بنیادی عالمی منصوبہ، بیلٹ اینڈ روڈ پراجیکٹ ہے، جس کے ایک حصّے، سی پیک کا پاکستان شراکت دار ہے۔
سی پیک کے ذریعے 60ارب ڈالرز کے ترقیاتی منصوبے پر کام ہو رہا ہے اور اِسے علاقے کے لیے’’ گیم چینجر‘‘ بھی کہا جاتا ہے۔بھارت اس منصوبے میں شامل نہیں، لیکن اِس امر میں بھی کوئی شک نہیں کہ بھارت اور چین میں دو طرفہ اقتصادی تعاون میں بے پناہ اضافہ ہوا ہے، جو118 بلین ڈالرز تک جاپہنچا ہے۔یہ امریکا، بھارت ٹریڈ سے زیادہ ہے۔ اب چین، بھارت کا نمبر وَن پارٹنر ہے۔شنگھائی فورم کے تحت باقاعدہ مشترکہ فوجی مشقیں بھی ہوتی ہیں،جن میں پاکستان اور بھارت دونوں کی فوجیں شامل ہوتی ہیں۔ عموماً یہ روس کے یورال پہاڑی علاقے میں کاؤنٹر ٹیرر ازم کے لیے کی جاتی ہیں۔
ایک طرح سے دیکھا جائے، تو یہ مشقیں روس، چین اور مغربی فوجی طریقۂ کار کو ایک ہی فورم پر آنے کا موقع فراہم کرتی ہیں۔ روس، چین، بھارت اور وسط ایشیائی ریاستیں، روسی ملٹری طرز پر تربیت یافتہ ہیں، جب کہ پاکستان اور بھارت کا جدید حصّہ مغربی طرز پر۔ شنگھائی فورم پر پاکستان اور بھارت جیسے دشمن ممالک کی فوجوں کو مشترکہ طور پر مشقیں کرنے کا موقع ملتا ہے، شاید اِسی کا نتیجہ ہے کہ آج پاکستان کی مشرقی سرحد پُرامن ہے، جب کہ مغربی سرحد سے تشویش ناک خبریں آتی رہتی ہیں۔لیکن اِس امر میں بھی کوئی شبہ نہیں کہ شنگھائی فورم نے ابھی تک نیٹو طرز کی کوئی جارحانہ فوجی پیش قدمی نہیں کی۔
اس کی سب سے بڑی مثال افغانستان ہے۔ دو سال قبل امریکی فوج یہاں سے چلی گئی، لیکن روس یا چین نے، جو شنگھائی فورم کی بڑی عالمی طاقتیں ہیں، کسی بھی جارحانہ اقدام سے پرہیز کیا۔ ابھی تک دوحا معاہدے کی شرائط کے مطابق کسی بھی مُلک نے طالبان حکومت کو تسلیم نہیں کیا، جب کہ فورم کے نو میں سے چھے ارکان مسلم ممالک ہیں، جن میں سے اکثر کی سرحدیں افغانستان سے ملتی ہیں اور وہ بھی اسے نہ تسلیم کرنے کی پالیسی پر کاربند ہیں۔
ماہرین کے مطابق اس کی متعدّد وجوہ ہوسکتی ہیں۔ اوّل تو طالبان حکومت کے فوراً بعد روس، یوکرین سے جنگ میں اُلجھ گیا اور اب تک یہ جنگ جاری ہے۔افغانستان، جو ایک زمانے میں نہ صرف علاقے بلکہ پوری دنیا کی توجّہ کا مرکز تھا، روس اور چین ہر وقت امریکی اور نیٹو افواج کے انخلا کا مطالبہ کرتے رہتے تھے، آج یوکرین جنگ کی وجہ سے اُن کے پاس افغانستان اور اُس کے بدترین اقتصادی و حکومتی معاملات پر غور کا وقت تک نہیں ہے۔
دوم، شنگھائی فورم، چین کا ہے اور چین جنگ پر امن و صبر کو ترجیح دیتا ہے، سوائے 1960ء کی چین، بھارت جنگ کے،وہ کبھی بھی کسی فوجی تصادم کا حصّہ نہیں بنا۔ شنگھائی تنظیم کا اصل ہدف فی الحال اقتصادی میدان ہے اور اسی پر تیزی سے پیش رفت ہو رہی ہے۔
اگر کورونا اور یوکرین جنگ کے دھچکے نہ لگے ہوتے، تو اس کی اقتصادی پیش رفت بہت تیز ہوتی بلکہ مغربی ممالک خاصے تشویش میں مبتلا ہوگئے تھے، اِسی لیے اُنہوں نے گزشتہ سال دہلی میں جی-20 کانفرنس کی سائیڈ لائنز پر ممبئی، مِڈل ایسٹ، یورپ کوریڈور کا اعلان کیا، جو سی پیک کا متبادل ہے۔ ’’شنگھائی تعاون تنظیم‘‘ جہاں اقتصادی معاملات میں تیزی دِکھا رہی ہے، وہیں سیاسی معاملات میں بھی اہم کردار کی طرف بڑھ رہی ہے۔ چین، جو پہلے عالمی معاملات میں بہت سُست روی سے دل چسپی لیتا تھا، اب ہر اہم عالمی معاملے میں نظر آنے لگا ہے۔
دوسرے الفاظ میں، وہ اپنی اقتصادی اور فوجی طاقت کے لحاظ سے عالمی مقام بنا رہا ہے۔ گزشتہ برس اس نے ایران اور سعودی عرب جیسے دیرینہ مخالفین میں معاہدہ کروایا، جب کہ حال ہی میں غزہ بحران کے پس منظر میں فلسطین کے 14 دھڑوں میں بیجنگ معاہدہ کروایا، جس کا مقصد غزہ جنگ کے بعد وہاں مشترکہ فلسطینی حکومت کا قیام ہے۔ جب چین ایسے اقدامات کرتا ہے، تو ظاہر ہے کہ شنگھائی فورم کے رُکن ایک پیج پر ہوں گے۔ بتاتے چلیں کہ پہلے فلسطین اور عربوں کے معاملات پر امریکا، یورپ اور روس دل چسپی لیتے رہے، پہلی بار ہے کہ چین اُس علاقے کی سفارت میں شامل ہوا ہے اور یہ اس کی اقتصادی طاقت کا کرشمہ ہے۔
ہم نے وہ پس منظر بیان کردیا، جس میں15 اکتوبر کو اسلام آباد میں شنگھائی تعاون تنظم کا اجلاس ہو رہا ہے۔ چین، روس اور وسط ایشیا کے کسی بھی مُلک سے پاک، بھارت دشمنی چُھپی ہوئی نہیں، لیکن ایک مثبت اور حوصلہ افزا بات یہ ہے کہ ایس سی او کے تمام ممالک کے تعلقات پاکستان اور بھارت سے یک ساں طور پر اچھے ہیں۔ چین اور روس سمیت تمام ممالک کی خواہش ہے کہ جنوبی ایشیا کے دونوں ہم سایوں کے درمیان معمول کے تعلقات بحال ہوں اور جو وقتا فوقتا کشیدگی کے بادل منڈلاتے ہیں، وہ کبھی نہ برسیں۔
پاکستان اور بھارت کے درمیان کشمیر بنیادی تنازعہ ہے، جسے اقوامِ متحدہ بھی ایک متنازع علاقہ قرار دیتی ہے۔یعنی کشمیر کی قسمت کا فیصلہ وہاں کے باسیوں کی رائے کے مطابق ہونا باقی ہے۔اب تک پاکستان اور بھارت کے درمیان چار جنگیں ہوچُکی ہیں، جن میں تین کشمیر پر لڑی گئیں۔1971ء کی جنگ ان میں سے سب سے خوف ناک تھی، جس میں پاکستان دو لخت ہوگیا(تاہم اس جنگ کا تعلق کشمیر سے نہیں تھا)۔ مشرقی پاکستان، بنگلا دیش بن گیا،جس میں اُس وقت کی کانگریسی وزیرِ اعظم، اندرا گاندھی کا کردار کسی سے ڈھکا چُھپا نہیں۔( پہلی دو جنگیں بھی کانگریس کے زمانے میں لڑی گئیں)۔
آج جب بھی پاک، بھارت کشیدگی کا ذکر آتا ہے، تو اس ضمن میں دونوں کے نیوکلیئر پاور ہونے کا ذکر ہوتا ہے اور ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ نیوکلیئر بم جنگ روکنے میں رکاوٹ کا کام دیتے ہیں۔ یقیناً ایسا بھی ہے، لیکن اگر اعداد وشمار پر نظر ڈالی جائے، تو حالات کچھ اور بھی اشارے کرتے ہیں۔ آزادی کے پہلے23 سال، یعنی 1971ء تک بھارت اور پاکستان کے درمیان تین جنگیں ہوئیں، جب کہ اس کے بعد کے53 سالوں میں صرف ایک جنگ ہوئی۔ وہ بھی کارگل پر، جو کشمیر کے متنازع علاقے ہی تک محدود رہی اور بین الاقوامی سرحدیں عبور نہیں کی گئیں۔1971تک پاک، بھارت سربراہوں میں صرف دو ملاقاتیں ہوئیں۔لیاقت، نہرو اور ایوب، شاستری۔
جب کہ1972 ء سے لے کر آج تک اکثر پاکستانی اور بھارتی سربراہان آپس میں ملاقات کرتے رہے ہیں۔ بھٹو، اندرا گاندھی کی شملہ میں، جنرل ضیاء، راجیو گاندھی کی بھارت میں اور واجپائی، نواز شریف کی لاہور میں ملاقاتیں ہوئیں۔ اس کے بعد پرویز مشرّف، واجپائی کی ملاقاتیں ہوئیں اور مَن موہن سنگھ، یوسف رضا گیلانی سے ملے۔ نیز، نریندر مودی لاہور میں نواز شریف کے گھر آئے۔
یہ تو سربراہ سطح کی ملاقاتیں تھیں، اِس کے علا وزارتی سطح پر بھی متعدّد رابطے ہوئے، جب کہ ٹریک ٹو ڈپلومیسی بھی مسلسل جاری رہی۔درمیان میں پاک، بھارت تجارت بحال ہوئی، فن کار، کھلاڑی اور اہلِ دانش ایک دوسرے کے ہاں گئے اور عوام کی سطح پر بھی آنا جانا جاری رہا۔راجیو گاندھی، واجپائی اور نریندر مودی جب بھی پاکستان آئے، پاکستانیوں نے ہمیشہ اپنی روایتی مہمان نوازی کا ثبوت دیا اور بھارتی رویّہ بھی مثبت ہی رہا۔
تاریخی واقعات دُہرانے کا مقصد یہ ہے کہ پاکستان اور بھارت میں تمام تر تلخیوں کے باوجود رابطے جاری رہے، ٹوٹتے، پھر قائم ہوجاتے۔میڈیا کے ایک حصّے اور کچھ سیاست دانوں کی سخت آراء کے باوجود، دونوں طرف کے عوام امن کے خواہاں ہیں۔ آج دونوں ممالک کی آبادی ایسی نسل پر مشتمل ہے، جو تیس سال سے کم ہے، ٹیکنالوجی سے بخوبی واقف، اقتصادی فوائد اور معیارِ زندگی کے بنیادی تقاضوں سے آشنا۔ اِن میں سے بہت کم کو یاد ہوگا کہ اوائل کی دشمنیوں اور تلخیوں کی بنیاد کیا تھی۔
ایک اہم سوال یہ بھی ہوسکتا ہے کہ کیا یہ نوجوان نسل آگے بڑھنے کی خواہش مند نہیں ؟ اگر نہیں، تو پھر دونوں ممالک کے نوجوان دنیا کے دیگر ممالک کی طرف کیوں دوڑ رہے ہیں۔ بھارت کی اقتصادی صُورتِ حال بہتر ہے، جب کہ پاکستان مشکل وقت سے گزر رہا ہے، لیکن اس امر میں دو رائے نہیں کہ یہاں بھی تعمیر وترقّی کی پوری صلاحیت موجود ہے، تو کیا یہاں کی قیادت اور سیاسی جماعتیں اپنے نوجوانوں کو مایوس کریں گی۔
کیا ان کے مقدّر میں سوشل میڈیا کی لڑائیاں، سیاسی دائو پیچ، ایک دوسرے کو نیچا دِکھانا اور کھیل تماشے ہی رہ گئے ہیں؟ نریندر مودی کے شریف فیملی سے اچھے تعلقات ہیں اور بھارتی لیڈر پیپلز پارٹی سے بھی بخوبی واقف ہیں کہ شملہ معاہدہ بھٹّو اور اندرا گاندھی ہی کے درمیان ہوا تھا۔ وہ سیاست دان، جو چھے سال قبل نعرے لگاتے تھے کہ’’مودی کا جو یار ہے، مُلک کا غدّار ہے‘‘، اقتدار میں آنے کے بعد یو ٹرن لے بیٹھے۔
عمران خان نے اپنی وکٹری اسپیچ میں مودی کو مخاطب کر کے کہا تھا کہ ’’آپ ایک قدم بڑھائیں، ہم دو قدم بڑھائیں گے۔‘‘پھر کہا۔’’ بی جے پی کے اقتدار میں آنے سے کشمیر کا مسئلہ حل ہوسکتا ہے۔‘‘شنگھائی تعاون تنظیم کے نام ہی سے ظاہر ہے کہ یہ رُکن ممالک کے درمیان تعاون کا فورم ہے۔ اب یہ پاک، بھارت لیڈرشپ اور عوام پر منحصر ہے کہ اپنے دوست کے بنائے گئے اِس فورم سے کیسے فائدہ اُٹھاتے ہیں۔ویسے چین نے تو ہمیشہ دونوں ممالک کی لیڈرشپ کو تعلقات معمول پر لانے ہی کی ترغیب دی ہے۔