آج بارہ ربیع الاول ہے، آج کا دن ہی وہ عظیم دن ہے جس روز رب کائنات کی رحمت نے جوش مارا اور مکہ میں رحمۃ للعالمین ﷺکی آمد ہوئی، نبی پاکﷺ کی ذاتی صفات اور اعلیٰ کردار کے متعلق ہم کیا بیان کر سکتے ہیں، اللہ اور اسکے فرشتے چوبیس گھنٹے محمد و آل محمد پہ درود پڑھتے ہیں، نبی پاک ﷺ کی شان اقدس کیا بیان کی جائے کہ یہ شان بیان کرنے کیلئے صدیاں لگ جائیں گی مگر شان بیان نہیں ہو سکے گی، سو دوستو! صدیاں سنا رہی ہیں کہانی درود کی ،چودہ سو سال سے لوگ مختلف طریقوں سے مختلف موضوعات کے تحت نبی پاک ﷺ کے حضور گلہائے عقیدت پیش کرتے ہیں، یہ سلسلہ محمد عربی ﷺکی حیات مبارکہ سے شروع ہوا، آج تک جاری ہے اور قیامت تک جاری رہیگا، قیامت کے بعد جو منظر ہو گا اس میں حوض کوثر پر قرآن پاک اور اہل بیت اکٹھے ہونگے، سب انبیاء کرام تاجدارِ انبیاءﷺکی طرف دیکھیں گے، حضرت علی رضی اللہ عنہ وجہ تقسیم جنت و جہنم ہونگے، حسنین کریمین جنت کے نوجوانوں کے سردار ہونگے اور جناب سیدہ سلام اللہ علیہا دنیا بھر کی نیک خواتین کی سربراہ ہوں گی، گویا قیامت کے بعد جنت میں ہر طرف اہل بیت کی سربراہی ہو گی۔ دنیا نے اس جہان میں اولاد محمد ﷺکے ساتھ جو کیا سو کیا مگر خدا دنیا کو قیامت سے پہلے چالیس سالہ حکومت ایسی دکھائے گا جس کی سربراہی اولاد محمد ﷺ کریگی۔ یاد رہے کہ قیامت سے تیس سال پہلے لوگوں کے ہاں بچوں کی پیدائش بند ہو جائے گی۔ تحریر کا یہ سلسلہ کہیں طویل نہ ہو جائے، سو میں اس کو ایک جملے پہ ختم کرتا ہوں کہ اس جہان میں بھی اور اس جہان میں بھی ایک ہی گھر ہے جس سے محبت و عقیدت کا اظہار مقدر کو سنوار دیتا ہے، یہ گھر اہل بیت کا گھر ہے۔ دو روز پہلے برادرم سہیل وڑائچ کی رہائش گاہ پر محفل نعت اور محفل سماع کا اہتمام کیا گیا تھا، پیر آف بھیرہ شریف اور مجیب الرحمٰن شامی سمیت کئی شخصیات نے شرکت کی، اپنے پیارے ضیاء الحق نقشبندی نقابت کے فرائض انجام دے رہے تھے، اب وہ بات لکھنے لگا ہوں جس کی وجہ سے میں اس محفل کا تذکرہ کرنے پر مجبور ہوا ہوں، یہ وجہ ہے ذوقِ نعت خوانی، میرے لئے خوشی کی بات تھی کہ ڈی ایچ اے لاہور سے تعلق رکھنے والے مختلف بزنس مینوں نے میلاد ویلفیئر سوسائٹی قائم کر رکھی ہے، یہ بزنس مین سارا دن کاروبار کرتے ہیں اور پھر سر شام میلاد کی محفل سجاتے ہیں، دل موہ لینے والی بات یہ ہے کہ یہ کاروباری افراد نعت خوانی کرتے ہیں، درود شریف پڑھتے ہیں اور اس نعت خوانی کا معاوضہ بھی نہیں لیتے، اس مادہ پرستی کے دور میں جہاں نعت خوانوں نے ریٹ مقرر کر رکھے ہیں ایسے دور میں بزنس مینوں کی یہ ادا دل کو اچھی لگی۔ ویسے مجھے اپنے سماج کی یہ بات نا پسند ہے کہ اس میں کچھ لوگوں نے ذکر اللہ، ذکر رسولؐ اور ذکر حسینؓ کے ریٹس مقرر کر رکھے ہیں، جہاں ریٹ آ گیا وہاں عشق مر گیا، عشق کا ریٹ نہیں ہوتا، عشق بے مول ہوتا ہے، بقول اقبال
قوت عشق سے ہر پست کو بالا کر دے
دہر میں اسم محمد سے اجالا کر دے
پاکستان کے موجودہ حالات میں چند ترامیم زیر بحث ہیں، پتہ نہیں حکمران طبقہ ان ترامیم سے کیا برآمد کرنا چاہتا ہے؟ ہمارے پیارے رسول ﷺ نے فرمایا’’قانون سب کیلئے ایک ہونا چاہئے، پہلی قومیں اسی لئے برباد ہوئیں کہ انکے ہاں طاقتور کیلئے قانون اور تھا اور غریبوں کیلئے اور‘‘۔ مجوزہ ترامیم میں دو تین باتیں بہت خطرناک ہیں، مثلاً ججوں کی تعداد بڑھانا، امریکا جیسے بڑے ملک میں سپریم کورٹ میں ججوں کی تعداد نو ہے، ہم پتہ نہیں ججوں کی فوج کیوں بھرتی کرنا چاہتے ہیں۔ ججوں کی عمر بڑھانے سے خود انصاف کا قتل ہو جائیگا، پانچ سینئر ججوں میں سے کسی ایک کو چیف جسٹس بنانے کا اختیار اگر حکومت کو مل جائے تو پھر کسی بھی عہد میں پانچ سینئر ججز حکومت وقت کو خوش کرنےکے چکر میں لگے رہیں گے، حکمرانوں کی اس خوشامد کے باعث ہر روز انصاف کا قتل ہو گا۔ ایک اور خطرناک بات آئینی عدالت کی ہے، جس میں حکومت اپنی مرضی سے چیف جسٹس بنائے گی اور اپنی مرضی سے چار دیگر ججز کا تقرر کرے گی، پانچ ججز پر مشتمل یہ آئینی عدالت حکمرانوں کی خوشنودی حاصل کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیگی، سو دوستو! یہ انصاف کیساتھ کھلواڑ ہے، یہ عدل کیساتھ مذاق ہے۔ پاکستان ایک اسلامی ملک ہے، اس میں عدالتیں حکمرانوں کی خوشنودی کیلئے نہیں بلکہ عام لوگوں کو انصاف دینے کیلئے ہونی چاہئیں، قیدی نمبر 804کا بھی یہی مطالبہ ہے کہ طاقتور اور کمزور کیلئے ایک جیسا قانون ہونا چاہئے۔ اللہ تعالیٰ کتاب حکمت میں حکم دیتا ہے’’عدل قائم کرو‘‘۔ یہی بات رسول اللہ ﷺنے کئی احادیث میں بیان کی ہے، جاتے جاتے خاکسار کے دو اشعار سنتے جائیے!
ہر اک جہاں کی جان ہے نانا حسین کا
بے مثل مہربان ہے نانا حسین کا
زیر فلک ہیں مثل زمیں امتی تمام
اور ان پہ آسمان ہے نانا حسین کا