• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مرتب: محمّد ہمایوں ظفر

یہ 9جنوری1996ءکی بات ہے، پاکستان فلم انڈسٹری کے نام ور ہیرو، سلطان راہی اسلام آباد میں امریکا کا ویزا لگوانے کے بعد جی ٹی روڈ سے واپس لاہور آرہے تھے، اُن کے ڈرائیور، حاجی احسن اُن کے ساتھ تھے۔ گوجرانوالہ بائی پاس پر گاڑی کا ٹائر پھٹ گیا، تو حاجی احسن جیک لگا کر ٹائر بدلنے میں مصروف ہوگئے۔ 

اسی اثناء دو نقاب پوش ڈاکو راہی صاحب کی گاڑی کے قریب پہنچے اور اُن سے لوٹ مار کے دوران نہ صرف روایتی درشتی کا مظاہرہ کیا، بلکہ انھیں تشدد کا نشانہ بھی بنانے لگے، تو راہی صاحب نے بھرپور مزاحمت کی اور ڈاکوؤں سے گتھم گتھا ہوگئے۔ ڈاکوؤں نے گھبرا کر فائر کردیا، تو ایک گولی سلطان راہی کا جبڑا چیرتی ہوئی دماغ سے پار ہوگئی۔ 

اس بزدلانہ کارروائی کے بعد ڈاکو فرار ہوگئے۔ حاجی احسن نے کسی نہ کسی طرح قریبی پیٹرول پمپ پر پہنچ کر پولیس کو وقوعے کی اطلاع دی، لیکن اس وقت تک اُن کی رُوح قفسِ عنصری سے پرواز کرچکی تھی۔ بعدازاں، اُن کا جسدِ خاکی ڈویژنل ہیڈکوارٹر اسپتال پہنچایا گیا۔ پنجابی اور اردو فلموں کے معروف ہیرو، مایہ ناز اداکار سلطان راہی کے لرزہ خیز قتل کی خبر گوجرانوالہ شہر میں جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی، اُن کے پرستار جُوق درجُوق اسپتال پہنچنا شروع ہوگئے۔ اور پھر 14جنوری 1996ء کو انہیں لاہور میں شاہ شمس قادری کے مزار کے احاطے میں سپردِ خاک کیا گیا۔

مَیں سلطان راہی کا بچپن ہی سے پرستار رہا ہوں، اُن کی فلمیں شوق سے دیکھتا تھا، اس اندوہ ناک واقعے کی خبر اخبار میں پڑھی، تو اُن سے ہونے والی ایک یادگار ملاقات کا واقعہ ذہن کی اسکرین پر چلنے لگا۔ 

یہ جنوری 1985ء کی بات ہے، جب میں اپنے قریبی دوست سیّد ساجد یزدانی سے ملنے لاہور گیا۔ وہ مجھے اچانک دیکھ کر بے حد مسرور ہوئے۔ بڑی خاطر مدارات کی اور دیگر دوست احباب سے ملاقاتیں بھی کروائیں۔ وہ اس بات سے واقف تھے کہ مَیں سلطان راہی کا کتنا بڑا پرستار ہوں۔ 

لاہور میں میرے دو روز قیام کے بعد اچانک مجھ سے کہنے لگے کہ’’آج تمہیں، تمہارے پسندیدہ ہیرو کی شوٹنگ دکھانے کے لیے ایورنیو اسٹوڈیو لے جاؤں گا۔‘‘ اُن دنوں وہ کراچی سے شائع ہونے والے ایک معروف فلمی اخبار سے وابستہ تھے۔ دوسرے روز ہم ایورنیو اسٹوڈیو پہنچ گئے، وہاں فلمی ستاروں کا ایک میلہ سا لگا ہوا تھا۔ مَیں اُن ستاروں کو دیکھ کر بے حد خوشی محسوس کررہا تھا۔ پھر ساجد بھائی مجھے اسٹوڈیو کے اُس فلور پر لےکر گئے، جہاں فن کے سلطان، سلطان راہی ایک پنجابی فلم کی شوٹنگ میں مصروف تھے۔جب وہ شوٹنگ سے فارغ ہوئے، تو ساجد یزدانی مجھے ان کے پاس لے گئے اور اُن سے میرا تعارف کروایا۔ 

راہی صاحب نے مُسکرا کر خوش آمدید کہا اور اپنے قریب ہی بٹھالیا۔ پھر اُن سے کافی باتیں ہوئیں۔ اس دوران مَیں نے اُنھیں بتایا کہ ’’راہی صاحب! یوں تو میں نے آپ کی سیکڑوں فلمیں دیکھی ہیں، لیکن ذاتی طور پر آپ کی معرکۃ الآرا فلم ’’مولا جٹ‘‘ کے علاوہ بشیرا، بابل صدقے تیرے، دل لگی، اَن داتا، جاسوس اور بنارسی ٹھگ بےحد پسند ہیں۔‘‘اور یہ بھی بتایاکہ مَیں آپ کا ادنیٰ سا پرستار ہوں، آپ کی بہت سی تصویریں میرے پاس محفوظ ہیں اور آپ کی لگ بھگ تمام فلموں سے متعلق مکمل معلومات رکھتا ہوں۔ 

مجھے پتا ہے کہ1979ء میں آپ کی شہرئہ آفاق فلم ’’مولا جٹ‘‘ نے باکس آفس پر کام یابیوں کے تمام ریکارڈ توڑ دیے تھے۔ پھر مولا جٹ کی بے مثال کام یابی کے بعد 12اگست 1981ء کو آپ کی پانچ فلمیں ’’شیر خان، سالا صاحب، چن وَریام، اَتھرا پُتر اور ملے گا ظلم دا بدلہ‘‘ ایک ہی دن ریلیز ہوئیں اور ایک نیا ریکارڈ قائم ہوا۔ جب کہ’’شیر خان‘‘ اور ’’سالا صاحب‘‘ نے ڈبل ڈائمنڈ جوبلی (دو سو ہفتے) اور ’’چن وَریام‘‘ نے سنگل ڈائمنڈ جوبلی مکمل کی۔‘‘ 

راہی صاحب نے اپنے متعلق اتنی تفصیلات سن کر میری طرف حیرت سے دیکھا، اور اس والہانہ عقیدت پر میرا شکریہ ادا کیا۔ آج فن کا یہ سلطان ہمارے درمیان موجود نہیں، لیکن اُس یادگار ملاقات میں جو باتیں ہوئیں اور جس طرح انھوں نے مجھ سے شفقت کا اظہار کیا، وہ میرے لیے کسی سرمائے سے کم نہیں۔ ربّ العزت کے حضور دُعا ہے کہ اللہ تعالیٰ اُن کی کامل مغفرت فرمائے اور اُنھیں جنّت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے۔ (آمین ) (اسلم قریشی، ملیر، کراچی)

سُنیے…آپ سے کچھ کہنا ہے…!!

اگر آپ کے ذہن میں کوئی ایسا واقعہ محفوظ ہے، جو کسی کردار کی انفرادیت، پُراسراریت یا واقعاتی انوکھے پن کی بنا پر قارئین کے لیے دل چسپی کا باعث معلوم ہو، تو فوراً قلم اُٹھایئے اور اس صفحے کا حصّہ بن جائیے۔ یہ واقعات قارئین کے شعور و آگہی میں اضافے کے ساتھ اُن کے لیے زندگی کا سفر آسان کرنے میں بھی ممدومعاون ثابت ہوسکتے ہیں۔ واقعات بھیجنے کے لیے تحریر کا پختہ ہونا ضروری نہیں، صرف سچّا ہونا لازم ہے۔ نیز اپنا نام و پتا بھی لکھیے تاکہ رابطے کی ضرورت محسوس ہو، تو رابطہ کیا جاسکے۔ہمیں اپنی تحریریں اس پتے پر بھیجیں۔

ایڈیٹر،’’سنڈے میگزین‘‘ صفحہ ناقابلِ فراموش، روزنامہ جنگ،

شعبہ میگزین، اخبار منزل، آئی آئی چندریگر روڈ، کراچی۔

سنڈے میگزین سے مزید