لاہور ہائی کورٹ میں وزیرِ اطلاعات پنجاب عظمیٰ بخاری کی نازیبا فیک ویڈیو کے خلاف درخواست پر چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ عالیہ نیلم نے سماعت کی۔
عدالت نے ڈی جی ایف آئی اے کو عظمیٰ بخاری کے کیس کے مکمل ریکارڈ سمیت بلا لیا۔
چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ نے سرکاری وکیل سے استفسار کیا کہ ڈی جی ایف آئی اے کہاں ہیں؟
وفاقی حکومت کے وکیل نے بتایا کہ وہ سرکاری سطح پر میٹنگ کے لیے چین میں ہیں۔
چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ نے کہا کہ ڈی جی نے کب واپس آنا ہے؟ ڈی جی ایف آئی اے کی بیرون ملک روانگی کا ریکارڈ بھی آئندہ سماعت پر پیش کیا جائے۔
وکیل نے بتایا کہ یہ ہم ہیڈ آفس سے چیک کر کے بتا دیتے ہیں کہ وہ واپس کب آ رہے ہیں۔
چیف جسٹس عالیہ نیلم نے کہا کہ ایک اتھارٹی ملک سے باہر جاتی ہے اس کا این او سی ہوتا ہے اجازت ہوتی ہے آپ کو کچھ علم نہیں، عدالت کو دھوکا دینے کی کوشش نہ کریں، آئندہ سماعت پر ڈی جی ایف آئی اے خود پیش ہوں، بورڈنگ پاسز اور ٹریول ہسٹری پیش کی جائے
لاہور ہائی کورٹ کی چیف جسٹس نے کہا کہ آپ یہ بتائیں آپ کا تفتیشی کہاں ہے؟ رپورٹ کہاں تک پہنچی؟ اپنے ڈی جی کو بتا دیجیے گا عدالت سے کھیلنا اتنا آسان نہیں، ایف آئی اے کو عادت ہے لوگوں کو آفس بلا کے پکڑنے کی، خود آفس سے باہر نہیں نکلتے۔
عظمیٰ بخاری کے وکیل نے کہا کہ ایف آئی اے کہتی ہے ہمیں پتہ نہیں فلک جاوید کہاں ہے، ہم پکڑنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ نے کہا کہ ایف آئی اے کے وکیل ہر بار بغیر تیاری کے آتے ہیں، آپ کے ڈی جی سے اگلی سماعت پر پوچھیں گے۔
عدالت نے کیس کی سماعت 30 ستمبر تک ملتوی کر دی۔