علم ابلاغ عامہ کی انقلاب آفریں اسپیشلائزیشن ڈیولپمنٹ کمیونی کیشن (ترقیاتی ابلاغ) کا ایک اہم موضوع ’’سوشل موبلائزیشن‘‘ ہے۔ اسکا بنیادی مقصد عوام الناس (ٹارگٹ آرڈی ننس) کو متحرک کرکے انکے رویے میں کسی مخصوص ترقیاتی ہدف کے حصول کیلئے سرگرم کرنا ہوتا ہے۔ جسکی ترقی مقصود ہے، ان میں یہ تحریک مخصوص و منظم اور منصوبہ سازی سے ہونیوالے ایسے کمیونیکیشن آپریشن سے ایک مخصوص مقام پر متحرک کرکے انہیں کسی بڑے اجتماعی فائدے (کاز) کے حصول کیلئے اکٹھا کرکے پرعزم بنانا ہوتا ہے۔ فالو اپ میں خود بخود مخصوص باہمی مفاد میں گہری دلچسپی لیتے سنجیدہ ہو کر کاز کیلئے باہمی رابطے بڑھاتے، مرکز فلاح (جس پلیٹ فارم سے کمیونی کیشن آپریشن لانچ ہوتا ہے) سے ذہنناً اور عملاً اجتماعی سرگرمیوں کے ذریعے وابستہ ہو جاتے ہیں۔ گویا کاز کے حوالے سے انکی گہری دلچسپی و بیداری عملی شکل اختیار کرلیتی ہے۔ جو ٹارگٹ آڈیننس کے سماجی رویے میں بڑی اور مثبت تبدیلی لاکر سماجی ترقی کے عمل کو تیزتر کر دیتی ہے۔ مخصوص ترقیاتی موضوعات پر واکس، ریلیاں، گالاز، اعلیٰ سطح پر ورکشاپ، گروپ ڈسکشن اورینٹیشن پروگرام، مخصوص کازز کیلئے سوشل موبلائزیشن کی عملی اشکال ہیں۔ بالعموم یہ سب کمیونیکیشن آپریشن، سوشل ڈیولپمنٹ تھرو بیہورئیل چینج کی ابلاغی سرگرمیاں ہیں، جو سوشل سیکٹر میں صحت عامہ، تحفظ خوراک، ویمن اینڈ چائلڈ ڈویلپمنٹ، کمیونٹی ڈویلپمنٹ، وغیرہ جیسی بڑی کاززکیلئے لانچ کی جاتی ہیں۔ اور سوشل موبلائزیشن کہلاتی ہیں۔ ان سے دنیا خصوصاًترقی پذیر میں سماجی انقلاب برپا ہوا ہے۔تمام اقسام کے سائنسز کا کمال یہ ہے کہ ان جملہ ڈسپلنز (باڈیز آف نالج یا علوم) اپنا اصل رنگ (وسیع تر فوائد) دکھانے کیلئے ایک دوسرے پر انحصار کرتے باہمی اشتراک سے فلاح انسانیت کا انقلابی سامان بنتے ہیں، جسے سوشل سائنسز میں کمیونیکیشن سائنس،پولیٹکل سائنس کاباہمی اشتراک، گڈگورننس، کوالٹی قانون سازی، سمارٹ پالیسی اینڈ ڈسیژن میکنگ سے لیکر مطلوب سیاسی استحکام، بطرف معاشی استحکام باہم مل کر تعمیر ملت (نیشن بلڈنگ) میں کمال نتیجہ خیز ہونا مکمل ثابت شدہ ہے، اور اسکی درجنوں کامیاب ترین کیس اسٹڈیز علم ابلاغ عامہ و سیاسیات کے لٹریچر کا سبق آموز حصہ ہے۔
قارئین کرام! خصوصاً محترم سیاسی قائدین و رہنمائوں، سیاسیات و ابلاغیات کے ایم فل/ پی ایچ ڈی اسکالرز اور منتظمین حکومت کی خصوصی توجہ مطلوب ہے کہ وہ ہر دو علوم (سیاسیات و ابلاغیات) کی متذکرہ تھیوریز اور پریکٹس کی روشنی میں باہمی اشتراک سے ہر دو کے پریکٹیکل فیلڈز میں اطلاق پر غور فرمائیں کہ :یہ ہمارے قومی سیاسی و صحافتی بگڑے معاملات کی سمت کو درست کرنے اور گڈ گورننس کیلئے کتنے مطلوب ہیں۔ کمیونیکیشن فار بیہورئیل چینج ہی نیشن بلڈنگ کے عمل کیلئے مطلوب ہے، لیکن مطلوب سماجی رویوں کی تشکیل کیلئے یہ بھی سیاسیات و ابلاغ عامہ کا اپنا بگاڑ ہی ہے جس سے بیڈ گورننس، آلودہ سیاست اور اس کی شامل سرگرمیاں سیاسی و معاشی عدم استحکا م اور سیاسی سماجی انتشار پیدا ہونے کا بڑا ذریعہ ہے جو آج کل وائے بدنصیبی ہم سب کے پاکستان میں اپنی انتہا کو پہنچ کر ملک کو مسلسل خساروں میں مبتلا کئے ہوئے ہے۔ ایسا صرف اس لئے ہے کہ ملکی گورننس اور عملی قومی سیاست میں ہر دو معاشرتی علوم کے اطلاق سے عملاً اور دانستہ گریزاں ہوتے الٹ سمت میںچل رہی ہیں۔ بنگلہ دیش میں کمیونیکیشن سائنس کے حوالے سے کتنی ہی سبق آموز کیس اسٹڈیز حال ہی میں تیار ہوئیں۔ یقین جانیے حسینہ واجد کے فسطائی رجیم سے عوامی لاوا پھٹنے میں سوشل میڈیا کے استعمال پر ابھی زیادہ بات نہیں ہو رہی لیکن کمیونیکیشن اسکالرز کے تحقیقی مفروضوں کی حد تک مطلوب کمیونیکیشن کے اطلاق سے ہی فسطائی رجیم کیخلاف اتنی بڑی سوشل موبلائزیشن ہوئی جس کی کیفیت مکمل سیاسی اور عظیم تر کاز ’’مکمل بھارتی ڈکٹیشن سے چلنے والے رجیم کا خاتمہ‘‘ کا حصول بنگلہ دیشی عوام کی ہائی ڈگری ہائپر سوشیو پولیٹکل موبلائزیشن سے ممکن ہوگئی۔ دلچسپ امر اور عظیم کار خیر بھی کمیونیکیشن سائنس کے بروقت اور موثر ترین استعمال سے یہ ہوا کہ:ملک اور دم توڑتا رجیم خونریزی سے بچ گیا۔ یہ بنگلہ دیشی عسکری سربراہ اور ڈکٹیٹر حسینہ واجد کے درمیان رجیم کے آخری لمحات میں انٹر پرسنل کمیونیکیشن آپریشن ہی تو تھا جس نے ملک کو ہوتے ہوتے خونی انقلاب سے محفوظ کردیا۔ حسینہ واجد کروڑ ہا بپھرے احتجاجی شہریوں کے مطالبات کو جوتی کی نوک پر رکھ کر ان پر فائرنگ کرکے مکمل دبانے کا اصرار کئی دنوں سے کر رہی تھیں، لیکن جرنل صاحب کی وزیر اعظم سے چند منٹ کی انٹرپرسنل ٹاک نے وزیر اعظم ہائوس کی طرف بڑھتے غضبناک عوامی سیلاب کی واضح امکانی خونریزی کو ٹال دیا، اور حسینہ واجد جرنل صاحب کی بات مان کر اپنے کنبے کیساتھ وہاں محفوظ پہنچ گئیں جہاں کا خمیر تھا۔ واضح رہے کمیونیکیشن سائنس میں کامیاب ترین آپریشن انٹرپرسنل کمیونیکیشن کی شکل میں ہی ہوتا ہے۔ یہ ہی ماڈل بڑی بڑی سر پر کھڑی جنگوں کو ٹال دیتا ہے۔ بروقت نہ ہو یا مطلوب کے برعکس ہو تو اقوام کی تباہی کا باعث بن جاتا ہے۔ گویا علوم ابلاغ و سیاست کے مخصوص اطلاق وسیع تر کار خیر کا باعث بنتے ہیں۔ قارئین کرام!آج ہر دو زیر بحث علوم کے بروقت اور مطلوبہ اطلاق پرآشوب پاکستان کو شدت سے مطلوب ہیں، ہماری گورننس اور قومی سیاسی ابلاغ میں حکومتوں اور سیاسی جماعتوں کی جانب سے اسکے بہت کچھ برعکس ہونے سے بڑا بھاری خسارہ ہو چکا اور جاری ہے۔ یقین جانیے، کیا پی ڈی ایم کی وفاقی اور صوبائی حکومتیں اور کیا پی ٹی آئی، دونوں ہی رجیم چینج کے بعد بڑے بڑے کمیونیکیشن ڈیزاسٹر کرتے چلے آ رہے ہیں۔ ایک اسٹیٹس کو کی محافظ گھاگ، تجربہ کار و بااختیار سیاسی طاقت ہے تو دوجی (پی ٹی آئی) جو اپنے لیڈر کی کامیاب ترین کمیونیکیشن ملک گیر عوامی اور سیاسی سے پارلیمانی طاقت بنکر بھی عملی سیاست میں بڑے بڑے کمیونیکیشن ڈیزاسٹر سے ہی مقید و محدود ہوگئی، دوسری جانب 45سال سے اقتدار اور سیاست میں رہی پی ڈی ایم ون اور ٹو عشروں کی جو سیاسی کمائی لٹا بیٹھی اس میں بڑا دخل (بہت بڑے فیصد میں) سیاسی و انتظامی پالیسیز اور فیصلوں کیساتھ اسکے کمیونیکیشن ڈیزاسٹر ہیں۔ (جاری ہے)