• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

تمہیں کہو کہ یہ انداز ’’تعلق ‘‘کیاہے ؟

افغانستان ہمارے لئے ہمارا دوسرا گھر ہے اور ہم بہرقیمت یہ چاہتے ہیںکہ اسلامی مملکت افغانستان کے ساتھ ہمارے بہترین تعلقات ہوں ، تاکہ اغیار ہم پر خندہ زن نہ ہوں۔افغانستان میں امن لانے کیلئے پاکستان نے 80ہزار شہیدوں کو قربان کیا ہے طالبان عبوری حکومت پاکستان کے احسانات فراموش نہ کرے اور اپنی سرزمین دشمنان پاکستان کو استعمال نہ کرنے دے ۔ہم مسلسل یہ امن و آشتی کا پیغام افغانستان بھیج رہے ہیں مگر افغان عبوری حکومت کوئی عملی کارروائی نہیں کر رہی۔ تعلقات کی بہتری کیلئے ضروری ہے کہ دہشت گردوں کےجتھے نکال باہر کرے اور اگر مرد ناداں پر کلام نرم و نازک بے اثر ہے تو پھر افغان حکمران سن لیں کہ دہشت گردوں کے تمام ٹھکانے پاکستان کی نظر میں ہیں، اگر سرجیکل سٹرائیکس ہوں تو گلہ مند نہ ہوں ،کوئی دن نہیں گزرتا جب دہشت گرد افغانستان سے سرحد پھلانگ کر پاکستان پر حملہ آورنہیں ہوتے ہیں اپنا جان کر پاکستان لحاظ کر رہا ہے اسے کمزوری نہ سمجھا جائے پاک فوج دنیا کی مانی ہوئی عسکری قوت ہے اور نہیں چاہتی کہ برادر ملک افغانستان میں گھس کر جواب دے لیکن شاید افغانستان کے غیر مسلم دوست نہیں چاہتے کہ پاک افغان بارڈر پر امن رہے ہمارے علم میں ہے کہ دہشت گردوں کو پناہ دینے کے عوض ڈالر ملتے ہیں آخر یہ کہاں کا اسلام ہے کہ مسلمان مسلمان کے خلاف دہشت گردی کو بڑھاوا دے۔ طالبان حکومت کیا ایسی دولت کو حلال سمجھتی ہے ؟پاکستان کو چاہئے کہ افغان حکومت سے حتمی ڈائیلاگ کرے اور اگر اس کے باوجود دہشت گردوں کو پناہ دینے کا سلسلہ جاری رہتا ہےتو افغان حکومت پر نتائج کی ذمہ داری عائد ہو گی۔ہمیں معلوم ہے کہ بھارت کو کس طرح سہولت فراہم کی جا رہی ہے ہم چاہتے کہ بات چیت سے مسئلہ حل ہو بصورت دیگر پاکستان کو راست اقدام کا حق حاصل ہو گا اور پاکستان اپنا دفاع کرنے کیلئے کوئی بھی قدم اٹھانے پر مجبور ہو گا۔

٭٭ ٭ ٭ ٭

ہندسوں کا کھیل

انسان کے پیدا ہوتے ہی گنتی شروع ہو جاتی ہے بابا بلھے شاہ نے کہا تھا ؎

گھڑی گھڑی گھڑیال وجا وے

دین وصل دی پیا گھٹاوے

اے گھڑیالی دیو نکال نی

بہرحال ہندسوں کا کھیل کئی طرح سے گھیر لیتا ہے اور ایک دن وہ گھڑی بھی کہ وصل کی رات ختم ہو جاتی ہے اور انسان کی گنتی کسی اور جہان میں شروع ہو جاتی ہے۔ہمارا بجٹ بھی ہندسوں کا کھیل ہے جو کسی کو سمجھ نہیں آتا الغرض ایک خسارا ہے جو ہمارے ساتھ ساتھ چلتا ہے قرآن حکیم نے واشگاف کہا ہے’’ قسم ہے زمانے کی انسان خسارے میں ہے‘‘، انسان بہت سنجیدگی سے اپنی ضرورت سے بڑھ کر سازو سامان اکٹھا کرتا ہے اور کسی بھی لمحے سب کچھ ادھورا چھوڑ کر چلا جاتا ہے۔عمر لوح مزار پر لکھی ہوتی ہے گویا گنتی مر کر بھی اسے چھوڑتی نہیں ۔ہم نادان ہیں کہ عمر ناپائیدار کو اتنا سیر یس لے لیتے ہیں کہ آخری سانس تک نہ جانے کی ضد کرتے ہیںمگر لے جانے والا لے جاتا ہے۔ابھی تازہ تازہ آئی ایم ایف کے اعدادو شمار نے ہمارے گرد دائرہ تنگ کر دیا ہے وزیرخزانہ کی پراسرار مسکراہٹ سے کئی امیدیں باندھ لیتے ہیں یہ بھی ایک حسین دھوکہ دلکش خسارا ہے مسکان نہیں ہم سب گنتی پوری کرتے کرتے لوگوں کے کاندھوں پر سوار سفر پر روانہ ہو جاتے ہیں ۔وزیر خزانہ نے فرمایا ہے قرض تو لینے میں کامیاب ہو گیا ہوں مگر سخت شرائط کے ساتھ ترقی یافتہ ملکوں کے باشندوں پر دم آخر یہ شعر صادق نہیں آتا؎

دونوں جہاں کسی کی محبت میں ہارکے

وہ جا رہا ہے کوئی شب غم گزار کے

اپنے ہی قلم نے مجھے رلا دیا ہے کاش اخبار نہ پڑھتا خبریں نہ سنتا میرے اندر سے آواز آتی ہے اٹھو جس مقصد کیلئے آئے ہو وہ پورا کر و یہاں تو ہندسوں کا کھیل جاری رہے گا آنکھوں میں یہ آیت تیر رہی ہے ’’پھر ہم نے اپنے رب کی طرف لوٹ جانا ہے ‘‘

٭٭ ٭ ٭ ٭

دوستی ناداں کی ہے، جی کا زیاں ہو جائے گا

چیف جسٹس کا جسٹس منصور کو جوابی خط ’’حقائق جانے بغیر سینئر جج کو بائی پاس کرنے کا الزام لگا دیا ‘‘ غالب کی شاعری ہماری زندگی کے حوارث سے بہت قریب ہے کتنے سلیقے سے ہمیں درس احتیاط دیدیا؎

فائدہ کیا سوچ آخر تو بھی دانا ہے اسد

دوستی ناداں کی ہے جی کا زیاں ہو جائے گا

بعض اوقات خوش فہمی، غلط فہمی پر جاکر دم توڑ دیتی ہے ان دنوں ہمارے ملک کے عالم بالا کو مکتوب نگاری کا شوق چرایا ہے، چیف جسٹس غالب کے شعر سے جی بہلا سکتے ہیں بہرحال ہم کچھ بھی نہیں کہتے کہ حد ادب کا مقام ہے ہم تو ہر حال میں اتفاق و اتحاد کی تمنا دیکھتے ہیںاور اونچی شان رکھنے والوں کی سلامتی کی دعا کرتے رہتے ہیں کیونکہ ؎

ڈاہڈے دے ہتھ قلم محمد تے وس نئیں کوئی چلدا

بن آئی جند نکلے ناہیں تے کوئی جہان نا چلدا

زندگی میں امیر ہو یا غریب سب کو اونچ نیچ سے واسطہ پڑتا ہے۔ عدالت عظمیٰ کی کرسیوں پر بیٹھنے والوں سے ہمیں تو بس انصاف کی توقع رہتی ہے کیونکہ جس ملک کی عدلیہ اطمینان سے کام کر رہی ہو تو اس ملک کو کیا خطرہ، ہمارے مصنف حضرات اپنے میدان کے شاہسوار ہیں ان کا گھوڑا جدھر نکل جائے گھڑسوار کی مرضی بہرصورت ہم تو چیف جسٹس کی خدمت عالیہ اتنی سی گزارش کریں گے کہ بنا کر رکھیں کہ عدلیہ میں خدا نہ کرے کوئی ان بن ہو تو ہمارے دل دہل جاتے ہیں الغرض اتنا ضرو عرض کریں گے کہ ہر حال میں حفظ مراتب کا لحاظ لازم ہے یہ دنیا اور اس کےمناصب تو عارضی ہیں کسی قوم کی اعلیٰ صفت یہ ہے کہ وہ کتنی با اخلاق ہے ہمارے ہاں بالخصوص سیاسی سطح پر اخلاقی زوال صاف دکھائی دیتا ہے اسے ختم کرنا ہو گا ملک کی عدالت عظمیٰ کا ہر جج قابل صد محترم و مکرم ہے ۔ہم بصد ادب عرض کرینگے کہ عدالت عظمیٰ ہمارا رول ماڈل ہو یہ تو اب واجب الاحترام جج حضرات کا کام ہے کہ وہ اپنے اندر فضا کو سازگار و خوشگوار بنائیں تاکہ قوم ان کی پیروی کرے اور ان شااللہ سب ٹھیک مزید بھی بہتر ہوگا۔

٭٭ ٭ ٭ ٭

اخلاقی افاقہ

٭خبر ہے کہ یکم اکتوبر سے پٹرولیم مصنوعات میں 3روپے کمی کا امکان ہے ۔

خوش آئند امکان ہے مگر اس کا حجم بہت چھوٹا ہے کمی اتنی ہو کہ داڑھ گیلی ہو سکے ۔

٭گورنر پنجاب :حکومتی کشتی ڈوبے یا تیرتی رہے اس کا حصہ رہیں گے۔

مطلب یہ ہے کہ ڈوبنے کا بھی اندیشہ ظاہر کیاگیا ہے مگر گورنر پنجاب تسلی رکھیں حکومتی کشتی مضبوط ہےاور اس کے اندر بیٹھے افراد بلا کے تیراک ہیں کشتی ڈوبے تو ڈوبے سواریاں نہیں ڈوبیں گی۔

٭عمران خان کا 28ستمبر کو راولپنڈی میں ہونیوالا جلسہ ملتوی ۔

اچھا فیصلہ ہے تالیاں !جب انہیں جلسہ کرنے ہی نہیں دیا جاتا تو باہر نکل کر احتجاج کریں مگر املاک کو نقصان نہ پہنچے احتجاج ان کا حق ہے جلسہ کرنا بھی حق ہے مگر ابھی موسم سازگار نہیں ۔

٭طارق فضل :عدلیہ کا متوازن اور غیر جانبدار ہونا ضروری ہے ۔

مزید کیا کیا ضروری ہے یہ بھی بتا دیتے ۔

٭آرٹس کونسل کراچی میں پاکستان کی ثقافتی تاریخ کے منفرد فیسٹیول کا افتتاح۔

لاہور میں بھی وزیر اعلیٰ نے میلوں ٹھیلوں کا اعلان تو کیا ہے مگر افتتاح نہیں ہوا۔

٭بداخلاقی میں اضافہ تشویشناک ہے تعلیمی اداروں میں ایک پیریڈ حسن اخلاق کا شروع کیا جائے شاید سوسائٹی کو افاقہ ہو ۔

٭٭ ٭ ٭ ٭

تازہ ترین