• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اس پرچم کے سائے تلے ہم سب کچھ ہیں لیکن کیا ہم ایک ہیں؟ نہیں۔ کیوں؟ یہ سوال بار بار میرے ذہن میں آتا ہے یقیناً آپ بھی سوچتے ہوں گے قوم ’’میں‘‘ اور ’’تم‘‘ سے نہیں ’’ہم‘‘ سے بنتی ہے۔ سوچئے پاکستان کے کتنے مسائل ہیں جن کیلئےہم مل کر کام کرتے ہیں یا کرنا چاہتے ہیں۔ ہم نیشنل ازم Nationalism کی چھتری کے نیچے آنے کی بجائے گروہوں میں بٹے ہیں۔ صوبائیت، لسانیت، پہلے سیاسی وابستگی پھر کچھ اور۔ اور اب تو پیشوں کی بنیاد پر ہم تقسیم ہیں۔ فوج اور سویلین، سرکاری ملازم اور عوام، امیر اور غریب، ہم خود کو ایک کشتی کا سوار نہیں سمجھتے۔ آخر کیوں؟ پاکستان کا پرچم جسکے سائے تلے لوگ خود کو محفوظ سمجھتے تھے۔ Nationalism کی ایک علامت اب Tik Tok پر اس کا بھی مذاق اڑاتے ہیں، آج ہم گروہوں میں بٹے ہیں۔ آخر کیوں؟ اتحاد اور تنظیم کا سبق ہم بھول گئے ہیں سونے پر سہاگہ، ہماری قیادتیںایک دوسرے کو چور ڈاکو لٹیرا ثابت کرنے پر تلی ہیں۔ یہ کیوں نہیں سمجھتے انکا تعلق کسی بھی پارٹی سے ہو سب پہلے پاکستانی ہیں۔ آپ دنیا میں پاکستانیوں کی کیا تصویر پیش کر رہے ہیں کیا الزام تراشی ہماری قومی شناخت میں خوبصورت رنگ بھر رہی ہے یا اسے بدصورت بنا رہی ہے۔ ہم اپنی اپنی ڈفلی اور اپنا اپنا راگ الاپنے میں مصروف ہیں یہ بھول کر کہ قوم رنگ، نسل، مذہب سے بالاتر ہو کر مشترکہ مقاصد کیلئے متحد ہوتی ہے اس کا مٹی سے، دھرتی سے ناطہ مضبوط ہوتا ہے۔ گھر والے اپنے گھر کی عزت بڑھاتے ہیں لیکن اگر گھر والے ایک دوسرے سے بات کرنے پر تیار نہ ہوں تو مشترکہ لائحہ عمل کیسے ترتیب دیا جا سکتا ہے کیوں بحیثیت قوم ہم بات کرنا اور سننا نہیں چاہتے۔ اپنی بات منوانے کیلئے ہم احتجاج اور دھرنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ سننے والے بھی تبھی سنتے ہیں اور یہ رویہ عوام کی زندگی میں خلل ڈالتا ہے۔ سیاسی اختلافات، نظریاتی اختلافات اپنی جگہ۔ ہم کیوں ایک دوسرے کو عزت اور احترام نہیں دے سکتے۔ تہذیب کے دائرےمیں رہ کر اختلاف کیوں نہیں کر سکتے۔ کیوں ایک دوسرے کے دائرہ کار کا احترام نہیں کر سکتے۔ ذرا سوچئے 75سال کی تاریخ میں کتنے نام ہیں جن کو ہم سب ہیرو مانتے ہیں اور یہاں کتنے سویلینز کے نام ہیں جنہیں ہیرو مانتے ہیں ،جان دینا ملک کیلئے بہت بڑی بات ہے لیکن مرنا ہی نہیں جینا بھی ایک ہنر ہے ہم اس سے کیوں نابلد ہیں۔ اس کا ذمہ دار کون ہے؟ ہم اکثریت کی رائے کا احترام کیوں نہیں کرتے ہماری گروہ بندی کسی وجہ سے بھی ہو وہ کیوں ہمارے اور سچ کے درمیان حائل ہو جاتی ہے سوال،مکالمہ، سوچ کی پرداخت کی پہلی سیڑھی ہے۔ تحقیق تجربات سچ تک پہنچنے میں مددگار ہوتے ہیں ہم اس طرف آنے کو تیار ہی نہیں ہوتے دوسرے کا موقف درست ہو سکتا ہے یہ ماننا ہم نے سیکھا ہی نہیں یہ خطہ ارض۔ ہمارا وطن ہم اس کے ساتھ وفا کا محبت کا فرض نہیں نبھا رہے اپنے خطہ ارض کی قدر و قیمت کیا ہوتی ہے فلسطینیوں سے پوچھئے۔ اگر Nationalism نہیں ہوگا تو قومی شناخت کیا ہو گی۔ 1947ء سے اب تک ایک لمبا عرصہ ہے سوچئے ہم اپنی قومی شناخت کیوں واضح نہیں کر سکے میرے خیال میں ہم میں اتفاق رائے کا فقدان ہے۔ انفرادی طور پر پاکستانی ترقی کر رہے ہیں لیکن اجتماعی طور پر ناکام۔ کیوں۔ کیونکہ اجتماعی مفاد، اجتماعی رائے کو اہمیت نہیں دی جاتی، کیوں؟۔ قریب 14برس پہلے بنگلہ دیش میں رہنے کا موقع ملا۔ یوم آزادی کے موقع پرصبح سویرے ڈھاکہ کی سڑکوں پر لوگوں کا ٹھاٹھیں مارتا سمندر تھا۔ لگتا تھا کوئی شخص گھر میں نہیں ان کا انداز انکی اپنے وطن سے محبت کی گواہی دے رہا تھا۔ ان کی وطن سے محبت ان کا نیشنلزم ڈھونڈنے کی چیز نہیں تھا نظر آرہا تھا کیونکہ وہ سب ایک کشتی کے سوار تھے اور ان سب کو اپنے بہتر مستقبل کی امید اپنی یکجہتی میں نظر آتی تھی اور مجھے یہ احساس بہت شدت سے ہوا کہ ہم مغربی پاکستان والے کتنے عجیب لوگ ہیں۔ ہم دشمنوں کو زیر کرنے پر تلے رہتے ہیں لیکن اپنوں کو اپنا بنانے کا ہنر نہیں جانتے اور پاکستان کے حالات دیکھیں تو افسوس ہوتا ہے ہم نے تاریخ سے، ماضی سے، اپنی غلطیوں سے دنیا سے کچھ نہیں سیکھا۔ ہم اپنی اصلاح کرنے کو تیار نہیں یا ضروری نہیں سمجھتے۔ ہمارا میڈیا تجزیہ کرنے اور تردد کی باتیں بتانے میں لگا ہے سوچئے ایک ایسا ملک جہاں شرح خواندگی کم ہے لوگ ٹی وی دیکھتے ہیں میڈیا ان کی کردار سازی میں کیا رول ادا کر رہا ہے۔ 24گھنٹے کی ٹرانسمیشن میں کتنے منٹ کردار سازی پر صرف کرتے ہیں۔ ملی نغموں کے علاوہ وطن سے محبت پیدا کرنے کیلئے کیا دکھاتے ہیں۔ ہمارا تعلیمی نظام کردار سازی میں کیا رول ادا کر رہا ہے۔ مفت گھر، کھانا، دودھ، لیپ ٹاپ بانٹنے سے ووٹ مل سکتے ہیں لیکن ناقابل تسخیر قوم نہیں بنتی۔ جی چاہتا ہے ہمارےلیڈر مل کر مشترکہ اہداف بنائیں۔ ان مشترکہ اہداف کے حصول کیلئےکام کریں، سیاسی پارٹیوں کے مفادات الگ الگ ہو سکتے ہیں۔ اس قوم کے نہیں۔ یہ اتحاد کی طرف پہلا قدم ہوگا۔ کاش ہمارے معاشرے کی کھوئی ہوئی اخلاقی اقدار واپس آ سکیں۔ میرا جی چاہتا ہے اپنے بچپن میں سنی ہوئی وہ کہانی کہ ایک لکڑہارے نے اپنے بچوں کو متحد رکھنے کیلئے کیا کہا؟ اس نے لکڑیوں کے گٹھے کو کھولا اور ان سے کہا لکڑیوں کو ایک ایک کر کے توڑیں، وہ سب ٹوٹ گئیں پھر گٹھا بنایا اور کہا اب اسے توڑو ظاہر ہے زور لگانے پر بھی وہ گٹھے کو نہ توڑ سکے۔ کاش اس ملک کے بڑے اس کہانی کو سمجھیں کاش کوئی ہمیں ایک ہونے کا سبق سکھا دے۔ ایک دوسرے کے ساتھ مل بانٹ کر رہنا سکھا دے۔ پھر ہم اس پرچم کے سائے تلے ایک ہوں گے۔ پھر پاکستان واقعی پاک لوگوں کی سرزمین ہوگا۔ کاش ........

تازہ ترین