• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مَیں کبھی نہیں بھول سکتی اُس ماں کو، جو اپنے3 جوان بیٹوں کی لاشوں کو عزم و ہمّت سے الوداع کہہ رہی تھی کہ’’ حضور نبی کریم صلی الله علیہ وسلّم کو جا کر ہمارا احوال بتانا۔‘‘ اُس باپ کو، جو اپنے بچّوں کے تھیلوں میں بَھرے ٹکڑے ہاتھ میں لیے جا رہا تھا۔ اُس آئس کریم کے ٹرک کو، جس میں پھول جیسے بچّوں کی لاشیں رکھی تھیں۔ اُن ڈاکٹرز کو، جو اسپتال میں اپنے فرائض سرانجام دیتے ہوئے اپنے پیاروں کی لاشیں دیکھ رہے تھے۔اُن اسکولز کی عمارتوں کو، جو ملبے کا ڈھیر بن گئی ہیں۔ 

غزہ کے اُس پورے شہر کو، جو کبھی تہذیب و تمدّن اور زندگی سے بھرپور تھا۔ سال گزرنے کو ہے اور دنیا نے ایسے چُپ سادھ رکھی ہے، جیسے وہ گونگی، بہری ہو گئی ہے۔ ایسے میں پوری دنیا سے خواتین، قطر حکومت کی دعوت پر دارالحکومت، دوحا میں جمع ہوئیں اور’’ نساء لاجل فلسطین‘‘یعنی’’خواتین فلسطین کے لیے‘‘ کانفرنس میں شرکت کی۔ اِس سے پہلے ہم نے شہداء کے چند خاندانوں کے گھروں کا دورہ بھی کیا۔کیا عجب اطمینان، سکون اور قرار کا احساس تھا۔ 

جب مَیں خوش قسمت انسانوں کے گروہ کے مسکن میں داخل ہو رہی تھی، ایسا لگ رہا تھا کہ شہداء کی ارواح نے اُن گھروں میں اُس فرحت و سرشاری کی لہریں پھیلا دی ہیں، جن سے وہ اپنے ربّ کے ہاں لُطف اندوز ہو رہے ہوں گے۔مَیں جب اس عظیم الشّان کانفرنس کے لیے دوحا پہنچی، تو فلسطین کے لیے کام کرنے والی اہم تنظیموں کے نمائندوں سے ملاقات ہوئی اور اُن سے قطر میں مقیم شہداء کے خاندانوں سے تعزیت کی خواہش کا اظہار کیا، تو وہم وگمان میں بھی نہ تھا کہ ان عالی شان شخصیات سے مل سکوں گی، مگر اُنہوں نے جماعتِ اسلامی کی ایک کارکن کے طور پر اور میرے والد سے گہرے تعلق کی بنا پر مجھے فوراً گھر بُلالیا۔

مَیں نے اپنی زندگی میں بہت اہم شخصیات سے ملاقاتیں کی ہیں، مگر فلسطین کے شہداء کے وارثین نے ایمان کی نئی منزلوں سے آشنا کروایا۔ ان ماؤں کی زبانوں پر’’ الحمدللہ‘‘ کے سِوا کوئی کلمہ نہ تھا اور اُن کے عزم و ثبات میں ہلکا سا بھی ارتعاش نہ تھا۔ دل چاہ رہا تھا کہ بقیہ زندگی ان خوش نصیب ماؤں کے قدموں ہی میں گزار دوں، جنھیں اللہ نے ایسے کمال راضی بہ رضا رکھا ہے۔ کوئی خوف، نہ کوئی غم، ایسی قوم کو بھلا کون شکست دے سکتا ہے۔

حلقۂ خواتین جماعتِ اسلامی نے ایک دہائی قبل فلسطینی خواتین کے لیے کام کرنے والی تنظیموں کے اتحاد میں مجھے اپنا نمائندہ بنانے کا اعزاز بخشا تھا۔ اس اتحاد کا نام ’’ائتلاف المراۃ العالمی لنصرہ القدس و فلسطین‘‘ہے۔ اس اتحاد نے تُرکی اور قطر کی حکومتوں میں موجود خواتین کی سرپرستی میں فلسطینی خواتین اور بچّوں کے لیے مختلف پراجیکٹس پر کام کیا۔ ہم نے بھی حلقۂ خواتین جماعتِ اسلامی کے تعاون سے امداد و معاونت میں اپنا حصّہ ڈالا، جس میں خواتین کے ذاتی استعمال کی اشیاء کا بیگ، گھریلو سامان کا بکس اور ماں اور بچّے کی ضرورت کی اشیاء کی کٹ شامل ہے۔ 

اس کے علاوہ، پکے ہوئے کھانے، پیک شدہ ڈبّے اور خشک راشن کے ٹرک بھی بھیجتے ہیں۔ اس تنظیم نے دوحا کی وزیرِ خارجہ، لولو الخاطر کی میزبانی میں دنیا بَھر کے62 ممالک سے320 خواتین لیڈرز کو جمع کیا تاکہ آنے والے چیلنجز کے مقابلے کے لیے حکمتِ عملی طے کی جاسکے اور اس مقصد کے لیے کانفرنس میں مختلف سیشنز ہوئے۔ قاری صاحب نے موقعے کی مناسبت سے جہاد و شہادت سے متعلق آیات کا انتخاب کیا، جنھیں سُن کر اللہ کے وعدے پر یقین مزید مضبوط ہو گیا۔

پھر قطر اور فلسطین کے قومی ترانے بجائے گئے۔ کانفرنس میں مختصر دستاویزی فلمز بھی دِکھائی گئیں، جنھیں دیکھ کر کبھی ہال میں دبی دبی سسکیاں سُنائی دے جاتیں تو کبھی نعروں کی پُرجوش آوازیں سُنائی دیتیں۔ قطر کی وزیرِ خارجہ اُن پہلے افراد میں شامل تھیں، جو غزہ پہنچے تھے۔ اُنہوں نے دُکھی دِلوں پر مرہم رکھنے کے لیے ہم سب کی نمائندگی کی تھی۔ اُنھوں نے کہا کہ’’ ہمارا یوں جمع ہونا، عورت کی بے داری کے لیے بہت اہمیت کا حامل ہے۔فلسطینی عورت نے حضرت خدیجہؓ، حضرت سمیہؓ اور حضرت اُمّ ِ عمارہؓ کی یاد تازہ کر دی ہے۔ 

اسلام کی ان روشن قندیلیوں نے ہمارے لیے عمل کی راہیں روشن کی ہیں۔ ہم اِن شاء اللہ فلسطین کی حمایت میں اِسی طرح استقامت سے کھڑے رہیں گے، یہاں تک کہ اقصیٰ ، فلسطین کا دارالخلافہ نہ بن جائے۔‘‘’’ائتلاف القدس‘‘ کی بانی، رباب عثمان اوغلو نے شرکاء کو بتایا کہ’’کانفرنس میں 62 ممالک کی 320 خواتین لیڈرز شریک ہیں۔ اِس کانفرنس کو’’ الامان حقی‘‘ یعنی’’امن میرا حق ہے“ کا عنوان دیا گیا ہے اور فلسطینی خواتین کی معاونت کے لیے ہم سب یہاں حاضر ہوئے ہیں۔ ہمیں اسرائیل اور استعماری طاقتوں کو اس ظالمانہ نسل کُشی سے روکنا ہوگا۔ 

اس کانفرنس میں حکومتی نمائندوں، انسانی حقوق کے کارکنان، اسلامی تحریکوں کے رہنماؤں اور ارکانِ پارلیمان سمیت بہت سی غیر مسلم خواتین بھی شریک ہیں، جو انسانیت پر یقین رکھتی ہیں۔ آج ہم نومولود بچّوں، اُن کی ماؤں، خواتین کی تعلیم اور اُن کے کاروبار سمیت اُن کے بنیادی حقوق کی فراہمی کے لیے جمع ہیں، جس میں سب سے پہلے اُن کی حفاظت اہم ہے۔ نیز، کھانے اور صاف پانی کی فراہمی کے ساتھ، واش روم کی سہولتیں بھی نہایت اہمیت کی حامل ہیں۔

اسرائیل نے صدی کا سب سے بڑا ظلم و وحشت کا بازار گرم کر رکھا ہے۔ سب اسکولز، کالجز، یونی ورسٹیز تباہ کردی گئیں، بستیوں کی بستیاں کھنڈر بنا دی گئی ہیں، مگر فلسطینی عورت ملبوں پر قرار کے ساتھ بیٹھی ہے اور وہ اپنی جگہ نہیں چھوڑ رہی۔‘‘ قطری خواتین کی تنظیم کی صدر، ڈاکٹر نورہ الخزاب نے نبی کریمﷺ کی حدیثِ مبارکہ بیان کی کہ ”میری اُمّت کا ایک گروہ ہمیشہ حق پر رہے گا اور اُن کا دشمن اُنھیں نقصان نہیں پہنچا سکتا۔‘‘ 

صحابیؓ نے عرض کیا’’ یا رسول اللہﷺ! وہ لوگ کہاں ہوں گے؟‘‘ حضور ﷺنے ارشاد فرمایا’’بیت المقدِس میں اور بیت المقدِس کے ارد گرد ہوں گے۔‘‘اُنہوں نے حضور ﷺ کی وہ حدیثِ مبارکہ بھی یاد دلائی، جس کا مفہوم ہے کہ’’ تم اِس اُمّت کو جسدِ واحد کی طرح پاؤ گے کہ جب اِس کے ایک حصّے کو تکلیف ہوتی ہے، تو پورا جسم درد اور بخار میں اس کے ساتھ شریک ہوتا ہے۔‘‘اُنھوں نے کہا کہ’’ اِس کانفرنس میں بھی اُمّت نے اُسی درد کو محسوس کیا اور افریقا کےجنگلوں سے امریکا اور آسٹریلیا کے میدانوں تک سے خواتین جُوق در جُوق شریک ہیں۔‘‘

ایک21سالہ فلسطینی لڑکی، خلود الدحدوح نے اپنی کہانی بیان کی کہ’’ میری کہانی، ہر فلسطینی لڑکی کی کہانی ہے، جو بہت خُوب صُورت خواب بُن رہی تھیں، مگر اسرائیل نے اُن کے خواب چکنا چور کر دیئے۔ ہم امان کی تلاش میں ایک بستی سے دوسری بستی اور ایک خیمے سے دوسرے خیمے میں منتقل ہوتی رہتی ہیں۔43000 خواتین کے ہاں اِس مہینے ولادت متوقّع ہے، جنھیں بنیادی سہولتیں تک میسّر نہیں، مگر ہمیں یقین ہے کہ اللہ ہمیں اِس حالت میں ہمیشہ نہیں رکھے گا۔‘‘ 

فلسطینی بچّی، دانا محمّد اسعد، جسے ملبے سے بچا کر قطر لایا گیا تھا اور دو دیگر بچّے، رمضان ابو جزر اور ولید بھی کانفرنس میں ایمان و یقین کی نئی مشعلیں جلا کر گئے۔ غزہ سے آئے یہ بچّے عزم و حوصلے سے کہہ رہے تھے کہ ’’ہم فلسطین کا روشن مستقبل ہیں، ہمارے بچّوں نے کیمرے کی آنکھ سے وہ کام لیا ہے، جو اسرائیل اسلحے سے نہیں کر سکا۔‘‘ 

رمضان نے بڑے جوش سے مخاطب ہو کر کہا۔’’ مَیں فلسطین کا مستقبل کا بڑا صحافی آپ سے مخاطب ہوں۔ میرے خواب بہت بڑے ہیں اور مجھے اُنہیں پورا کرنا ہے۔ اگرچہ، اسرائیل نے مجھ سے میرے کھیل کا میدان چھین لیا، مجھ سے میرا بچپن بھی لے لیا، میرے خواب تاراج کر دئیے، تعلیم کے دورازے بند کر دیئے، مگر مَیں پھر بھی پُرعزم ہوں۔‘‘ اِس آٹھ سال کے بچّے نے کانفرنس میں شریک ہر ماں کو رُلا دیا۔

اِس افتتاحی سیشن کے بعد دوسرے حصّے میں’’ الجزیرہ‘‘ کی پریزینٹر، سلمی الجبل نے’’امن میرا حق‘‘ پر بات کی۔ اُن کے ساتھ مذاکرے میں قطر کی ہیومن رائٹس کیمپین کی سربراہ، مریم بنتِ عبداللہ، ماریطانیہ کی پارلیمنٹ کی ڈپٹی اسپیکر ڈاکٹر فاطمہ بنتِ حبیب، الجیرین پارلیمنٹ کی رُکن ڈاکٹر فوادۃ جعفر اور ملائیشیا کی وزیرِ تجارت حاجۃ فوزیہ بنتِ صالح نے بھی شرکت کی۔ 

اُنہوں نے کانفرنس کو یقین دلایا کہ’’ ہم، فلسطین کی عورت کو کبھی تنہا نہیں چھوڑیں گے۔ اُن کا مکان رہا، نہ امان، طعام ہے نہ تعلیم، حتیٰ کہ زندگی کا حق بھی چھین لیا گیا، مگر ہم قطر حکومت کے شُکر گزار ہیں کہ ہمیں اکٹھا کیا اوراب ہم اپنی بساط بَھر کوششوں کو مجتمع کریں گے۔ غزہ ہماری عزّت کا نشان ہے۔

ہمیں اپنی آنے والی نسلوں کو اقصیٰ کی محبّت سے سرشار کرنا ہے اور اُن کی ایسی تربیت کرنی ہے کہ وہ فلسطین اور القدس کی آزادی کے لیے تیار ہوں۔ ہر راستہ، ایک چھوٹے سے قدم کے آغاز سے منزل کی طرف جاتا ہے۔ ہمیں عورتوں کو، عورتوں کی مدد کے لیے تیار کرنا ہے۔‘‘ اُنھوں نےاپنے چھوٹے چھوٹے عملی اقدامات سے آغاز کی داستان بیان کی کہ’’ ہم نے سب سے پہلے ایک پراجیکٹ کا آغاز W2W کے عنوان سے کیا، جس کا مطلب’’ویمن ٹو ویمن‘‘ یعنی ہر عورت، دوسری عورت کے ساتھ اپنی شراکت کے لیے تیار ہو۔ 

ہر عورت، دوسری عورت کو فلسطین کی عورت کی مدد کے لیے تیار کرے اور پھر W4W ویمن فار ویمن ،یعنی ہر عورت، دوسری عورت کی مدد اور معاونت کے لیے تیار ہو۔ W2W سے W4W کا یہ سفر بہت تیزی سے ممکن ہو رہا ہے اور ملائیشیا میں ہم نے فلسطین کے لیے ان چھوٹی Sanitary Kits سے آغاز کیا کہ ہم دھونے کے قابل Sanitary pads بنا رہے ہیں اور وہ فلسطین بھیج رہے ہیں۔عورتیں اور بچّے اس جنگ میں سب سے زیادہ متاثر ہو رہے ہیں۔ عورتوں کی فطری ضروریات، پانی اور واش روم سب سے بڑا مسئلہ بن کر انسانیت کا منہ چڑا رہے ہیں۔ لاکھوں خواتین اور لڑکیاں ان بنیادی ضرورتوں کی منتظر ہیں۔

ہم سمجھ رہے تھے کہ کووِڈ کی تباہی سے انسانیت نے نجات حاصل کر لی ہے، مگر غزہ کے غم اور تباہی نے ہم سے انسانیت کی بنیادی اقدار بھی چھین لی ہیں۔‘‘ اِن باتوں پر پورا ہال فلسطین کی مدد اور’’ لبیّک یا اقصیٰ ‘‘ کے نعروں سے گونج اُٹھا۔ ترکش پارلیمان کی رُکن، یلدیز کو ناکلی اور روضہ قواقچی نے ارضِ فلسطین سے متعلق بات کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ’’فلسطین نے جن بے گھر لوگوں کو پچھلی صدی کے آغاز میں امان دی، اب وہ یہاں کے اصل باشندوں کو بے گھر کرنے پر تُلے ہوئے ہیں۔ 

یوکرین اور فلسطین پر استعماری ممالک کی دو رنگی سمجھ سے باہر ہے۔ یوکرین کے لیے ایک پالیسی اور فلسطین کے لیے دوسری پالیسی سے یہ بات عیاں ہو رہی ہے کہ دنیا کو اب اپنی پالیسیز ازسرِ نو ترتیب دینی چاہئیں۔ اِس لیے کہ اب دنیا پانچ طاقتوں سے بڑی ہے۔ ہم قطر میں اِس کانفرنس میں شریک ہیں، مگر ہمارے دل غم و الم سے بَھرے ہوئے ہیں۔ دن کو چین ہے، نہ رات کو نیند آتی ہے اور نہ ہی حلق سے کچھ اُترتا ہے۔‘‘ڈاکٹر بیثنہ عبدالغنی قطر کے’’ عبدالغنی فاؤنڈیشن‘‘ کی سربراہ ہیں۔ 

اُنھوں نے اپنی گفتگو میں کہا کہ’’ اگر ہم جسدِ واحد ہیں اور یقیناً ہیں، تو کیوں ہم فلسطینیوں کے حقوق، روز و شب کے معاملات، غم والم اور اُن کے بچّوں، عورتوں اور جوانوں سے غافل ہیں، حالاں کہ ہمیں حضور صلی اللہ علیہ وسلّم نے نصیحت کی ہے کہ’’القدس شریف کے چراغوں کے لیے تیل بھیجو۔‘‘، القدس میں علمی حلقے قائم تھے، یہ ہماری تہذیب کا نشان ہے اور اُسے صفحۂ ہستی سے مٹایا جا رہا ہے۔‘‘الجزائر کی انسانی حقوق کی سابق وزیر، سلیمہ سواکری نے فلسطینی خواتین کو یقین دہانی کرواتے ہوئے کہا کہ’’ نحن صوتکم‘‘ یعنی ہم آپ کی آواز ہیں۔‘‘

بحرین کی رُکن پارلیمان، زینب عبدالامیر نے اس موقعے پر کہا کہ’’ ہم ایک قوم ہیں، ایک ہی قبیلے سے تعلق رکھتے ہیں، ہمارے دُکھ اور سُکھ ایک ہیں۔‘‘ اُردن کی سابق رکن پارلیمان، ڈاکٹر عتوم نے کہا کہ ’’جب اللہ کا حکم آتا ہے، تو موسیٰ ؑ سمندر سے بحفاظت نکل آتے ہیں اور سمندر اپنی عادت ( غرق کرنا) بھول جاتا ہے اور حضرت ابراہیمؑ کو آگ جلانا بھول جاتی ہے۔‘‘ الجزائر سے عائشہ بالحجر مخاطب ہوئیں۔’’ ہم ہمیشہ سے آپ کے دل کی آواز ہیں اور رہیں گی۔‘‘ایک فلسطینی امریکن نے، جو انسانی حقوق کی کارکن ہیں، کہا کہ’’ مَیں ماؤں کی طرف سے یہ دُکھ بَھری حقیقت بیان کر رہی ہوں کہ دنیا بَھر میں ماؤں کے حقوق پر بہت بات ہوتی ہے، مگر30 ہزار فلسطینی بچّے کبھی بھی اپنی ماؤں کو نہ دیکھ پائیں گے۔‘‘ 

اُنھوں نے اپنی جذباتی تقریر میں گونگے، بہرے بن جانے پر اقوامِ عالم کو شرمندگی کا احساس دِلایا کہ سال گزرنے کے بعد بھی کوئی اسرائیل کو ظلم سے باز نہیں رکھ سکا۔ لیبیا سے ڈاکٹر ماجدہ الفلاح اور بوسنیا سے ایرنا شو شیفثں نے کہا کہ’’ ہم جنگ زدہ مُلک کی باسی ہیں اور ہم نے بھی بدترین نسل کُشی دیکھی ہے۔ بوسنیا کی جنگ میں جب مَیں زندہ بچ گئی، تو اپنی زندگی جنگ زدہ عورتوں کی فلاح و بہبود کے لیے اور اُنھیں ہُنرمند بنانے کے لیے وقف کردی۔ مَیں نے خُود بھی ہُنر سیکھے اور اب ایسی کوششوں کا آغاز کیا ہے کہ دوسری خواتین بھی ہُنرمند بن جائیں۔ 

مَیں فلسطینی خواتین کے تجربات کو آن لائن شیئر کرتی ہوں اور اب Innovation اور digital Media کے ذریعے عورتوں کو خود کفالت پر آمادہ کرتی اور ہنر مند بناتی ہوں۔نیز، فلسطینی لیڈر شپ ٹریننگ انسٹی ٹیوٹ کی ڈائریکٹر بھی ہوں۔‘‘ استاذہ سحر عزازی اور مصر سے سابقہ پارلیمنٹرین، وحیدی غنیۃ فلسطین کے لیے بین الپارلیمانی یونین میں کام کرتی ہیں اور بچّوں کی بنیادی ضروریات کے بیگ تیار کرنے کا کام کر رہی ہیں۔ 

ملائیشیا کی ڈاکٹر فوزیہ حسن نے اپنے40 سال کے تجربات کی روشنی میں اپنی کہانی سُنائی کہ’’ مَیں چالیس سال سے طب کے شعبے میں کام کر رہی ہوں، مگر ایسی نسل کُشی اور ایسے مظالم کبھی سُنے اور نہ کبھی دیکھے۔ مَیں کچھ سال پہلے غزہ کا محاصرہ ختم کرنے والی مہم’’ فریڈم فلوٹیلا‘‘ میں بھی گئی تھی، مگر ہمیں ڈی پورٹ کر دیا گیا۔ 

ہم نے غزہ کا محاصرہ ختم کروانے کی بہت کوششیں کیں، مگر شرم کا مقام ہے کہ کوئی بھی آزاد مُلک ہماری مدد کو نہیں پہنچ رہا۔ بحری جہاز کو سمندر میں سفر کے لیے کسی مُلک کے جھنڈے کی ضرورت ہوتی ہے، مگر انسانیت سے محبّت کرنے والا کوئی ایک بھی مُلک ہمیں اپنا جھنڈا لگانے کی اجازت نہیں دے رہا۔‘‘ تھائی لینڈ سے’’ النور فاؤنڈیشن‘‘ نے دس ہزارڈالر دے کر Dignity Kit for women بنانے کا آغاز کیا ہے۔ تیونس کی فائزہ نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ’’ ہمیں ایک دوسرے کے ہاتھوں میں ہاتھ ڈال کر فلسطین کے مظلوم انسانوں کے لیے کام کرنا ہے۔‘‘

اِس کانفرنس کا ایک اہم ترین جزو، میڈیا سیشن تھا اور اس کے مہمانِ خصوصی’’ الجزیرہ‘‘ سے وابستہ غزہ کے ہیرو، وائل الدحدوح تھے۔ اُن کے سامنے آتے ہی ہال میں انقلاب کی لہریں دوڑتی محسوس ہوئیں۔ وہ دل کی باتیں دِلوں سے قریب ہو کر رہے تھے۔’’ من القلب الی القلب‘‘ اور’’ Mind and Heart‘‘ بھرپور سیشن تھا۔ جب اُن کا پورا خاندان شہید کر دیا گیا تھا اور اُنھوں نے نعرۂ مستانہ لگایا کہ’’معلش‘‘یعنی’’ تو پھر کیا ہوا؟‘‘اِس سیشن میں ایسے ایسے صحافیوں سے ملاقات ہوئی اور اُن کی داستانِ ہوش رُبا سُنی کہ حیرت سے انگلیاں دانتوں میں داب لیں۔ 

صہیونیوں کے ظلم و ستم کی داستانیں، فلسطینیوں نے ایسے قلم بند کر لی ہیں کہ آنے والی نسلیں ظالموں پر لعنتیں کریں گی۔ اہلِ غزہ نے’’ قوّۃ السلاح - قوّۃ البلاغ‘‘ یعنی’’ ابلاغ کی قوّت، اسلحے کی قوّت سے کم نہیں‘‘ کے مصداق کیمرے کو اپنا ہتھیار اور سوشل میڈیا کو اپنی قوّت بنا لیا ہے۔ اٹلی کی نوجوان صحافی، جس نے’’ Florence for GHAZZA ‘‘نامی ایک تنظیم بنائی ہے، کہہ رہی تھیں کہ’’ فلسطینی ماؤں کے ہاتھ چُومنے کو دل کرتا ہے کہ ان ہاتھوں نے ایک عالی شان تہذیب تشکیل دی ہے۔ 

ان کا لباس، ان کا رہن سہن، ان کے کھانے اور ان کا ادب و ثقافت سب ایک خُوب صُورت تمدّن کو آشکار کرتے ہیں۔ ہم تبدیلی کی لہریں اور انقلاب کی آوازیں بنیں گی۔ انقلاب کی ان لہروں کو اب کوئی بھی نہیں روک سکے گا۔ کوئی بھی فلسطین سے متعلق بات کرنے سے نہیں رُکے گا۔‘‘ اِس سیشن میں ایسے ایسے ایمان افروز واقعات سُننے کو ملے کہ ایمان تازہ ہو گیا۔ ہال، بار بار تکبیر کے نعروں سے گونج اُٹھتا کہ’’ ہم غزہ کے باسی ہیں، ہم کبھی شکست نہیں کھاتے۔‘‘

غزہ کی جنگ نے سارے انسانی قوانین اور اخلاقی اقدار کی دھجیاں بکھیر دی ہیں۔ کوئی ڈاکٹر متاثرین کا علاج کر سکتا ہے اور نہ ہی صحافی جنگ کی رپورٹنگ کر سکتے ہیں۔ بچّوں کی اُدھڑی لاشوں اور ملبوں کے ڈھیروں پر آنسو بہاتی ماؤں کو دیکھ کر بے اختیار لب پر یہ فریاد آگئی۔؎’’خالقِ وقت! اتنا بتا…کیا وہ لمحہ بھی تیری ہی تخلیق تھا…جس گھڑی میرے شہروں کی بستی ہوئی بستیاں…قتل کر دی گئیں، خوں سے بَھر دی گئیں…اور اے لامکانوں کے تنہا مکیں…!! تیرے گھر کو گرانے جو آیا کوئی…تو پرندے پیام اجل بن گئے…اور میرے شہر میں کتنے آباد تھے، جو مکاں جل گئے…اور پرندوں کے سب آشیاں جل گئے…ابرہہ اور اُس کے سبھی لشکری…تیرے دَر سے جو ناکام لوٹے تو کیا…میرے شہروں پہ یوں آ کے وارد ہوئے…ہم زمیں زاد لوگوں کے گھر لُٹ گئے…آشیاں گر پڑے اور شجر لُٹ گئے…ربِ کعبہ! تجھے تیرے گھر کی قسم…جو سلامت رہا اور سلامت رہے…تاقیامت رہے…میرے برباد شہروں کی فریاد سُن…ابرہہ کا جہاں لشکرِ فیل ہے…ہم کو پھر انتظارِ ابابیل ہے…ہم کو پھر انتظارِ ابابیل ہے۔‘‘

سنڈے میگزین سے مزید