سپریم کورٹ کے جج جسٹس جمال مندوخیل نے کہا ہے کہ میں چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے فیصلے سے اتفاق کرتا ہوں، میں فیصلے میں اپنی رائے شامل کرنا چاہتا ہوں۔
پنجاب میں الیکشن ٹربیونلز کے خلاف دائر اپیل کے فیصلے پر اضافی نوٹ میں جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ ایکٹ کا سیکشن 140 الیکشن کمیشن کو ججز پینل طلب کرنے کا اختیار نہیں دیتا۔
انہوں نے کہا کہ مقننہ کی اس قانون میں سوچ واضح ہے، مقننہ نے الیکشن کمیشن کو ججز پینل مانگنے اور ان میں سے انتخاب کا اختیار نہیں دیا، الیکشن کمیشن کو ہر جج پر اعتماد کرنا چاہیے، الیکشن کمیشن ایک ٹربیونل کے لیے ایک ہی جج کے نام کا مطالبہ کر سکتا ہے۔
جسٹس جمال مندوخیل کا کہنا ہے کہ الیکشن کمیشن ایک آئینی ادارہ اور ججز آئینی عہدیدار ہیں، ہر معاملے میں الیکشن کمیشن اور ججز کو ایک دوسرے کا احترام کرنا چاہیے، الیکشن کمیشن اور لاہور ہائی کورٹ کے ججز کے درمیان باقاعدہ مشاورت نہیں ہوئی، چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ اور الیکشن کمیشن کی مشاورت کا نتیجہ ہمارے سامنے اتفاق کی صورت میں آیا، اُمید ہے اب الیکشن کمیشن ٹربیونلز کی تشکیل کے لیے اقدامات کرے گا، اُمید ہے الیکشن ٹربیونلز میں قانون کی دی گئی مدت کے اندر فیصلے ہوں گے۔
واضح رہے کہ آج سپریم کورٹ آف پاکستان نے پنجاب میں الیکشن ٹربیونلز کے خلاف دائر اپیل پر محفوظ کیا گیا فیصلہ سنا دیا۔
چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں 5 رکنی لارجر بینچ نے الیکشن کمیشن کی اپیل پر سماعت کی تھی اور فیصلہ محفوظ کیا تھا۔
سپریم کورٹ کا فیصلہ پانچ صفر سے آیا ہے، جس میں عدالت نے لاہور ہائی کورٹ کے سنگل بینچ کا 12 جون 2024ء کا فیصلہ کالعدم قرار دے دیا۔
سپریم کورٹ نے الیکشن کمیشن کی اپیل منظور کرتے ہوئے لاہور ہائی کورٹ کا فیصلہ کالعدم قرار دیا ہے۔
فیصلے میں سپریم کورٹ نے کہا ہے کہ لاہور ہائی کورٹ کے سنگل بینچ کا فیصلہ بطور عدالتی نظیر بھی پیش نہیں کیا جا سکتا۔
سپریم کورٹ کا کہنا ہے کہ ہائی کورٹ کے جج نے چیف الیکشن کمشنر اور چیف جسٹس کی ملاقات نہ ہونا مدِ نظر نہیں رکھا، اگر ملاقات نہ ہونا مدِ نظر رکھتے تو ایسا فیصلہ نہ کیا جاتا، تنازع جب آئینی ادارے سے متعلق ہو تو محتاط رویہ اپنانا چاہیے۔
عدالت نے کہا کہ الیکشن کمیشن نے استدعا کہ تھی کہ الیکشن ٹربیونلز کی تشکیل الیکشن کمیشن کا اختیار ہے، الیکشن کمیشن کا مؤقف تھا کہ ہائی کورٹ الیکشن کمیشن کے اختیارات استعمال نہیں کر سکتی۔