• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پنجاب میں الیکشن ٹربیونلز کیخلاف اپیل، لاہور ہائیکورٹ کا فیصلہ کالعدم قرار


سپریم کورٹ آف پاکستان نے پنجاب میں الیکشن ٹربیونلز کے خلاف دائر اپیل پر محفوظ کیا گیا فیصلہ سنا دیا۔

چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں 5 رکنی لارجر بینچ نے الیکشن کمیشن کی اپیل پر سماعت کی تھی اور فیصلہ محفوظ کیا تھا۔

سپریم کورٹ کا فیصلہ پانچ صفر سے آیا ہے، جس میں عدالت نے لاہور ہائی کورٹ کے سنگل بینچ کا 12 جون 2024ء کا فیصلہ کالعدم قرار دے دیا۔

سپریم کورٹ نے الیکشن کمیشن کی اپیل منظور کرتے ہوئے لاہور ہائی کورٹ کا فیصلہ کالعدم قرار دیا ہے۔

فیصلے میں جسٹس جمال مندوخیل اور جسٹس عقیل عباسی کا اضافی نوٹ بھی شامل ہے۔

فیصلے میں سپریم کورٹ نے کہا ہے کہ لاہور ہائی کورٹ کے سنگل بینچ کا فیصلہ بطور عدالتی نظیر بھی پیش نہیں کیا جا سکتا۔

سپریم کورٹ کا کہنا ہے کہ ہائی کورٹ کے جج نے چیف الیکشن کمشنر اور چیف جسٹس کی ملاقات نہ ہونا مدِ نظر نہیں رکھا، اگر ملاقات نہ ہونا مدِ نظر رکھتے تو ایسا فیصلہ نہ کیا جاتا، تنازع جب آئینی ادارے سے متعلق ہو تو محتاط رویہ اپنانا چاہیے۔

عدالت نے کہا کہ الیکشن کمیشن نے استدعا کہ تھی کہ الیکشن ٹربیونلز کی تشکیل الیکشن کمیشن کا اختیار ہے، الیکشن کمیشن کا مؤقف تھا کہ ہائی کورٹ الیکشن کمیشن کے اختیارات استعمال نہیں کر سکتی۔

واضح رہے کہ 24 ستمبر کو سپریم کورٹ نے الیکشن ٹربیونلز کی تشکیل کے لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف الیکشن کمیشن کی اپیل پر فیصلہ محفوظ کیا تھا۔

 پنجاب الیکشن ٹربیونلز کیس کا تحریری فیصلہ

سپریم کورٹ نے پنجاب الیکشن ٹربیونلز کیس کا تحریری فیصلہ جاری کر دیا۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے 11 صحفات پر مشتمل فیصلہ تحریر کیا ہے۔

تحریری فیصلے میں کہا گیا ہے کہ الیکشن ٹربیونلز کی تشکیل کا لاہور ہائی کورٹ کا فیصلہ کالعدم قرار دیتے ہیں، لاہور ہائی کورٹ نے الیکشن ایکٹ کی دفعات کی غلط تشریح کی، عدالت نے آئین میں ترمیم سے پہلے کے عدالتی فیصلوں پر انحصار کیا، الیکشن کمیشن آئینی ادارہ ہے، ہائی کورٹ کے چیف جسٹس بھی آئینی دفتر کے رکھوالے ہیں۔

سپریم کورٹ کا کہنا ہے کہ الیکشن کمیشن اور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کا بہت احترام ہے، دونوں فریقین میں اگر براہ راست ملاقات وقوع پذیر ہوتی تو معاملات اس نہج پر نہ پہنچتے، الیکشن کمیشن کے مطابق چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ سے بامعنی مذاکرات ہوئے، چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ اور الیکشن کمیشن کے مابین اتفاق ہو گیا ہے، اب الیکشن کمیشن اور لاہور ہائی کورٹ چیف جسٹس کے درمیان معاملہ حل ہو گیا، چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ اور الیکشن کمیشن کے کردار کو سراہتے ہیں۔

تحریری فیصلے میں کہا گیا کہ لاہور ہائی کورٹ کے جج نے الیکشن کمیشن اور چیف جسٹس کے درمیان مذاکرات کا فقدان ملحوظِ خاطر نہ رکھا، اگر لاہور ہائی کورٹ کے جج مذاکرات کے فقدان کو ملحوظِ خاطر رکھتے تو ایسا فیصلہ ہی نہ جاری کرتے،  لاہور ہائی کورٹ کا فیصلہ کالعدم قرار دیا جاتا ہے، الیکشن کمیشن کی اپیلیں منظور کرتے ہیں۔

فیصلے میں جسٹس جمال مندوخیل کا تین صفحات پر مشتمل اضافی نوٹ بھی شامل کیا گیا ہے۔

جسٹس جمال مندوخیل کا اضافی نوٹ

اضافی نوٹ میں جسٹس جمال مندوخیل نے کہا ہے کہ میں چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے فیصلے سے اتفاق کرتا ہوں، میں فیصلے میں اپنی رائے شامل کرنا چاہتا ہوں۔

انہوں نے کہا کہ ایکٹ کا سیکشن 140 الیکشن کمیشن کو ججز پینل طلب کرنے کا اختیار نہیں دیتا، مقننہ کی اس قانون میں سوچ واضح ہے، مقننہ نے الیکشن کمیشن کو ججز پینل مانگنے اور ان میں سے انتخاب کا اختیار نہیں دیا، الیکشن کمیشن کو ہر جج پر اعتماد کرنا چاہیے، الیکشن کمیشن ایک ٹربیونل کے لیے ایک ہی جج کے نام کا مطالبہ کر سکتا ہے۔

جسٹس جمال مندوخیل کا کہنا ہے کہ الیکشن کمیشن ایک آئینی ادارہ اور ججز آئینی عہدیدار ہیں، ہر معاملے میں الیکشن کمیشن اور ججز کو ایک دوسرے کا احترام کرنا چاہیے، الیکشن کمیشن اور لاہور ہائی کورٹ کے ججز کے درمیان باقاعدہ مشاورت نہیں ہوئی، چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ اور الیکشن کمیشن کی مشاورت کا نتیجہ ہمارے سامنے اتفاق کی صورت میں آیا، اُمید ہے اب الیکشن کمیشن ٹربیونلز کی تشکیل کے لیے اقدامات کرے گا، اُمید ہے الیکشن ٹربیونلز میں قانون کی دی گئی مدت کے اندر فیصلے ہوں گے۔

لاہور ہائیکورٹ کا فیصلہ

لاہور ہائی کورٹ نے 12 جون کو پنجاب الیکشن ٹربیونلز پر فیصلہ سناتے ہوئے پنجاب میں 6 الیکشن ٹربیونلز تشکیل دیے تھے۔

عدالت نے ٹربیونلز کے لیے ججز تعیناتی کا نوٹیفیکیشن جاری کر دیا تھا۔

الیکشن کمیشن نے سپریم کورٹ میں لاہور ہائی کورٹ کا فیصلہ چیلنج کیا تھا۔

قومی خبریں سے مزید