قارئین کرام! خصوصاً ملکی صاحبان اقتدار اور شہر اقتدار پاکستان میں براجمان ترجمان و نمائندگان! آپ کی توجہ مطلوب اور غور وفکر کی استدعا ہے کہ:حالت وطن بہت نازک و خستہ و پیچیدہ، بحران گھمبیر اور گرداب کی گہرائی اور چکر تیز تر۔ ملکی حیثیت و اہمیت کے حوالے سے ہم خطے ہی نہیں عالم جنگ و امن و استحکام کے ایک بڑے اور اہم مانے جانے کردار و ذمے دار رہے اور ہیں۔ ذہین نشین رہے ہمارے اس تشخص کو سب متعلقہ ممالک خوب مانتے یا جانتے اور اپنے قومی مفادات کی عینک سے پاکستان پر نظر رکھ کر باہمی فوائد یا نرے ہمارے خسارے کی اپنی پالیسی و فیصلہ سازی کرتے ہیں۔ قارئین کرام! آپ آگاہ ہیں کہ گزشتہ اڑھائی تین سال سے ’’آئین نو‘‘ میں پاکستان کی اسی موجود اور ظہور پذیر تزویراتی حیثیت کی طرف تکرار سے توجہ دلاتے، بار بار واضح کیا گیا کہ اب ہمیں اپنے گھمبیر قومی معاشی بحران سے نکلنے کی یہ ہی سب سے ساز گار صورت اور راہ نظر آ رہی ہے جو ہم سے زیادہ دنیا پر واضح ہو رہی ہے لیکن ہماری سیاست و حکومت کی بے لچک پسماندگی اس درجے پر پہنچ گئی ہے کہ ہمارے کرتا دھرتائوں میں شامل انائوں اور گروہی بندش کے مارے بااختیاروں نے اپنے ذاتی مسائل سے ملک میں ایسا انٹرا کنٹری کنفلکٹ (داخلی تنازعہ) پیدا کیا کہ یہ تا دم قابو سے باہر اور پھیلتا ہی جا رہا ہے، تاہم ایسے میں تیزی سے بیدار ہوتے قومی معاملات کا شعور پکڑتے استحصال زدہ عوام نے اپنی ابتری میں بھی قوم و ملک سے وفا کا تقاضا پورا کرتے ملک کو بحران سے نکالنے کی کمال حاکمانہ جدوجہد کا آغاز کیا۔ ان کی اپنی اجتماعی رائے سازی کی تشکیل اور پولیٹکل کیپسٹی بلڈنگ کی صلاحیت میں عوام نے مسلسل اضافہ خود کیایا کسی مخصوص غیر روایتی ابلاغی دھارے سے تسلسل کے ساتھ ہوا اور بڑی رکاوٹوں کے بعد بھی جب 8فروری کو انہیں پاکستان کو طوفانی بھنور سے نکالنے کا موقع کٹھن صورتحال میں ہی ملا تو عوام نے آئین پاکستان کے دیئے حق ووٹ کا استعمال کرتے کمال خاموشی و ہوشیاری سے وہ کام کردکھایا جسے متنازع نگران حکومت خالی خولی پارلیمان، مقننہ، عدلیہ، فریق بنے الیکشن کمیشن اور اپنے تئیں چالاک افسر شاہی نے بری طرح بگاڑا تھا۔ ملک کو گھمبیر سیاسی و معاشی و انتظامی اور سب سے بڑھ کر اخلاقی بحران سے نکالنے کی شدید قومی ضرورت کا اہتمام جب خود ووٹرز نے قوت اخوت عوام (عوامی مینڈیٹ) سے حل کا آغاز کیا تو برے وقت کی پاکستانی اولیگارکی (مافیہ راج) ان کے مقابل لڑنے بھڑنے پر آ گئی، جسے الیکشن کے نتیجے میں عوام کے حقیقی رائے و فیصلے سے بنا حکومتی سیٹ ، پارلیمان، وزارت اور تازہ دم انتظامیہ کسی طور قبول نہیں، سو برسوں سے اپنی ماورائے آئین طاقت و پوزیشن کم تر و ختم ہوتی نظر آئی تو ایکسٹینشن، اکثریت بزور روایتی سیاست و ناجائز اختیار و دولت عوام کے فیصلے کو اپنے من پسند مطابق عدالتی بنچوں اور ’’ججز‘‘ و کلا کے مخصوص ٹولے کے ذریعے عدالتی تنازع پیدا کیا، اسے اتنا بڑھایا کہ پاکستان، اس کے عوام، ان کے بنائے متفقہ آئین و قانون پر، پاکستانی اولیگارکی (مافیہ راج) کا مکمل ماورا ئےآئین غلبہ ہوگیا۔ اس سارے تناظر میں حکومت وقت پوری قوم، آئین و قانون، پی ڈی ایم کے بانی رہنما حضرت مولانا صاحب، بپھرے عوام اپنی پارٹی چھوڑ گئے سابقہ وفا شعار شدید ناراض وکلا اور بیرون ملک ستر اسی لاکھ پریشان پاکستانیوں کو یکسر نظر انداز کر کے ایک بار پھر ہارس ٹریڈنگ اور دھونس سے اپنے تئیں منتخب نمائندگان کی وفاداریاں تبدیل کر کے من مرضی سے آئین پاکستان تبدیل کرنے کی مہم جاری رکھے ہوئے ہیں جسے گزشتہ روز کی سپریم کورٹ کے حد درجہ متنازع ہو گئے 5رکنی بینچ کے فیصلے سے تقویت ملی ہے لیکن جتنی ملی ہے اس سے بڑھ کر اس کے خلاف ردعمل ہوا اور مزید ہوتا واضح نظر آ رہا ہے اگر 47والی حکومت دوسرے رائونڈ میں متنازع بینچ کے فیصلے سے دوسرے رائونڈ میں کامیاب ہو بھی گئی تو نظام چلانے کیلئے کچے دھاگے سے بندھی، بقول مولانا ،ناجائز حکومت کا دھاگہ اور عوامی فیصلےسے متصادم بنایا حکومتی فریم ٹوٹ نہ جائے اور ملک و قوم ایک بڑے گڑھے میں نہ جا گرے، ایسا ہونا اب خارج از امکان نہیں کہ کراچی میئر کے متنازع ترین انتخاب سے پہلے پی پی کا میئر ہونے کا زور دعویٰ کرنے والے بلاول زرداری اب من مانی ترمیم کا قلعہ فتح کرنے کے دعویدار ہیں واضح رہے کراچی میئر کے انتخاب میں پی ٹی آئی اور دوسرے پینتیس چالیس کونسلروں کو مقام انتخاب سے جبراً دور کرکے جماعت اسلامی کے امیدوار حافظ نعیم صاحب کو ہرا کر مقابل پی پی کے امیدوار کو میئر بنوایا گیا اب تو بلاول خود وزارت عظمیٰ کا خواب دیکھ رہے ہیں یا کوئی انہیں دکھا رہا ہے۔ اس کے باوجود یقیناً قوم کو اس مہم جوئی کا کامیاب ہلہ ہضم ہوتا نہیں لگ رہا ۔اب پاکستان میں یہ مکمل ثابت شدہ کیس ہے کہ وائے بدنصیبی، مملکت خداداد (قیام مملکت کی حد تک) کسی حد تک محدود مافیا راج کا خواص مکمل بے لچک اور اس کی اسٹیٹس کو کنڈیشن کسی طور کم نہیں ہو گی لیکن یہ بھی کھلا راز ہے کہ خلق خدا خواہ مہنگائی کی ماری ہو یا فسطائیت اور انتظامی دھونس دھاندلی کی یہ ’’اسلامی جمہوریہ‘‘ کنٹینروں، دھونس، دھاندلی سے ’’فتح‘‘ کی جا سکے گی نہ ہی بقول بانی پی ڈی ایم حضرت مولانا صاحب اور سابق وفا شعاران ن لیگ، سپریم کورٹ کے فل بینچ کے فیصلے کے مقابل 5ججز کا فیصلہ عوام کے لئے قابل قبول نہ ہو گا، واضح رہے ہر دو نے ملک پر پڑے اس نازک وقت میں راہ راست پر چلتے عوام کا ساتھ دینے کیلئے پی ڈی ایم اور ن لیگ سے دوری اور علیحدگی اختیار کی اور عوام کے ساتھ تحفظ آئین پاکستان کیلئے ڈٹ گئے۔
قارئین کرام عجب ہے کہ پاکستان اپنی محدود ’’پاور فل‘‘ اولیگارکی بمقابلہ عوام و آئین کے باعث آج اپنی تاریخ کے بدترین آئینی سیاسی و معاشی و انتظامی بحران سے دوچار ہے یہ ہی حالت پورے عالمی معاشرے کی ہے فرق صرف اتنا کہ ہماری داخلی سیاست کی اولیگارکی کے مقابل فریق حاصل و محافظ قوت اخوت عوام اس کی بھاری اکثریت اور اس کی مینڈیٹ یافتہ 45والی آئینی قوت ہے ایک قومی سیاسی جماعت ہے جبکہ غزہ و لبنان کو مٹانے کا ہدف بنائے عالمی اولیگارکی (غالب مافیا) کی یو این چارٹر و قراردادوں کی دھجیاں اڑاتا اسرائیل فلسطینیوں کو مٹانے اور اب لبنان پر قبضے کا ہدف بنائے پورے عالمی معاشرے و امن کیلئے ایک انتہائی سنجیدہ خطرہ بن گیا ہے عالمی معاشرہ اپنی اپنی حکومت کے برعکس صرف احتجاج و مذمت تک محدود ہے اور عالمی مافیہ راج اسرائیل کا مکمل پشت پناہ جبکہ تنہا ایران فلسطین ایران کی ایک لبنانی معاون تنظیم اور فلسطینی سیاسی پلیٹ فارم کی مزاحمت کر رہے ہیں لیکن کیاپورے عالمی معاشرے امن و مفادات کو تنہا ایران اور اس کے محدود اطرافی معاونین یو این چارٹر جو پہلے عالمی اولیگارکی کے کردار اور اسرائیل و بھارت کی پشت پناہی سے عالمی امن کو موجود ابتر حالت پر بھی قائم رکھ سکتے ہیں؟ دنیا کے سامنے بلین ڈالر سوال ہے۔ وماعلینا الالبلاغ