• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بہت عرصہ سے پاکستانی عوام میاں نواز شریف کی مسلسل چپ پر چپ چپ سے رہنے لگے تھے۔ ایک دوسرے سے پوچھتے تھے کہ میاں صاحب کی اس خاموشی کی وجہ کیا ہے۔کیونکہ لندن سے ان کی واپسی پر لوگوں نے ان سے بہت امیدیں وابستہ کر لی تھیں۔انتخابی مہم بھی انہی کے حوالے سے چلائی گئی تھی اور اس پس منظر میں ایک بہت خوبصورت سلوگن تیار کیا گیا تھا ’’پاکستان کو نواز دو‘‘ سو ایسا ہی ہوا مگر عملی طور پر نواز شریف نے کوئی ذمہ داری قبول نہ کی بس آخر میں جاکر انہوں نے مسلم لیگ (ن) کی صدارت قبول کی اور گاہے گاہے اجلاس کی صدارت کرتے دکھائی دیئے ۔مریم نواز پنجاب کی وزیر اعلیٰ اور شہباز شریف پاکستان کے وزیر اعظم ہیں اور میاں صاحب نتیجتاً ان کی رہنمائی کرتے ہوں گے ۔تاہم عوام میں نظر نہیں آتے اب اللّٰہ اللّٰہ کرکے دو روز بیشتر پنجاب حکومت کی اپنی چھت اپنا گھر اسکیم کے افتتاح کے موقع پر انہوں نے خطاب کیا۔اگرچہ بہت زیادہ طویل نہیں تھا مگر پھر بھی غنیمت تھا کہ کفر ٹوٹا خداخدا کرکے والا معاملہ تھا ۔میاں صاحب کو کچھ زخم ایسے پہنچے ہیں کہ ان کے دل سے ان کی ٹیسیں بار بار اٹھتی ہیں اور وہ بے جا نہیں ہیں ایک شخص نے جو پاکستان کی محبت میں تین دفعہ وزارت عظمیٰ کی قربانی دے چکا ہو مگر اس کے باوجود زیادہ سے زیادہ کمپرومائز یہ کیا ہو کہ زباں بندی اختیار کر لی ہو۔ یہ وہ شخص ہے جسے اس کی بیوی سے جو اس کی پہلی اور آخری محبت تھی دم مرگ بھی اس کے سفر آخرت میں شمولیت کی اجازت نہ دی گئی ہو ۔جسے کراچی سے جہاز میں ہتھکڑیاں باندھ کر لایا گیا ہوجس کی بیٹی کو اس کے سامنے گرفتار کیا گیا ہو۔میاں صاحب کو ڈیتھ سیل میں رکھا گیا ہو جہاں روشنی کو اور کسی انسانی آواز کو اندر آنے کی اجازت نہ ہو ۔جس کے لندن میں قیام کے دوران گندے لوگوں کا ایک ٹولہ ان کے گھر کے باہر کھڑا ہو کر گالی گلوچ کرتا رہا ہو اور جسے عدل وانصاف کی پیکر عدلیہ نے صرف اس الزام میں مجرم گردانا ہو کہ انہوں نے کاغذات میں اس تنخواہ کا ذکر کیوں نہیں کیا جو انہوں نے وصول ہی نہیں کی تھی۔ جسے عمران خاں اور اس کے لونڈے لپاڑےہر وقت چور، ڈاکو ،لٹیرا کی گردان کرتے نظر آئیں جس پر سارے الزامات جھوٹ کا پلندہ نکلے، پانامہ کا شور مچایا اور اس میں سے غنڈہ پارٹی کو صرف اقامہ کی شرمندگی حاصل ہوئی۔

میں نے یہ تفصیل اس لئے بیان کی کہ نواز شریف کے دل کے یہ زخم مندمل ہونے والے نہیں ۔ چنانچہ وہ ہر دفعہ اس کا ذکر کرتے ہیں اور یہ گلہ بھی کہ لوگ ان کیلئے سڑکوں پر کیوں نہیں آئے اس میں کوئی شبہ نہیں کہ نواز شریف پاکستان کو ایشیا کی ایک تجارتی راہداری بنانا چاہتے تھے ۔چنانچہ انہوں نے سارے ملک میں موٹر ویز کے جال بچھا دیئے وہ کشمیر سے دستبردار ہونے کا سوچ بھی نہیں سکتے مگر وہ چاہتے تھے کہ چین کا جن علاقوں کی ملکیت کا دعویٰ ہے وہ دعویٰ برقرار ہے مگر ان سے تجارتی معاملات جاری ہیں ۔ نواز شریف بھی یہی چاہتے تھے کہ انڈیا سے تجارتی روابط بحال ہوں اس کے نتیجے میں پاکستان کو اربوں کھربوں ڈالر راہداری کے طور پر وصول ہونا تھے کہ سارا مال پاکستان ہی سے ہو کر گزرنا تھا مگر نواز کا یہ ’’گناہ‘‘ ابھی تک ناقابل معافی ہے۔باقی رہا میاں صاحب کا عوام سے یہ گلہ کہ جب ان کے ساتھ یہ زیادتیاں ہو رہی تھیں عوام سڑکوں پر کیوں نہیں آئے ۔تو بہت معذرت کے ساتھ عوام کو سڑکوں پر لانا پارٹی کے لیڈر ز کا کام ہوتا ہے مگر وہ اپنے اپنے کاموں میں مگن رہے ۔پارٹی میں ان دنوں پھر گروپ بندی عروج پر ہے اور اب تو وفاق اور پنجاب میں بھی علیحدہ علیحدہ وفاداری کی خواہش رکھنے والے برسر کار نظر آ رہے ہیں!

میں یہ کالم لکھ چکا تھا کہ فیس بک پر اس موضوع پر لکھی ایک تحریر نظر آئی یہ ناصر بٹ صاحب کی تھی جن کا تعلق لاہور سے ہے ۔میں چاہتا ہوں میرے قارئین اس تحریر سے بھی مستفید ہوں اب آپ مجھے بھول جائیں! ناصربٹ صاحب کو پڑھیں ۔ ابھی تھوڑی دیر پہلے نواز شریف کا پنجاب حکومت کی اپنی چھت اپنا گھر سکیم کے افتتاح کے موقع پر کیا گیا مکمل خطاب سنا ہے۔ نواز شریف کا بولنا اب ہمارے جیسے لوگوں کیلئے تبرک ہی بن چکا ہے جو وہ کبھی کبھار بانٹتے ہیں۔نواز شریف کے کم بولنے کی وجوہات ہم تو کافی عرصے سے جانتے ہیں لوگ البتہ اس پر سوال اٹھاتے رہتے ہیں۔ نواز شریف کو اسٹیبلشمنٹ سے تو گلے ہیں جو بالکل جائز بھی ہیں مگر انہیں ساتھ ساتھ عوام سے بھی گلہ ہے۔نواز شریف بجا طور پر سمجھتے ہیں کہ انہوں نے اکیلے پاکستان کیلئے جو کیا ہے اوراسے جس قدر ترقی دی ہے باقی تمام سیاستدان مل کر بھی اتنی ترقی نہ دے سکے تو عوام کا موجودہ رسپانس ایسا نہیں کہ جو انکی پاکستان کیلئے خدمات کا مناسب جواب ہو۔ یہ بات اخلاقی طور پر تو بالکل درست ہے مگر میرے نزدیک یہ سیاسی اپروچ نہیں ہر چند کہ کم از کم میں اپنی اتنی حیثیت یا فہم تو نہیں سمجھتا کہ میاں نواز شریف کو کسی قسم کی سیاسی اپروچ سمجھا سکوں وہ اس خطے کے سب سے زیادہ تجربہ کار سیاستدان ہیں مگر میری گزارش یہی ہے کہ انہیں یہ بات سمجھنی چاہئے کہ اس ملک میں صرف کام کے بل پر مقبولیت قائم نہیں رہتی اس کیلئے اور بھی بہت سے کام ہیں جو کرنا پڑتے ہیں اور میں گاہے گاہے ان پر لکھتا بھی رہتا ہوں میں بڑے افسوس سے کہہ رہا ہوں کہ (ن) لیگ نے ان کاموں پر بالکل توجہ نہیں دی۔

اس ملک کے عوام کی سوچوں کو غیر سیاسی بنانےکیلئے دہائیوں کام کیا گیا ہے یہ ممکن نہیں کہ انکی ساخت فوری طور پر انقلابی ہو جائے۔ نواز شریف کو اسے نظرانداز ہی کرنا چاہئےاور ایک سیاسی مدبر کے طور پر اپنے زخموں کو بھلا کر قوم کو قیادت فراہم کرنی چاہئے۔میں یہاں یہ بھی کہنا چاہتا ہوں کہ خود (ن) لیگ نے بھی اپنی پارٹی کو مزاحمتی سیاست کے مطابق کبھی تیار نہیں کیا جس کا بنیادی محور ورکرز ہوتے ہیں، ایسا نہیں کہ عوام کی ایک کثیر تعداد نواز شریف سے محبت نہیں کرتی مسئلہ یہ ہے کہ ہر طرف جب یکطرفہ بیانیے چل رہے ہوں تو اسکا جواب دینے کو کوئی موجود نہیں ہوتا جس کی بنا پر لوگوں کا بھیڑ بکریاں بن جانا سمجھ میں آتا ہے۔اس صورتحال کا تدارک کرنےکیلئے زیادہ فعالیت کی ضرورت ہوتی ہے ناکہ ناراض ہو کے بیٹھ جانے کی۔میاں صاحب ہم جیسے لوگ آپ سے محبت کرتے ہیں اور اس محبت کی وجہ آپ کا پاکستان کی ترقی اور خوشحالی میں کردار ہے اسی محبت کی بنا پر کبھی یہ بھی نہیں دیکھا کہ آپ کے نامزد کردہ امیدواروں کا عوام سے سلوک کیسا ہے۔میاں صاحب آپ کی نذر ایک شعر شاعر سے پیشگی معذرت کے ساتھ پیش خدمت ہے؎

قائد کی محبت میں ہم آشفتہ سروں نے

وہ ووٹ بھی ڈالے ہیں جو واجب ہی نہیں تھے

تازہ ترین