فلسطین اور اب لبنان میں اسرائیل کے جدید ترین ہلاکت خیز اسلحہ اور ٹیکنالوجی سے انسانی قتل عام۔ معاشی تباہی کے جواب میں ایران کا میزائلی حملہ ایک جراتمندانہ کوشش تو کہلا سکتی ہے۔ لیکن یہ واضح ہے کہ مسلم ممالک میں سے کوئی بھی اسرائیل پر عسکری طاقت کا استعمال نہیں کر سکتا۔ اس کیلئے راستہ یہ رہ جاتا ہے کہ 2005کے BDSکو متحرک کیا جائے۔ اسرائیل کا اقتصادی صنعتی بائیکاٹ اور معاشی پابندیاں عاید کی جائیں۔ جو مسلم ممالک کے عوام اپنے طور پر بھی کرسکتے ہیں۔
.......
’’جبالہ کیمپ میں۔
ایک ماں اپنی بیٹی کے جسم کے ٹکڑے
ایک تھیلے میں جمع کر رہی ہے۔
تاکہ ان سے ایک پلاٹ خرید سکے۔
دور دراز علاقے میں دریا کے کنارے۔‘‘
مصعب ابو طہٰ۔ فلسطین کے نئے شاعروں میں ایک اہم مقام رکھتے ہیں۔ فلسطینی موت کا سامنا کر رہے ہیں۔ مزاحمتی شاعری ہو رہی ہے۔ مگر اسرائیل بد مست ہاتھی کی طرح غزہ کو روندنے کے بعد اب لبنان پر چڑھ دوڑا ہے۔ اسرائیل پر ایران کے میزائل برسے ہیں تو اقوام متحدہ فوراً سیکورٹی کونسل کا اجلاس طلب کر لیتی ہے۔ امریکہ اسرائیل کو حق دفاع دینے لگتا ہے۔ مغربی ممالک یکے بعد دیگرے ایران کی مذمت کرتے ہیں۔ ایران کے حق دفاع میں کوئی نہیں بولتا۔ خون مسلم ارزاں ہو رہا ہے اور مسلمان ممالک خاموش ہیں۔ غزہ میں ایک سال سے اسرائیل جس طرح ہر روز سینکڑوں فلسطینی قتل کر رہا ہے۔ کوئی اس کا ہاتھ روکنے والا نہیں ہے۔
مشرق وسطیٰ دوسری جنگ عظیم کے بعد سے مغربی طاقتوں کی شکار گاہ بنا ہوا ہے۔ امریکہ کی ہمیشہ یہ پالیسی رہی ہے کہ جنگ اس کی سرحدوں سے بہت دور لڑی جائے۔ اس کی پیروی میں یورپی ممالک نے بھی یہ رویہ اختیار کر لیا ہے۔ اب فلسطین، عراق، مصر، لیبیا، میدان جنگ بنے رہتے ہیں۔
آج اتوار ہے۔ اپنے بیٹوں بیٹیوں، پوتوں پوتیوں، نواسوں نواسیوں، بہوئوں دامادوں کے ساتھ دوپہر کے کھانے پر بیٹھنے کا دن۔ ان سے اپنے ملک میں عدالتی کارروائیوں، ریاستی جبر، سیاسی محاذ آرائیوں پر بات کرنے کا دن۔ بچوں سے ان کے اسکولوں، اساتذہ کے بارے میں بات کرنے کے لمحات۔
7اکتوبر آ رہی ہے۔ غزہ اسرائیل کی تازہ لشکر کشی کی ’’سالگرہ‘‘ منانے کا دن۔
اسلامی جمہوریۂ پاکستان کی سیاسی جماعتوں میں سے صرف جماعت اسلامی غزہ، بیروت میں بہتے خون مسلم پر تڑپی ہے۔ وہ دوسری سیاسی جماعتوں کے دروازوں پر بھی دستک دے رہی ہے کہ 7اکتوبر کو پاکستانی قوم اتحاد کا مظاہرہ کرے۔ جماعت اسلامی کی فلاحی تنظیم ’الخدمت‘ اب تک غزہ کے متاثرین کیلئے کئی ٹن امدادی سامان بھیج چکی ہے۔ امیر جماعت اسلامی حافظ نعیم الرحمن اور جہاندیدہ لیاقت بلوچ قابل قدر ہیں۔ ان سے بھی مل رہے ہیں۔ جن کو ان کا مینڈیٹ چرا کر دیا گیا ۔
جلسے جلوس اپنی جگہ ہیں۔ جلسے جلوسوں سے تو مسلمان ملکوں میں بھی جابر سلطانوں پر کوئی اثر نہیں ہوتا۔ وہ اپنا قبضہ نہیں چھوڑتے۔ اسرائیل کی بڑھتی ہوئی طاقت کا اصل سبب بھی مسلمان ملکوں میں غیر جمہوری حکمران ہیں۔ غور کیجئے کہ پوری دنیا میں زیادہ با اختیار بادشاہ، امیر، صرف مسلمان ملکوں میں ہی ہیں۔ یورپ، تھائی لینڈ میں جو بادشاہتیں ہیں وہ صرف رسمی ہیں۔ لیکن مسلمان ریاستوں میں سفاک ملوکیت باقاعدہ موجود ہے۔ اسرائیل میں حکومتیں الیکشن سے تبدیل ہوتی ہیں۔ پوری دنیا کے یہودیوں نے اسرائیل کی یونیورسٹیوں میں معیاری تعلیم کیلئے سرمایہ لگایا ہے۔ 30سال پہلے ناروے نے کوشش کی تھی۔ ایک فلسطینی ریاست اور دو ریاستی حل کیلئے عالمی اشتراک قائم کیا تھا۔ اس کے تحت پھر کئی مسلم ممالک سے اسرائیل کو تسلیم کروانے کیلئے کوششیں کی گئیں۔ جن میں مصر، اردن، سوڈان، مراکش، بحرین اور متحدہ عرب امارات رام ہو چکے۔ اب ناروے کے وزیر خارجہ اپنی ذمہ داری محسوس کرتے ہوئے پھر سرگرم ہوئے ہیں۔ عرب ممالک نے فلسطین کے مظلوم انسانوں کے لہو پر سرمائے کو اہمیت دی۔ اسرائیل میں سرمایہ کاری کیلئے۔ اسرائیلی مصنوعات کی سرپرستی کیلئے بہت مستعد رہے۔
1948میں اسرائیل کے زہریلے پودے کی کاشت کے بعد مشرق وسطیٰ جنگ کا میدان بنا رہتا ہے۔ اسرائیل کو اقتصادی معاشی، مالی، تعلیمی، صنعتی اور ٹیکنالوجی میں آگے لے جانے کیلئے جرمنی، امریکہ۔ سب ایک منصوبہ بندی کے تحت مصروف رہتے ہیں اور اسرائیل کا نشانہ اس وقت سے ہی عرب ممالک ہیں اور خاص طور پر فلسطینیوں کو تو وہ جینے کا حق ہی نہیں دے رہا ہے۔ کتنے فلسطینی رہنما شہید کیے گئے۔ حزب اللہ۔ حماس کے کتنے قائدین اور عام فلسطینی مارے گئے۔ انسانی حقوق کا واویلا کرنے والے مغربی ممالک اور ان کی تنظیمیں خاموش رہتی ہیں۔
اب اسرائیل کی تازہ قاتلانہ لہر کو ایک سال ہونے کو آ رہا ہے۔ اپنے طور پر مسلمان نوجوانوں، بچوں، خواتین نے اسرائیلی مصنوعات کا بائیکاٹ کیا ہوا ہے۔ لیکن اس میں اسلامی حکومتیں شامل نہیں ہیں۔ فیکٹریاں اسی طرح کام کر رہی ہیں۔ میڈیا پر اشتہار اسی طرح آ رہے ہیں۔ مسلمان ادارے اپنا منافع فلسطینی لہو پر قربان نہیں کرنا چاہتے۔ اسرائیل کی پشت پر امریکہ جیسی بڑی عسکری، صنعتی قوت ہے۔ جو اپنے اسلحے کے ذریعے ہی نہیں، اپنی فلموں، مصنوعات، لٹریچر کے ذریعے بھی سرپرستی کرتی ہے۔ لشکر کشی میں اضافہ ہو رہا ہے مگر 1945سے شروع ہونے والا بائیکاٹ ختم ہوتا جا رہا ہے۔ جن عرب ممالک نے اسرائیل کو تسلیم کیا ان ملکوں میں بائیکاٹ ختم ہوتا چلا گیا۔ اسرائیلی ایوان تجارت نے یہ تسلیم کیا ہے کہ حالیہ بائیکاٹ سے ان کی تجارت 10فی صد متاثر ہوئی ہے۔
مسلمان ملکوں کو اب سنجیدگی سے یہ سوچنا چاہئے کہ اسرائیل کی عسکری طاقت کا تو آپ مقابلہ نہیں کر سکتے ہیں۔ اب یاسر عرفات ہیں نہ جمال ناصر نہ قذافی اور نہ ہی شاہ فیصل۔ اب صرف اور صرف موثر تجارتی اور صنعتی بائیکاٹ ہو سکتا ہے۔ جو مسلم ممالک کے عوام اور صنعت کار اپنے طور پر کر سکتے ہیں۔ 9جولائی 2005کو شروع کی گئی BDSکی تحریک کو از سر نو منظم کیا جائے۔ Boycott Divestment Sanctions۔ یہ پُر امن تحریک ہے۔ جس کی قیادت فلسطین کررہا تھا۔ اس کا بنیادی مقصد فلسطینی عوام پر اسرائیلی جبر کو روکنا ہے۔ یہ انسانیت سے تعاون کی اپیل ہے کہ فلسطینی عوام اپنی حقیقی آزادی، انصاف اور مساوی حقوق کیلئے جو مسلسل جدو جہد کر رہے ہیں۔ اس میں دنیا بھر کے عوام ان کی مدد کریں۔ لبنان میں قتل عام ہورہا ہے۔ اقوام متحدہ نے بھی اسرائیل پر پابندیوں کا مطالبہ کیا ہے۔ بین الاقوامی عدالت اسرائیل کو ایک جارح ملک قرار دے چکی ہے۔ ہر ملک کے عوام اپنی اپنی حکومت پر زور دیں کہ وہ اسرائیل سے سفارتی تعلقات ختم کریں۔ ہر وہ قدم اٹھایا جائے جس سے اسرائیل اقتصادی طور پر دبائو میں آئے۔ مسلمان عوام، مسلمان ممالک بحرین، مصر، اردن، مراکش، سوڈان اور متحدہ عرب امارات سے کہیں کہ جنگ بندی ہونے تک تل ابیب سے اپنے سفیروں کو واپس بلائیں۔