حزب اللہ کے سربراہ، حسن نصراللہ کی شہادت کے بعد مشرقِ وسطیٰ میں بڑی تیزی سے تبدیلیاں رُونما ہو رہی ہیں۔ ان میں سے کچھ کا تعلق براہِ راست ایران اور اُس کے اتحادیوں سے ہے، جب کہ کچھ خطّے اور عالمی سیاست سے متعلق ہیں، لیکن یہ طے ہے کہ حسن نصراللہ کے بعد مشرقِ وسطیٰ وہ نہیں رہا، جو پہلے تھا اور اب غزہ کی صُورتِ حال بھی بدل جائے گی۔
حسن نصراللہ پر حملے میں آٹھ دیگر افراد بھی مارے گئے، جن میں پاسدارانِ انقلاب کے بیرونی محاذ کے کمانڈر بھی شامل تھے۔ بعدازاں، ایران نے ایک بڑی جوابی کارروائی کی اور اسرائیل پر180 میزائل داغے۔ اِس حملے کی وارننگ امریکا نے پہلے ہی دنیا بَھر میں نشر کردی تھی۔ایران نے دعویٰ کیا کہ اس کے میزائل تل ابیب تک پہنچنے میں کام یاب رہے اور بہت سے اہداف کو ہٹ کیا۔
امریکی صدر کا کہنا تھا کہ امریکا، اسرائیل کے دفاع میں اُس کے ساتھ کھڑا ہے اور ایرانی میزائل حملے ناکام بنانے میں بھی اس نے حصّہ لیا۔برطانیہ اور دوسرے مغربی ممالک کی طرف سے بھی اسرائیل کے حق میں بیانات آئے۔ اسرائیل کا لبنان پر حملہ، جس کے نتیجے میں حزب اللہ اپنے لیڈر سے محروم ہوئی، اچانک نہیں تھا، بلکہ باقاعدہ ایک سوچی سمجھی جنگی حکمتِ عملی کا حصّہ تھا۔اِس سے قبل پیجرز حملہ کیا گیا، جو حزب اللہ کی صفوں میں افراتفری پھیلانے کی ایک چال تھی۔
مہینے پہلے عین ایران کی سرزمین پر حماس کے سربراہ، اسماعیل ہانیہ کا قتل اور پھر حسن نصراللہ کا اِس انداز میں جانا، ایران کے لیے غیر معمولی مشکلات کا باعث بنا، اِسی لیے اُس نے اپنے میزائل حملے کو انتقام قرار دیا۔حماس، حزب اللہ، حوثی، عراق کی ملیشیاز اور شام کی اسد حکومت سب ایران کے اتحادی ہیں اور اسی کی مدد سے مشرقِ وسطیٰ میں اسرائیلی اور امریکی مفادات کے خلاف کارروائیاں کرتے ہیں۔ حسن نصر اللہ کے بعد نہ صرف یہ اتحادی، بلکہ دنیا بھی اِس بات کی منتظر تھی کہ ایران کی طرف سے کس قسم کا جوابی ردِعمل سامنے آتا ہے۔
حسن نصراللہ کے سانحے پر دنیا کا ردّ ِعمل حسبِ معمول بیانات کی حد تک محدود رہا۔روس اور چین نے اس کی مذمّت تو کی، لیکن سلامتی کاؤنسل کے ہنگامی اجلاس کی ضرورت تک محسوس نہ کی۔ امریکا، یورپ اور برطانیہ کا رویّہ تو سمجھ میں آتا ہے کہ اُنہوں نے حزب اللہ کو ایک انتہا پسند تنظیم کا درجہ دے رکھا ہے، لیکن روس، چین اور باقی دنیا کا ردّعمل بہت سے سوالات پر غور کی دعوت دیتا ہے۔
حسن نصراللہ گزشتہ تیس برسوں سے حزب اللہ کے سربراہ تھے۔وہ عالمِ دین، جنگ جُو رہنما اور ایک سیاست دان کے طور پر جانے جاتے تھے۔اُنہوں نے ایران سے قریبی تعلقات قائم کرنے میں بنیادی کردار ادا کیا۔حزب اللہ کو شہرت اُس وقت حاصل ہوئی، جب اُس نے24 سال قبل اسرائیل کے خلاف کام یاب مزاحمت کے بعد اُسے لبنان سے نکلنے پر مجبور کردیا تھا۔اس کے بعد حسن نصراللہ نے تنظیم کے دو رول طے کیے۔
اوّل، ایران کی تمام کارروائیوں کی سپورٹ، جن میں سب سے اہم اسرائیل کے خلاف اقدامات تھے۔ شام کی خانہ جنگی میں بھی حزب اللہ نے ایران اور دوسری ملیشیاز کے ساتھ مل کر اسد افواج کا بھرپور ساتھ دیا۔اس کے علاوہ، حماس اور حوثیوں کو ایرانی اسلحے تک رسائی میں بھی اس کا اہم کردار تھا۔حزب اللہ کا دوسرا کردار خود لبنان میں تھا۔ باوجود اس کے کہ حسن نصراللہ ایک مقبول لیڈر تھے، لیکن حزب اللہ کے اندرونِ مُلک بڑھتے فوجی کردار کی وجہ سے وہ تنقید کا نشانہ بھی رہے۔ بہت سے لبنانیوں کا خیال ہے کہ لبنان کو براہِ راست حماس کی جنگ میں فریق نہیں بننا چاہیے، البتہ اس کی اصولی اور سیاسی حمایت جاری رہنی چاہیے۔
اِس معاملے میں لبنانی حکومت بے بس اور حزب اللہ کی پالیسی کی پیروی پر مجبور ہے۔ ایرانی پاسدارانِ انقلاب کے سربراہ اور ایران کی مشرقِ وسطیٰ میں جارحانہ حکمتِ عملی کے بانی، جنرل سلیمانی اور اسماعیل ہانیہ کے بعد، حسن نصراللہ وہ تیسرے بڑے لیڈر ہیں، جو اسرائیلی فوجی کارروائی کا نشانہ بنے۔ ہانیہ اور حسن نصراللہ گزشتہ پندرہ سالوں سے عوامی مقامات پر آنے سے اجتناب برتتے رہے، کیوں کہ اسرائیلی انٹیلی جینس اُن کا سائے کی طرح پیچھا کر رہی تھی۔
حسن نصراللہ صرف اسکرین کے ذریعے عوام سے خطاب کرتے رہے۔ یہ کہنا کہ اِتنے بڑے رہنماؤں کے مشرقِ وسطیٰ کے منظر نامے سے ہٹنے کے بعد اسرائیل کے خلاف مزاحمتی تحریک مضبوط ہوگی، سوالات سے بھرپور ہے، کیوں کہ اہم رہنماؤں کے قتل کے بعد کسی بھی تنظیم کے لیے سنبھلنا آسان نہیں ہوتا۔ لبنان، غزہ اور یمن میں اسرائیلی حکمتِ عملی یہ ہے کہ اُس نے خوف ناک اور مسلسل بم باری کے ذریعے عام شہریوں کو خوف زدہ کر رکھا ہے۔
غزہ کے حالات سب کے سامنے ہیں، جہاں پچاس ہزار سے زاید افراد اس کی سفّاکیت کا نشانہ بن چُکے ہیں، جب کہ لبنان میں بھی اموات کی تعداد دو ہزار سے زاید ہوچُکی ہے اور دس لاکھ کے قریب شہری جنوبی لبنان چھوڑ کا دوسرے مقامات پر پناہ گزیں ہیں۔ لبنان کے لوگ بیس سال تک خانہ جنگی کے کرب سے گزرے ہیں اور یہ ان کے لیے ایک بھیانک خواب ہے۔ خانہ جنگی میں بیروت، جسے مشرقِ وسطیٰ کا پیرس کہا جاتا تھا، کھنڈر بن گیا، کوئی حکومت مستحکم نہیں رہی، جب کہ سعد حریری کا قتل اور اُن کے بعد کے وزرائے اعظم کی بے بسی بھی تاریخ کا حصّہ ہے۔
لبنان کی حکومت کو حسن نصر اللہ کے قتل کے بعد اب تک یہ بھی پتا نہیں کہ وہ کہاں کھڑی ہے، کیوں کہ اس کی سرکاری فوج انتہائی کم زور ہے۔فوجی معاملات حزب اللہ ہی چلاتی ہے، اُسی کے پاس راکٹ اور جدید اسلحہ ہے، جو اسے ایران سے حاصل ہوا۔اِسے مشرقِ وسطیٰ کی سب سے طاقت وَر ملیشیا مانا جاتا ہے اور اس میں ایران کا کردار بھی کسی سے ڈھکا چُھپا نہیں۔
حسن نصراللہ کے بعد یہ سوال سامنے آیا کہ کیا مشرقِ وسطیٰ کسی تیسری عالمی جنگ کا موجب بن سکتا ہے۔دیکھا جائے، تو 7 اکتوبر سے شروع ہونے والا یہ تصادم جنگ ہے نہ لڑائی، زیاد سے زیادہ اسے مزاحمت کہا جاسکتا ہے کہ بم باری یا فوجی کارروائیاں تو اسرائیل ہی کی طرف سے ہو رہی ہیں، جب کہ دوسرا فریق تو کبھی کبھار ہی جوابی کارروائی کرتا ہے۔
غیر جانب دار فوجی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اِسے مغربی میڈیا ہی نے جنگ کا رُوپ دیا ہوا ہے، حالاں کہ یہ اسرائیل کی یک طرفہ جارحیت ہے۔ اسے جنگ کی شکل دے کر سیز فائر مشکل ہوگیا ہے۔ جب سیز فائر میں لین دین ہوتا ہے، تو فریقین کی قوّت کا موازنہ ہوتا ہے کہ کون کتنے دن اور کتنے نقصان کے ساتھ جنگ جاری رکھ سکتا ہے۔ عام شہریوں کی حفاظت اور اُن کی برداشت کی صُورتِ حال کیا ہے، لیکن یہاں تو غزہ کے نہتّے شہریوں کے ساتھ اب لبنان کے شہری بھی لپیٹ میں آگئے ہیں۔
دنیا کے کئی ممالک جنگ بندی کی فریاد کر رہے ہیں،انسانی حقوق کے واسطے دیئے جارہے ہیں، لیکن اسرائیل اور اُس کے سرپرست گونگے، بہرے ہوچُکے ہیں۔دوسری طرف، مسلم دنیا کی غیرت جگانے کے لیے بھی لعن طعن اور منّتیں کی جارہی ہیں، لیکن سب بے اثر ثابت ہو رہا ہے۔سال بَھر پہلے تک عرب۔ ایران مقابلہ جاری تھا، پھر بڑی مشکل سے چین نے ان کے مابین ایک معاہدہ کروایا، جس سے امن کی امیدیں بندھ چلی تھیں، لیکن ابھی اس کی سیاہی بھی خشک نہیں ہوئی تھی کہ حماس نے سات اکتوبر کو اپنی مزاحمتی کاروائیوں کو شدّت دے دی، جو اب تک ختم نہیں ہورہی۔ یوں خطّے کی صُورتِ حال ہی بدل گئی۔
اسرائیل کی جارحیت پر کسی کو شک نہیں، یہاں تک کہ خُود اس کے اتحادی، امریکا اور مغربی ممالک بے گناہ شہریوں کی اموات پر اُسے متنبّہ کرچُکے ہیں۔اُسے مذاکرات کی میز پر آنے کا بھی کہا جاتا ہے۔ دوحا میں مذاکرات کے دَور بھی ہو رہے ہیں، لیکن معاہدے کے قریب آتے آتے سب کچھ بَھک سے اُڑ جاتا ہے اور اس کا ذمّے دار اسرائیل ہی ہے، جو کسی کی سُننے، ماننے پر آمادہ نہیں۔اقوامِ متحدہ اور سلامتی کاؤنسل بھی سیز فائر کی قرار دادیں پاس کرچُکی ہیں، لیکن سب بے سود۔
اسرائیل نہ صرف امریکا اور مغربی ممالک کا دوست ہے، بلکہ چین اور روس کا بھی قریبی پارٹنر ہے۔ وہ بیانات میں تو اس کی مذمّت کرتے ہیں، لیکن عملی طور پر کچھ نہیں کرتے۔پھر یہ بھی ایک اہم بات ہے کہ دنیا اب مسلّح تنظیموں کو برداشت کرنے پر تیار نہیں۔دنیا نائن الیون واقعے، پھر شام و عراق میں داعش کی طاقت اور دنیا بَھر میں مسلّح کارروائیوں سے اِس نتیجے پر پہنچ چُکی ہے کہ اب جنگ جُو گروپس کا خاتمہ ضروری ہے۔
چین اور روس کی بھی یہی سوچ ہے۔ اِن دونوں ممالک میں بھی دہشت گردی کے واقعات ہوتے رہے ہیں، جن کی مختلف تنظیمیں ذمّے داری قبول کرتی ہیں۔ روس کے تھیٹر میں سیکڑوں افراد کی ہلاکت بھی ایسا ہی ایک واقعہ تھا۔ اِسی لیے دہشت گردی کے خلاف مشترکہ فوجی مشقیں ہوتی ہیں، جن میں بہت سے ممالک حصّہ لیتے ہیں۔
امریکا، افغانستان سے چلا گیا، لیکن طالبان حکومت کو آج تک کسی مُلک نے تسلیم نہیں کیا، کیوں کہ طے شدہ معاہدے کے مطابق، وہاں ایک باقاعدہ سویلین حکومت کا قیام ضروری ہے۔یعنی طالبان کو خُود سے مسلّح تنظیم کا خول اتارنا ہوگا۔تو پھر یہ کیسے ممکن ہے کہ دنیا حماس، حزب اللہ یا حوثیوں کو تسلیم کرے، جنہیں امریکا اور مغربی ممالک نے دہشت گرد تنظیمیں قرار دے رکھا ہے، جب کہ روس اور چین بھی انہیں مزاحمتی تنظیم کا درجہ نہیں دیتے، بس صرف رابطے رکھتے ہیں۔سب ممالک فلسطینیوں کے حقوق کی تو حمایت کرتے ہیں، لیکن وہ حماس یا حزب اللہ کی تعریف نہیں کرتے۔ شہریوں کی ہلاکت کی مذمّت کی جاتی ہے، لیکن کوئی بھی ان تنظیموں کی مزاحمت کو سپورٹ نہیں کرتا، وگرنہ روس اور چین انہیں اُسی طرح ہتھیار دے سکتے تھے، جیسے ویت نام کو دیئے تھے۔
اِس امر میں کوئی شبہ نہیں کہ ایران، اسرائیل کے مقابلے میں ایک بہت بڑا مُلک ہے۔ اس کی آبادی اسرائیل سے دس گُنا زاید ہے، اس کے پاس 6 لاکھ باقاعدہ فوج کے علاوہ، پاسدارانِ انقلاب کا جدید نیٹ ورک بھی ہے، جو بیرونِ مُلک کارروائی میں مہارت رکھتا ہے اور مشرقِ وسطیٰ میں ایران کی جارحانہ خارجہ پالیسی کا نفاذ کرتا ہے۔ اس کے پاس جدید میزائل ہیں، جنھیں اسرائیل کے خلاف استعمال بھی کیا گیا ہے۔ ڈرونز کے علاوہ نیوکلیئر پاور پلانٹس بھی ہیں، جو اقوامِ متحدہ کی پابندیوں کی زد میں ہیں۔ مغرب کا الزام ہے کہ وہ ایٹم بم بنانے کے گریڈ کا فیول حاصل کر نا چاہتا ہے۔تاہم، ایران ایٹم بم بنانے کے الزام کو مسترد کرتا ہے۔
ویسے عرب پڑوسیوں کو بھی اس پر شدید تحفّظات ہیں، جنہیں چین نے سعودی، ایران معاہدے کے ذریعے کم کرنے کی کوشش کی۔اسرائیل کے پاس تقریباً پونے دو لاکھ فوج ہے، جب کہ اس کے ہر شہری پر فوجی تربیت حاصل کرنا لازم ہے۔ نیز، اُس کے پاس انتہائی جدید فضائیہ اور میزائل ہیں، جو اسے امریکا، برطانیہ اور یورپی دوستوں سے ملے۔ اس کے علاوہ، اس کی اپنی اسلحہ انڈسٹری اِس قدر جدید ہے کہ وہ روس اور چین کو اسلحہ فروخت کرتا ہے۔
اس کی انٹیلی جینس ایجینسی، موساد نہ صرف عالمی شہرت رکھتی ہے، بلکہ ایسی جدید ٹیکنالوجی سے لیس ہے، جو دنیا میں ایک، دو ممالک ہی کو دست یاب ہے۔ لبنان میں پیجرز کے حالیہ حملے اس کی ایک مثال ہے۔لیکن بہرحال، جنگ ایک غیر یقینی عمل ہے، کبھی کبھی کوئی فریق اپنے حریف پر حیران کُن برتری حاصل کر لیتا ہے۔ اگر بڑی جنگ چِھڑ جائے، تو ہتھیاروں کے ساتھ فریقین کی قوّتِ برداشت اور مزاحمت کا بھی امتحان ہوتا ہے۔یہ اعصاب کی جنگ بھی ہوسکتی ہے، لیکن بہتر پلاننگ اور ٹیکنالوجی کے مؤثر استعمال کو بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔
اسرائیلی فوج کا لبنان میں حزب اللہ سے دُو بدو مقابلہ ہو رہا ہے۔ایسا پہلے بھی ہوا، جس میں حزب اللہ نے کام یابی سے اسرائیل کو مُلک سے باہر دھکیل دیا تھا۔ ماہرین اِس طرف بھی توجّہ دِلاتے ہیں کہ یہ لڑائی لبنان اور اسرائیل کے درمیان نہیں، بلکہ حزب اللہ اور اسرائیل کے مابین ہے۔ لبنانی حکومت تو مسلسل بم باری کے صدموں ہی سے جاں بر ہونے کی سکت نہیں رکھتی، اس کی فوجی طاقت بھی نہ ہونے کے برابر ہے کہ حزب اللہ نے اس کا رول ہی ختم کردیا تھا۔
دوسال سے وہاں کوئی صدر منتخب نہیں ہوسکا کہ سیاسی ڈیڈ لاک چلا آ رہا ہے۔ حزب اللہ زمین پر تو اسرائیلی ٹینکس کا بھرپور مقابلہ کر رہی ہے، لیکن لڑاکا طیاروں کا توڑ فی الحال اس کے پاس نہیں ہے۔ البتہ، اگر ایران اُس کی کوئی مدد کرے، تو پھر الگ بات ہے، اِسی لیے بیروت اور دوسرے لبنانی شہروں میں عام شہریوں کی ہلاکت کی تعداد روز بروز بڑھ رہی ہے۔