بھارت میں سولہویں لوک سبھا کے انتخابات ہورہے ہیں۔ 542نشستوں کے ایوان میں حکومت سازی کیلئے 272ارکان کی حمایت ضروری ہے۔ کانگریس اور بھارتیہ جنتا پارٹی کے روایتی حریفوں کے ساتھ ساتھ اروند کجریوال کی عام آدمی پارٹی بھی کرپشن کے خلاف جنگ اور غیر ملکی بینکوں سے کرپٹ سیاستدانوں کے کالے دھن کو واپس لانے کے نعرے تلے کم از کم 300نشستوں پر انتخاب لڑنے کیلئے میدان میں ہے۔کجریوال نے بی جے پی کے لیڈر اور گجرات کے مکھ منتری نریندر مودی کے خلاف انتخاب لڑنے کا اعلان کر رکھا ہے۔ انتخابی مہم کے دوران اروند کجریوال پر بی جے پی کے ہندو انتہا پسندوں کی طرف سے قاتلانہ حملے کئے جارہے ہیں۔ گجرات پولیس کی طرف سے چند روز قبل کجریوال کی گرفتاری پر عام آدمی پارٹی کی شہرت میں مزید اضافہ ہوا اور دنیا بھر سے پارٹی کیلئے کروڑوں روپے کا چندہ جمع ہو گیا۔
بی جے پی کے رہنما نریندر مودی پر الزام ہے کہ بطور مکھ منتری گجرات سال 2002ء کے اوائل میں احمد آباد میں ہونے والے مسلم کُش فسادات میں نہ صرف یہ کہ وہ مسلمانوں کے قتلِ عام کو روکنے میں ناکام رہے بلکہ فسادی ہندوئوں کی خفیہ سرپرستی بھی کی۔ فسادات میں تقریباً 2000مسلمان قتل، 2500زخمی اور 223اغوا کر لئے گئے تھے۔ ہندو انتہا پسندوں نے ولی گجراتی کے اٹھارویں صدی کے مقبرے اور محافظ خان مسجد سمیت تقریباً 230مساجد اور درگاہوں کو منہدم کر دیا تھا۔ کم و بیش 250مسلمان خواتین کی آبروریزی کی گئی۔تاریخ میں پہلی مرتبہ ہندو عورتوں نے بھی فسادات میں عملی حصہ لیا اور مسلمانوں کی دکانوں کو لوٹا۔ ہندو جنونیوں نے حاملہ خواتین کے پیٹ چاک کئے اور ان کے جنسی اعضاء کاٹ ڈالے۔ تقریباً ڈیڑھ لاکھ لوگ بے گھر ہوئے۔ مذہبی فسادات کی آگ بھڑکانے کی پاداش میں امریکہ نے 2005ء میں نریندرمودی کو ویزہ دینے سے انکار کر دیا۔امیگریشن ماہرین کا خیال ہے کہ امریکہ کی سرکاری پالیسی کے مطابق اب بھی نریندرمودی امریکی ویزے کے حصول کے اہل نہیں۔ فسادات کے تناظر میں بھارتی دانشور آنجہانی خشونت سنگھ نے اپنی کتاب دی اینڈ آف انڈیا میں لکھا ’’بھارت تاریک دور سے گزر رہا ہے۔ باپو گاندھی کی آبائی ریاست گجرات میں 2002ء کے اوائل میں ہونے والی قتل وغارت گری اور اس کے نتیجے میں نریندر مودی کی زبردست انتخابی فتح ہمارے ملک کو تباہی اور بربادی کے دور میں دھکیل دے گی۔ ہندو جنونیوں کا فاشسٹ ایجنڈا ہماری تاریخ کے ہر تجربے سے مختلف ہے۔ بٹوارے کے بعد میرا خیال تھا کہ ہم اس طرح کے قتلِ عام سے دوبارہ دوچار نہیں ہوں گے۔ مہان (عظیم) بننا تو درکنار، بھارت برباد ہو چکا۔ کوئی معجزہ ہی بچائے وگرنہ ملک ٹوٹ جائے گا۔ یہ پاکستان یا کوئی اور غیر ملکی طاقت نہیں جو ہمیں نیست ونابود کردے گی بلکہ ہم خودکشی کریں گے۔ 1990ء تک راشٹریہ سیوک سنگھ کے ارکان کی تعداد دس لاکھ سے بڑھ چکی تھی۔ جس میں دوسروں کے علاوہ اٹل بہاری واجپائی، ایل کے ایڈوانی، مرلی منوہر جوشی، اوما بھارتی اور نریندر مودی بھی شامل تھے۔ میں نے ایڈوانی سے کہا، تم نے اس ملک میں نفرت کے بیج بوئے جس کا نتیجہ بابری مسجد کی شہادت کی صورت میں نکلا۔ ہر ہوشمند ہندوستانی کا فرض ہے کہ وہ ہندو جنونیوں کو تاریخ کے کوڑے دان میں پھینک دے۔ ہم گجرات میں ’ہار‘ چکے ہیں‘‘۔
وزیرِ اعلیٰ مودی الزامات سے انکاری رہے اور اپنی صفائی میں بھارتی سپریم کورٹ سے مقرر کردہ اسپیشل انویسٹی گیشن ٹیم (SIT) کی رپورٹ پیش کرتے رہے تاہم فسادات کے متاثرین الزام لگاتے ہیں کہ ایس آئی ٹی نے مودی کو بچانے کیلئے واقعاتی شہادتوں میں ردّوبدل کیا تھا۔ بے پناہ اندرونی وبیرونی دبائو کے سبب آخرِ کار مودی کو وزارتِ اعلیٰ سے مستعفی ہونا پڑا۔ سال 2002ء کاالیکشن مودی نے ہندوتوا کے بجائے گجرات کی معاشی ترقی کے نعرے پر لڑا۔ 2011ء اور 2012ء میں مسلمانوں کی سیاسی قربت حاصل کرنے کیلئے مودی نے سدبھاونا مشن کے تحت 26اضلاع کے آٹھ شہروں میں جاکر روزے رکھنے کا سلسلہ شروع کیا مگر ہندو جنونیوں کے ہاتھوں مارے جانے والے مسلمانوں کے خون کے چھینٹوں سے داغدار نریندر مودی کا راجیش کھنّہ برانڈ آدھی آستینوں والا لمبا کرتا اسے اسلامیانِ ہند کیلئے ایک ناقابلِ قبول کردار بنا دیتا ہے۔
دنیا بھر میں متنازع ، ہندوقوم پرستی کی علامت، انتہا پسند ہندو تنظیم راشٹریہ سیوک سنگھ کا 1970ء سے مستقل پرچارک، آر ایس ایس کے ناگپور ٹریننگ سینٹر سے تربیت حاصل کر کے سنگھ پریوار کا باقاعدہ ممبر بن کر 1971ء کی پاک بھارت جنگ میں حصہ لینے والا، مرلی منوہر جوشی کی ایکا یاترا سے متاثر، بھارت کے ایک غریب شہری دامو درداس مُول چند کا فرزند، نریندر مودی، انتہائی کم عمری میں اپنے والد کے ساتھ وادنگر ریلوے اسٹیشن پر ریل گاڑیوں کی بوگیوں میں چائے بیچا کرتا تھا۔ تھوڑا بڑا ہوا تو بھائی کے ہمراہ چائے کا الگ اسٹال لگا لیا۔ اساتذہ کی نظر میں ایک اوسط درجے کا طالب علم مگر فن ِتقریر سے خوب آشنا۔ 1985ء میں بھارتیہ جنتا پارٹی کا رکن بنا۔ چائے کے کھوکھے سے اُٹھ کر ہندوستان جیسی بڑی جمہوریہ کا متوقع پردھان منتری نریندر مودی، برصغیر کی موروثی سیاست کے پسِ منظر میں بھارت میں بسنے والے اربوں انسانوں کے دِل کی آواز بن سکتا تھا مگر پاکستان اور مسلمان دشمنی کا کارڈ 68برس گزر جانے کے باوجود بھارتی سیاست میں آج بھی ترپ کا پتا ہے اور مودی ہمیشہ اسی پتے سے اپنا سیاسی کھیل کھیلتا رہا ہے۔
پہلی بار اکتوبر 2001ء میں بھارتی ریاست گجرات کا مکھ منتری بننے والا نریندر مودی 2007ء میں طویل ترین عرصے تک اِس منصب پر فائز رہنے کا ریکارڈ قائم کرتا ہے اور مسلسل چوتھی بار یہ اہم منصب حاصل کرنے میں کامیاب رہتا ہے۔ 65سالہ مودی کو بابری مسجد کی شہادت کے مرکزی کردار لال کرشن ایڈوانی پر فوقیت دے کر 2014ء کے انتخابات میں نیشنل ڈیموکریٹک الائنس کی طرف سے بھارتی پردھان منتری کا امیدوار نامزد کیا گیا ہے۔ دی اکنامک ٹائم وغیرہ کے سروے کے مطابق 74فیصد بھارتیوں کی رائے میں مودی بھارت کا اگلا پردھان منتری بننے میں کامیاب ہوسکتا ہے۔
ہندو جنونیوں کے ’جمہوری‘ کندھوں پر سوار ہو کر نریندر مودی کا بھارتی پردھان منتری بننے کا خواب تو شاید شرمندۂ تعبیر ہوجائے مگر گجرات کی مٹی کے امن پسند سپوتوں محمد علی جناح اور موہن داس کرم چند گاندھی کی روحیں ضرور بے چین ہوں گی کہ مسلمانوں کے خون سے ہولی کھیلنے والا نریندر مودی اور اُس کے جنونی پیروکار برصغیر کے امن کو مذہبی فسادات کی طرف دھکیل کر آج کی امرتا پریتم کو پھر سے بیلے میں بچھی لاشوں اور لہو کی بھری چناب دیکھنے اور کسی وارث شاہ کو قبروں کے اندر سے بولنے کی دہائی دینے پر مجبور نہ کر دے۔ مورخ قلم اٹھائے برِصغیر کے مستقبل کی تاریخ رقم کرنے کو منتظر ہے جس میں ہندو انتہا پسند نریندر مودی دنیا کی سب سے بڑی جمہوریہ بھارت کا پردھان منتری ہوگا۔