اب اس سلسلے میں کوئی دوسری نہیں ہوسکتی کہ اس وقت پاکستان ایک انتہائی سنگین معاشی بحران میں پھنس گیا ہے اور ملک کے اس بحران سے نکلنے کے بھی کوئی آثار نظر نہیں آرہے مگر یہ بھی کوئی کم افسوسناک بات نہیں کہ اس وقت ملک میں نہ ایسی سیاسی قیادت نظر آرہی ہے، نہ ایسے اقتصادی ماہرین نظر آرہے ہیں اور اس وقت ہمارے ملک کی افسر شاہی بھی ایسے افسران کو ترس رہی ہے جو ملک کو اس بحران سے نکالنے میں اپنا کردار ادا کرسکیں۔ ایسے وقت میںان اطلاعات نے ملک کے عوام کی پریشانی کو اور بڑھا دیا ہے کہ اس وقت پاکستان کو 96 ارب روپے کا شارٹ فال ہوا ہے لہٰذا حکومت کو سخت ٹیکس اقدامات کرنے پڑیں گے تاکہ معاشی بحران مزید سنگین نہ ہو جائے مگر کیا پاکستان کے اس وقت کے اقتصادی اور سیاسی ماہرین یہ مقصد حاصل کر سکیں گے؟۔ اس کے امکانات بہت کم نظر آ رہے ہیں لہٰذا عوام کو ابھی سے ان حالات کا مقابلہ کرنے کے لئے کمر کس لینی چاہیے ورنہ ان کا پتہ نہیں کیا حشر ہو گا؟ اللّٰہ پاک خیر کرے۔ سرکاری اطلاعات کے مطابق ملک کو اس صورتحال سے محفوظ رکھنے کے لئے حکومت کو شاید منی بجٹ لاکر بقول سرکاری ذرائع ’’ٹیکس چوروں‘‘ کے خلاف کوئی سخت کارروائی کرنی پڑے گی۔ فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) پہلی سہ ماہی کے نئے مقرر کئے گئے ہدف حاصل کرنے میں کامیاب رہا جس کا 96 ارب روپے کے مارجن کے ساتھ آئی ایم ایف سے اتفاق کیا گیا تھا‘ اسی دوران مزید تشویشناک اطلاعات یہ آئی ہیں کہ وفاقی حکومت نے مزید کئی اداروں کی نجکاری کا منصوبہ بنایا ہے۔ اس منصوبے کے تحت جن اداروں کو سب سے پہلے نجکاری کے حوالے کیا جا رہا ہے وہ ہیں ’’پاکستان اسٹون ڈویلپمنٹ کمپنی،آٹو موبائل کارپوریشن انسٹیٹیوٹ آف مینجمنٹ، کھادی کرافٹس ڈولپمنٹ، اینگرو فوڈ پروسیسنگ، لیدر کرافٹس ڈویلپمنٹ، مورا فیکو انڈسٹریز، سدرن پنجاب ایمبرو ایمبی انڈسٹریز اور گوجرانوالہ بزنس سینٹر‘‘۔ حکومتی ذرائع کے مطابق وزیر اعظم نے مزید مختلف اداروں کی نجکاری کے پلان پر عملدرآمد کے لئے وزارت صنعت و پیداوار اور وزارت نجکاری کو ٹاسک دیا ہے۔ ان ذرائع کے مطابق پاکستان کیمیکل اینڈ انرجی سیکٹر ڈویلپمنٹ کمیٹی اور اسپن یارن ریسرچ اینڈ ڈویلپمنٹ کمیٹی کی نجکاری کرنے کا پلان بھی بنایا گیا ہے۔ ان ذرائع کا مزید کہنا ہے کہ
وفاقی حکومت کی پہلی ترجیح ان اداروں کی نجکاری ہو گی اور دوسرے آپشن کے طور پر ان اداروں کو ختم کرنا بھی اس پلان کا حصہ ہو گا۔ حکومتی ذرائع کے مطابق وفاقی حکومت کا حجم اور اخراجات کم کرنے کے لئے عملدرآمد ہورہا ہے جس میں اداروں کو بند‘ اداروں کی نجکاری اور اداروں کو ضم کرنے کے علاوہ دیگر اقدامات بھی شامل ہیں۔ ابھی ان اداروں کی نشاندہی نہیں کی گئی، بہرحال اگر یہ سب کچھ ہو رہا ہے یا ہو سکتا ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ عملی طور پر پورے ملک کا نظام متاثر ہو گا۔ اب ہر ایک کو تیار ہونا پڑے گا کہ ان اداروں کے بند ہونے پر کئی ہزار لوگ بے روزگار ہو جائیں گے‘ حقیقت یہ ہے کہ ان خطرناک اقدامات کے نتیجے میں کئی لوگ نہیں پتہ نہیں کتنے خاندان بے روزگار ہو جائیں گے تو پھر یہ بال بچے کیسے پالے جائیں گے‘ تو کیا لوگ پاکستان چھوڑ کر کسی اورملک میں جانے کی تیاری کریں؟۔ اسی دوران اطلاعات کے مطابق رائٹ سائزنگ پالیسی کے تحت وفاقی کابینہ کے 27اگست 2024ءکے فیصلوں پر عملدرآمد شروع ہو گیا ہے جس کے مطابق وزارت صحت نے تین اداروں کو ایک ادارے میں ضم کر دیا ہے۔ اسی طرح نیشنل ہیلتھ سروسز ریگیو لیشنز اینڈ کوآرڈنیشن ڈویژن نے ریجنل ٹریننگ انسٹیٹیوٹ اسلام آباد، نیشنل انسٹیٹیوٹ آف پاپولیشن اسٹڈیز اسلام آباد، نیشنل انسٹیٹیوٹ آف فزٹیلٹی کیئر کراچی کا انضمام کر کے انہیں ایک ٹریننگ اور ریسرچ ادارے میں تبدیل کر دیا ہے۔ جس کافوکس پاپولیشن پر ہو گا۔ مگر محسوس ہو رہا ہے کہ اب تک ملک کے اتنے اداروں کی نجکاری کے فیصلے کرنے کے باوجود اب تک حالات قابو میں نہیں آئے ہیں۔ اس سلسلے میں موصول ہونے والی اطلاعات کے مطابق وفاقی حکومت نے مزید اداروں کی نجکاری کے لئے مذاکراتی کمیٹی بنانے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس سے صاف واضح ہوتا ہے کہ حکومت ملک کے کئی اور اداروں کی نجکاری کرنا چاہتی ہے۔ اس سلسلے میں حال ہی میں پرائیوٹائیزیشن کمیٹی کے بورڈ کا اجلاس ہوا جس میں یہ فیصلہ کیا گیا ہے کہ بورڈ نے تین ڈسکوز یعنی FESCO, GESCO اور IESCOمیں پرائیویٹ سیکٹر کی شرکت کے لئے مالیاتی مشیر (FA)کی خدمت حاصل کرنے کے لئے جائزہ لیا۔ اور پری کوالیفائیڈ پینل میں سے FAکی خدمات حاصل کرنے کے طریقہ کار اپنانے کے فیصلے کئے۔ اطلاعات کے مطابق بورڈ کے اجلاس میں بشمول زرعی ترقیاتی بینک اور یوٹیلٹی اسٹورز مزید اداروں کی نجکاری کے حوالے سے امور پر بھی غور کیا گیا۔