ہر سال دنیا بھر میں اکتوبر کے مہینے میں ’’بریسٹ کینسر آگاہی مہم‘‘ پورے زور و شور سے چلائی جاتی ہے، جس کا مقصد عوام النّاس، خصوصاً خواتین کو اِس خطرناک مرض سے متعلق مکمل آگہی (علامات، تشخیص و علاج، بچائو اور احتیاطی تدابیر کے ضمن میں معلومات کی فراہمی) مہیّا کرنا ہے، کیوں کہ بریسٹ کینسر خواتین میں پایا جانے والا سب سے عام کینسر ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق سال 2022ء میں پوری دنیا میں تقریباً 670000 خواتین اس بیماری کی وجہ سے لقمۂ اجل بنیں، جو کہ صحت کے اداروں کے لیے ایک سوالیہ نشان ہے۔
عموماً معالجین کے مطابق، اگر کسی بھی خاتون کی بریسٹ میں کوئی ایسی گلٹی موجود ہے، جس میں درد نہ ہو۔ بریسٹ کی جلد نا ہم وار ہے یا دھنستی محسوس رہی ہے؟ نِپل اندر دھنس رہا ہے یا اِس سے کوئی مواد خارج ہو رہا ہے، خاص طور پر خون۔ بریسٹ کی جِلد کی رنگت سُرخ ہورہی ہے؟ بغل یا گردن میں کوئی گلٹی موجود ہے؟ اگرکوئی بھی خاتون ایسی کوئی بھی علامت محسوس کرتی ہے، تو اُسے فوراً سے پیش تر کسی مستند ڈاکٹر سے رجوع کر کے اپنا تفصیلی معائنہ کروانا چاہیے، لیکن کس قدر افسوس کی بات ہے کہ جدید ترین ٹیکنالوجی کے اِس موجودہ دَور میں بھی بریسٹ کینسر کی شکار خواتین کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔
اگرچہ اس حوالے سے متعدد آگاہی مہمات بھی چلائی جاتی ہیں، مگر اس کے باوجود ہمارے یہاں زیادہ تر خواتین اِس حوالے سے بات کرنے سے کتراتی ہیں یا ہچکچاہٹ محسوس کرتی ہے۔ یاد رکھیں، عمومی طور پر بریسٹ کی ایسی گلٹی، جس میں سرطان کا امکان ہو، درد نہیں کرتی اور اِسی وجہ سے بیش تر خواتین ایسی گلٹی کو نظرانداز کردیتی ہیں، جب کہ اِس گلٹی کے سبب ہونے والا سرطان نہ صرف بریسٹ، بغل بلکہ جسم کے باقی اعضاء مثلاً جگر، پھیپھڑوں، ہڈیوں اور دماغ تک پھیل جاتا ہے۔ بعد ازاں، سرطان کے پورے جسم میں پھیلاؤ کے بعد جب مریضہ یا اُس کے اہلِ خانہ معالج سےرابطہ کرتےہیں کہ علاج کے ذریعے مریضہ کی جان بچائی جائے، تو تب تک مرض اُس اسٹیج تک پہنچ چُکا ہوتا ہے کہ قابلِ علاج ہی نہیں رہتا۔
صد شُکر کہ اب پاکستان میں سرطان کے مریضوں کی باقاعدہ رجسٹریشن کا عمل شروع ہوچُکا ہے اور اِس ضمن میں پہلی رپورٹ ایک بین الاقوامی جریدے میں شائع ہوئی ہے، جس کے مطابق 2019 ء سےپاکستان میں سرطان کےمرض کی شرح میں خطرناک حد تک اضافہ ہورہا ہے۔ کُل تشخیص شدہ مریضوں میں سے 56 فی صد تعداد خواتین اور 44 فی صد مَردوں پر مشتمل ہے، جب کہ تمام اقسام کے کینسرز میں سے بریسٹ کینسر پہلے نمبر پر ہے۔
نیز، یہ سرطان 20 سال سے 39 سال کی عُمر کی خواتین میں سب سے زیادہ دیکھا گیا۔ سالِ رفتہ کے اعداد و شمار کے مطابق صرف، مینار کینسر اسپتال، ملتان میں 3ہزار سے زائد مریضوں میں کینسر کی تشخیص اور رجسٹریشن ہوئی، جن میں سے 60فی صد تعداد خواتین اور40فی صد حضرات پر مشتمل تھی اور کُل کیسز میں سے تقریباً 40 فی صد میں بریسٹ کینسر کا مرض تشخیص ہوا۔ انتہائی افسوس کا مقام ہے کہ پاکستان میں آج بھی FNAC یا بائیوآپسی یعنی سوئی/ سرنج کے ذریعے بریسٹ کی گلٹی کے مواد لینے کے حوالے سے خاصا ابہام پایا جاتا ہے۔
عموماً کہا جاتا ہے کہ اِس ٹیسٹ سے کینسر پھیل جائے گا، تو سب سے پہلے تو اِس سوفی صدغلط مفروضےکوختم کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ کسی بھی گلٹی کے بظاہرمعائنے یا الٹرا ساؤنڈ کے ذریعے بھی یہ بتانا بہت مشکل بلکہ کسی حد تک ناممکن ہے کہ یہ سرطان کی گلٹی ہے یا نہیں۔ سرنج کے ذریعے ٹیسٹ کی مدد ہی سے گلٹی میں کینسر کی تشخیص ممکن ہے۔ مزید برآں، میموگرافی کے ضمن میں بھی یہی ابہام موجود ہے کہ یہ شعائیں جسم کے لیے بہت خطرناک ہیں، حالاں کہ یہ بھی محض مفروضہ ہے۔ حقیقت میں میموگرافی ٹیسٹ بھی بریسٹ کینسر کی تشخیص کا لازمہ ہے۔
پاکستان اٹامک انرجی کمیشن (PAEC) یعنی ادارہ جوہری توانائی پاکستان 1956ء میں قائم ہوا اور اُس وقت سے تاحال نہ صرف جوہری توانائی کے ضمن میں بلکہ انسانی صحت کے حوالے سے بھی بہترین خدمات سرانجام دے رہا ہے۔ PAEC کے زیرِ نگرانی 19 میڈیکل سینٹرز پورے پاکستان میں بالخصوص کینسر کے مریضوں کی تشخیص و علاج کے لیے کوشاں ہیں۔
یہ میڈیکل سینٹرز اسلام آباد، کراچی، لاہور، گوجرانوالہ، فیصل آباد، ملتان، بہاول پور، لاڑکانہ، جام شورو، کوئٹہ، ڈیرہ اسماعیل خان، پشاور، بنّوں، ایبٹ آباد، سوات اور اب گلگت میں بھی قائم ہیں اور پاکستان کے تقریباً 80فی صد سے زائد مریضوں کی تشخیص وعلاج کے حوالے سے انتہائی موثرکردار ادا کر رہے ہیں۔ واضح رہے، دنیا بھر میں ہر9 میں سے ایک خاتون میں بریسٹ کینسر ہونے کا خطرہ موجود ہے، لیکن پاکستان میں ہر8میں سےایک خاتون بریسٹ کینسر کی شکار ہو سکتی ہے۔
یوں تو بریسٹ کینسرکی متعدد وجوہ ہیں، جب کہ عُمر بڑھنے کے ساتھ ساتھ بھی اِس کی شرح میں خاصا اضافہ دیکھا جاتا ہے، لیکن ہمارے ہاں ایک المیہ یہ بھی ہے کہ اب خاصی کم عُمر خواتین میں بھی یہ مرض تشخیص ہورہا ہے۔ بہر کیف، مانع حمل ادویہ کے بےجا استعمال، ماہ واری کے نظام کا12سال کی عُمر سے قبل آغاز یا55 سال کی عُمرکے بعد بھی جاری رہنا،30سال کی عُمر سے پہلے کسی اور بیماری کے سبب شعائوں کے ذریعے علاج، موروثی کینسر، مائوں کا اپنے بچّوں کودودھ نہ پلانا، موٹاپا اورتمباکونوشی یا الکحل کا استعمال اِس کی بڑی وجوہ ہوسکتی ہیں۔ اگر خاندان میں والدہ، خالہ، پھوپھی، فرسٹ کزن یا بہن میں بریسٹ کینسر کی ہسٹری موجود ہو تو آنے والی نسل میں اِس کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔
پھر بعض اوقات ایسے سینڈرومز بھی ہوجاتے ہیں، جن کے سبب خاندان کے مختلف لوگ مختلف اقسام کےکینسرزمیں مبتلاہوسکتے ہیں۔ اِن میں بریسٹ کینسر، انڈے دانی، بچّے دانی، دماغ، آنتوں کا کینسر اور خون کا کینسر بھی شامل ہیں۔ ہمارے یہاں اِس کے لیے جینیٹک ٹیسٹنگ کی سہولت موجود ہے۔ یاد رہے، کچھ خاص جینز جیسے (BRCA1 and BRCA2 Genes) جو بریسٹ کینسر کا مرض لاحق ہونے میں اہم کردار ادا کرتےہیں، اُن کی تشخیص کےجدید ترین ٹیسٹس کی سہولت نہ صرف پاکستان کے بڑے شہروں، بلکہ جنوبی پنجاب میں بھی موجود ہے۔
کسی بھی کینسر کی طرح بریسٹ کینسر میں بھی سرطان کی اسٹیجز یعنی مراحل کے مطابق علاج کیا جاتا ہے، تب ہی خاطرخواہ نتائج حاصل ہوتے ہیں۔ پہلی اور دوسری اسٹیج یعنی ابتدائی مراحل میں بریسٹ کینسرکےعلاج کی صُورت میں کام یابی کا امکان تقریباً98 فی صد تک ہوتا ہے۔ تیسرے مرحلے میں تقریباً80فی صد تک مریض صحت یاب ہوسکتے ہیں۔
جب کہ چوتھی اسٹیج یعنی آخری مرحلے میں جب بیماری جسم کے باقی اعضاء کو بھی متاثر کرچُکی ہوتی ہے، علاج میں کام یابی کی شرح محض 20سے 30فی صدہی تک رہ جاتی ہے۔ عام طور پر بریسٹ کینسر کےعلاج کےدوران اور علاج کے بعد تقریباً دو سے تین سال تک کے لیے خواتین کو حاملہ نہ ہونے کی ہدایت کی جاتی ہے، لیکن بہرحال فیملی پلاننگ کے لیے اُنھیں مانع حمل ادویہ کےاستعمال سے گریز ہی کرنا ہوگا۔ اس ضمن میں مزید مشورے کے لیے اُنھیں کسی مستند گائنا کالوجسٹ سے رابطہ کرنا چاہیے۔
’’بریسٹ کینسر آگاہی مہم‘‘ کے ضمن میں اِس وقت ضرورت اِس امر کی ہے کہ بڑے پیمانے پر ایک اسکریننگ پروگرام کا آغاز کیا جائے۔مطلب بیماری ہونے سے پہلے بچائو کے لیے اقدامات کیے جائیں۔ اس حوالے سے40سے44 سال کی عُمر کی خواتین کو یہ مشورہ دیاجانا بےحد ضروری ہے کہ وہ بریسٹ کی صحت سے آگاہ رہیں۔ میموگرافی شروع کروائیں۔ ہر45سے54 سال کی عُمر کی عورت کو سال میں ایک بار میموگرافی ضرور کروانی چاہیے۔55سال یا اس سے زائد عُمر کی خواتین کو ہردوسرے سال یہ ٹیسٹ کروانا چاہیے۔ Self breast examination یعنی خُود اپنا معائنہ کرنا آنا چاہیے۔ آپ اس طریقۂ کار کو متعلقہ ڈاکٹر سے اچھی طرح سمجھ لیں اور وقتاً فوقتاً اپنا معائنہ کرتی رہیں۔
کسی بھی تبدیلی کی صُورت میں فوری متعلقہ ڈاکٹر سے رجوع کریں۔تشخیصی ٹیسٹسں میں معائنہ، FNACیعنی گلٹی میں سرنج کی سوئی ڈال کر گلٹی کے چند سیلز لے کے کینسر کی تشخیص، Biopsy یعنی گلٹی کا نمونہ لینا، میموگرافی اوربریسٹ کا الٹرا سائونڈ وغیرہ شامل ہیں۔ بریسٹ کینسر کےعلاج کا جہاں تک سوال ہے، تو اُس میں آپریشن، کیموتھراپی، ریڈیو تھراپی (شعائوں کے ذریعےعلاج) وغیرہ شامل ہیں۔ نیز، بائیولوجیکل ٹریٹمنٹ یا ٹارگٹڈ تھراپی کی سہولت بھی میسّر ہے۔ یعنی ایسی ادویہ، جن کے سائیڈ ایفیکٹس کم سے کم ہوتے ہیں اوریہ ادویہ ٹیکوں، گولیوں اور کیپسولز کی شکل میں دست یاب ہیں۔ ریڈیو تھراپی کے لیے جدید ترین مشین LINAC موجود ہے۔
ایک بات ذہن نشین کرلیں کہ بریسٹ کینسر کے مکمل علاج کے بعد بھی ڈاکٹر اگلے 5 برس تک مریضہ کو باقاعدہ چیک اَپ کی ہدایت کرتے ہیں، کیوں کہ کینسر کے مکمل علاج کے بعد کے5سال نہایت اہم ہوتے ہیں کہ خدانخواستہ اِسی دوران کینسر کے دوبارہ ہونے کے امکانات زیادہ ہوتے ہیں۔ اس بات کا یقین رکھیں کہ بریسٹ کینسر کو شکست دینا مشکل نہیں، لیکن اس کے لیے بروقت تشخیص و علاج ازحد ضروری ہے۔ نیز، زیادہ سے زیادہ خواتین اسکریننگ پروگرام میں شامل ہوں تاکہ ہر صورت مرض کی روک تھام ممکن ہو، مرض لاحق ہونے یا علاج کے جاں گُسل مراحل تک جانے کی نوبت ہی نہ آئے۔ (مضمون نگار، معروف آنکولوجسٹ (ماہرِ امراضِ سرطان) ہیں اور مینار کینسر اسپتال، ملتان میں خدمات انجام دے رہی ہیں)