• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

قومی شناختی کارڈ کے بعد، کسی بھی مُلک کا پاسپورٹ اُس کی شناخت اور پہچان کا ایک موثر وسیلہ ہوتا ہے۔یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ دنیا بَھر کے ہوائی اڈوں اور دیگر سرحدی امیگریشن دفاتر پر پاسپورٹ ہولڈر سے اُس کے مُلک کی حیثیت کے مطابق ہی سلوک کیا جاتا ہے۔

بہت سے ممالک کے شہریوں کے ساتھ نہایت عزّت و احترام سے پیش آیا جاتا ہے، تو ایسے ممالک کی بھی کمی نہیں، جن کے شہریوں کو’’ مشکوک افراد‘‘ کی طرح ٹریٹ کیا جاتا ہے اور بدقسمتی سے پاکستان بھی ایسے ہی ممالک میں شامل ہے کہ آج پاکستانی پاسپورٹ کا شمار دنیا کے 4بدترین پاسپورٹس میں ہوتا ہے، جسے دیکھتے ہی امیگریشن حکّام کی بھنویں تن جاتی، لہجہ بدل جاتا ہے اور طور اطوار میں تضحیک آمیز تبدیلی آ جاتی ہے۔

عموماً ایسے میں پاکستانی مسافر حسرت بَھری نظروں سے دیگر ممالک کے مسافروں کو دیکھتے ہیں کہ جنہیں نہایت شائستگی سے خوش آمدید کہا جاتا ہے، جب کہ وہ خُود کسی ملزم کی طرح کٹہرے میں کھڑے طرح طرح کے سوالات کے جوابات دے رہے ہوتے ہیں۔

سوال یہ ہے کہ آخر پاکستانی شہریوں کے ساتھ ایسا ہتک آمیز سلوک کیوں روا رکھا جاتا ہے؟ پاکستانی حکّام نے شاید کبھی اِس بات پر غور ہی نہیں کیا اور نہ اپنے پاسپورٹ کی عزّت و تکریم بڑھانے کے لیے کوئی اقدامات کیے، کیوں کہ اگر اُنھوں نے ایسا کچھ کیا ہوتا، تو آج گرین پاسپورٹ کی یہ حالت نہ ہوتی۔شاید اِس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ اُن کی اکثریت کے پاس تو’’بلیو پاسپورٹ‘‘ ہے، جس کے باعث اُنھیں سفر کے دَوران امیگریشن کاؤنٹرز پر اُس رویّے کا سامنا نہیں کرنا پڑتا، جو عام شہریوں کا مقدّر بنا ہوا ہے۔

پاکستانی پاسپورٹ کی اِسی گرتی ساکھ کا نتیجہ ہے کہ آج ہر تیسرا، چوتھا پاکستانی اپنا مُلک چھوڑ کر دوسرے ممالک میں آباد ہونے اور وہاں کا پاسپورٹ حاصل کرنے کے جنون میں مبتلا ہے اور اِس مقصد کے لیے وہ ہر جائز، ناجائز راستہ اختیار کرنے پر تیار ہے۔ پاکستانی پاسپورٹ اِس حال تک کیسے پہنچا؟ اس کا 1947ء سے 2024ء تک کا سفر ایک ایسی فکر انگیز کتھا ہے، جس میں قدم قدم پر سیاسی، سماجی اور اقتصادی ناہم واریوں، ناانصافیوں اور تلخیوں کی کہانیاں بکھری پڑی ہیں۔

پاکستانی پاسپورٹ کا سفر…

معروف محقّق، ڈاکٹر محمّد اکرام چغتائی کے مطابق، پاکستان کا پہلا پاسپورٹ آزادی کے فوراً بعد علّامہ محمّد اسد کو جاری کیا گیا، جو ہنگری میں مقیم تھے، لیکن تقسیمِ ہند کے بعد پاکستان آگئے اور وہ سرکاری طور پر پاکستان کی شہریت حاصل کرنے والے پہلے شخص تھے۔ وہ 1900ء میں پیدا ہوئے اور 1992ء میں انتقال کر گئے۔ دائرۃ المعارف کے مطابق، پہلے پاکستانی پاسپورٹ کا نمبر000001تھا اور یہ 15ستمبر 1947ء کو جاری ہوا، لیکن بعض دیگر مؤرخین اِس بات سے اتفاق نہیں کرتے کہ پاکستان کا پہلا پاسپورٹ اسد سلیم کے نام سے جاری کیا گیا تھا۔ 

اُن کا موقف ہے کہ اسد سلیم کے پاسپورٹ کے آخر میں اعتراف موجود ہے کہ یہ ایک برطانوی پاسپورٹ تھا، جس کے شہریت کے خانے میں برطانوی شہری کی بجائے’’پاکستانی شہری‘‘ درج کیا گیا تھا۔ پاکستان کے پہلے پاسپورٹ کی جِلد کا رنگ ہلکا بادامی اور جزوی طور پر سبز تھا۔ اُس پر تین زبانوں انگریزی، بنگالی اور اردو میں’’ پاکستانی پاسپورٹ‘‘ لکھا گیا تھا۔نیز، اُس پر دو پرچم بھی بنے ہوئے تھے، ایک مغربی پاکستان تو دوسرا مشرقی پاکستان کی ترجمانی کرتا تھا۔ پاسپورٹ ہولڈر، بھارت سمیت جس مُلک کا بھی سفر کرنا چاہتا، اُسے وہاں آمد پر ویزا مل جاتا تھا۔ 1954ء میں ہلکے بادامی رنگ کی جگہ سبز رنگ نے لے لی۔ 

ابتدا میں جن بڑی شخصیات کو پاسپورٹ جاری کیے گئے، اُن میں پاکستان کے پہلے وزیرِ اعظم، لیاقت علی خان بھی شامل تھے، جنہیں13اپریل 1949ء کو پاسپورٹ جاری کیا گیا۔ لیکن بدقسمتی سے اُس پاسپورٹ کے حامل کے ساتھ انتہائی ظلم ہوا۔ قائد ملّت، لیاقت علی خان کو شہید کر دیا گیا، جب کہ پاکستان کے اس تاریخی پاسپورٹ کو کراچی کے محکمہ امیگریشن نے 23نومبر 1978ء کو ردّی کے ایک ڈھیر سے برآمد کیا۔ 1949ء میں پاسپورٹ بنوانے کی فیس 10روپے ہوا کرتی تھی۔ 

یہاں اِس بات کا ذکر بھی ضروری ہے کہ قیامِ پاکستان کے بعد ابتدا میں ہوم ورک نہ ہونے کی وجہ سے کئی ماہ تک آئین، قانون، کرنسی، ڈاک ٹکٹ اور پاسپورٹ وغیرہ سمیت تمام سرکاری دستاویزات برطانوی ہند ہی کی ہوتی تھیں، جن پر’’پاکستان‘‘ چسپاں کر کے کام چلایا جاتا تھا۔ یہاں تک کہ خود بانیٔ پاکستان بھی تاحیات برطانوی پاسپورٹ ہولڈر رہے۔ یہی وجہ ہے کہ بعض افراد، نواب زادہ لیاقت علی خان کو جاری کردہ پاسپورٹ ہی کو پاکستان کا پہلا سرکاری پاسپورٹ قرار دیتے ہیں۔

بہرحال، جب پاکستان میں باقاعدہ پاسپورٹ بننے شروع ہوئے، تو اس کے بعد بھی اس کے ڈیزائن، رنگ اور تحریروں میں رد و بدل جاری رہا۔ ابتدا میں پاکستانی پاسپورٹ کو دنیا میں غیر معمولی عزّت و توقیر حاصل تھی اور 1954ء میں پاکستانی پاسپورٹ بھارت سمیت دیگر ممالک میں بغیر ویزا قابلِ قبول تھا۔ بھارت میں آمدو رفت کا یہ سلسلہ1965ء تک جاری رہا۔ ایّوب خان کے دَور میں پہلی بار پاسپورٹ کے سرورق پر قومی نشان کا اضافہ کیا گیا، جو آج تک برقرار ہے۔

عام لوگوں تک رسائی

1960ء کی دہائی میں پاکستانی پاسپورٹ کو غیر معمولی قدر و منزلت حاصل تھی اور اس کا حصول بھی جوئے شیر لانے کے مترادف تھا۔1961ء سے1974ء تک اس کا شمار دنیا کے ٹاپ 30بہترین پاسپورٹس میں ہوتا تھا، لیکن 2006ء میں جب پاسپورٹ کی عالمی رینکنگ کا آغاز ہوا، تو اس کی پوزیشن 79ویں نمبر تک گرچُکی تھی، جو بعدازاں مسلسل گراوٹ کا شکار رہی اور آج صومالیہ، ایتھوپیا، سوڈان اور نائیجریا جیسے ممالک بھی رینکنگ میں ہم سے آگے ہیں۔ 

ماضیٔ قریب کی طرف نظر دوڑائیں، تو معلوم ہوتا ہے کہ ذوالفقار علی بھٹّو کے دور میں (1977-1971ء) پاکستانی پاسپورٹ کے حصول کے دروازے عام لوگوں کے لیے بھی کُھلے، جب مشرقِ وسطیٰ کے ممالک کو بڑی تعداد میں افرادی قوّت مہیا کی گئی۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق، اُس دَور میں 60ممالک میں جانے کے لیے ویزے کی ضرورت نہیں ہوتی تھی، جب کہ 100 سے زاید ممالک میں آمد پر ویزا مل جاتا تھا، البتہ بھٹّو دَور میں امریکا نے پاکستانی پاسپورٹ پر پہلی بار سختی شروع کی، کیوں کہ امریکا کی نظر میں پاکستان اُس کا اتحادی مُلک نہیں رہا تھا۔ 

70ء کی دہائی میں بے شمار ہنر مند پاکستانیوں نے عرب امارات اور سعودی عرب کا رُخ کیا۔ جنرل ضیاء الحق کے دَور میں پہلی بار 1984ء میں پاکستانی پاسپورٹ پر اردو اور انگریزی کے علاوہ عربی زبان کا بھی اضافہ کیا گیا، جو مشرقِ وسطیٰ کے ممالک کی سہولت کے لیے تھا۔نیز، پاسپورٹ میں مذہب کا خانہ بھی شامل کیا گیا۔

پاکستانی پاسپورٹ کو اِس وقت جس تذلیل کا سامنا ہے، اُس کا حقیقی آغاز جنرل ضیاء الحق کے دَور ہی میں ہوا، جب پاکستان، افغان وار میں شامل ہوا اور ہیروئین فروشی، انسانی اسمگلنگ، کلاشنکوف کلچر اور دہشت گردی کے حوالے سے دنیا بَھر میں بدنام ہونے لگا۔اُس دَور میں برطانیہ سمیت کئی مغربی ممالک نے پاکستانیوں کو آمد پر ویزا دینا بند کر دیا۔ اسی دوران خلیجی ممالک نے بھی اپنی پالیسیز تبدیل کیں، جس کے نتیجے میں پاکستانیوں کو متحدہ عرب امارات، قطر، عمان، کویت اور سعودی عرب کی طرف سے پابندیوں کا سامنا کرنا پڑا۔

روسی بلاک پہلے ہی سختیاں برت رہا تھا۔ اس کے بعد دنیا میں جُوں جُوں دہشت گردی بڑھتی گئی، ویزوں کے اجراء کی پالیسی بھی سخت ہونا شروع ہوگئی اور پھر جب دنیا میں اسلامو فوبیا کا جنون بڑھا، تو پاکستانی پاسپورٹ پر لفظ’’اسلامی جمہوریہ پاکستان‘‘ پڑھ کر امیگریشن حکّام بِدکنے لگے اور ایسے پاسپورٹ ہولڈر کو دہشت گرد تصوّر کیا جانے لگا۔ ماہرین کی نظر میں پاکستانی پاسپورٹ کی بے قدری اور بے توقیری کا سب سے بڑا فیکٹر یہی ہے اور ستم ظریفی یہ ہے کہ اسلامی دنیا نے اسلامو فوبیا سے نمٹنے کے لیے کوئی قابلِ ذکر کام نہیں کیا۔ 

جب پاکستانیوں پر قانونی طریقے سے پابندیاں لگ گئیں، تو لوگوں نے ہیومن ٹریفکنگ کے ذریعے دوسرے ممالک کا رُخ کرنا شروع کیا اور اب حالت یہ ہے کہ ہر تیسرے، چوتھے روز اٹلی، لیبیا، یونان اور تُرکی وغیرہ کے ساحلوں پر غیر قانونی تارکینِ وطن کی کشتیوں کے ڈوبنے یا ایران اور دیگر ممالک کے سرحدی محافظوں کی گولیوں کا نشانہ بننے والے تارکینِ وطن کی ہلاکتوں کی خبریں سیکڑوں خاندانوں پر قیامت بن کر ٹوٹتی ہیں اور یہی وجہ ہے کہ دنیا بَھر کے ہوائی اڈّوں اور سرحدی مقامات پر امیگریشن حکّام پاکستانی پاسپورٹ کو شک بَھری نظروں سے دیکھتے ہیں۔

اِس معاملے کا ایک اہم پہلو یہ بھی ہے کہ افغانستان پر روسی حملے اور پھر دوسری افغان جنگ کے بعد لاکھوں افغان مہاجرین نے پاکستان کا رُخ کیا، اِن کی ایک بڑی تعداد نے جعل سازی کا سہارا لیتے ہوئے پاکستان کا قومی شناختی کارڈ حاصل کرلیا اور پھر اسی کی بنیاد پر گرین پاسپورٹ بھی بنوا لیا، جس کی بنیاد پر وہ بیرونِ مُلک سفر بھی کرتے رہے۔اِس طرح کے بہت سے افراد مختلف ممالک کے ائیر پورٹس پر مختلف الزامات کے تحت گرفتار بھی ہوئے، جس کے نتیجے میں پاکستانی پاسپورٹ کی ساکھ بُری طرح مجروح ہوئی۔

پاکستانی پاسپورٹ کا یہ گراف یک لخت نیچے نہیں آیا، بلکہ حُکم رانوں کی غلط پالیسیز کی وجہ سے مسلسل گراوٹ کا شکار رہا۔ 2006ء میں مشرّف دورِ حکومت میں پاکستان 79ویں نمبر پر تھا اور پاکستانی صرف 17ممالک میں بغیر ویزا جا سکتے تھے۔ 2010ء میں پوزیشن قدرے بہتر تھی، جب 36ممالک میں پاکستانی ویزے کے بغیر جا سکتے تھے۔ 

بدترین صُورتِ حال 2021ء میں عمران خان کے دَور میں دیکھنے میں آئی، جب پاکستان پاسپورٹ 100ویں نمبر پر چلا گیا۔یہ 2024ء میں 103ویں نمبر پر ہے اور دنیا کا چوتھا بدترین پاسپورٹ کہلاتا ہے۔ ہم سے نیچے صرف عراق، افغانستان اور شام ہی رہ گئے ہیں۔ واضح رہے، پاکستان کی 75سالہ تاریخ میں پاکستانی پاسپورٹ کی اتنی تذلیل پہلے کبھی دیکھنے میں نہیں آئی۔

سخت ترین لمحات

دنیا کے کسی بھی ہوائی اڈّے پر اُترنے کے بعد جب پاکستانی مسافر امیگریشن حکّام کا سامنا کرتے ہیں، تو یہ اُن کی زندگی کے سخت ترین بلکہ بدترین لمحات ہوتے ہیں۔ ایک تو سفر کی تکان، اوپر سے امیگریشن حکّام کا ناروا سلوک، منزل پر پہنچنے کی خوشی، تذبذب، فکر اور پریشانی ہی کی نذر ہو جاتی ہے۔ اسی حوالے سے قطر جانے والے ایک پاکستانی مسافر کا کہنا ہے کہ’’مَیں قطر کی سیاحت کے سلسلے میں دوحا ہوائی اڈّے پر اُترا، تو امیگریشن حکّام نے میرا پاسپورٹ دیکھتے ہی ناگواری کا اظہار کیا اور مجھے ایک طرف کھڑا ہونے کو کہا۔ 

میری تمام سفری دستاویز ہر طرح سے مکمل تھیں۔ایک افسر بار بار میرا پاسپورٹ دیکھ رہا تھا۔ پھر مجھے ایک دوسرا افسر ایک مخصوص کمرے میں لے گیا، جہاں میرے پورے جسم کو اسکین کیا گیا۔اسکیننگ مشین نے بھی مجھے کلیئر کر دیا، لیکن افسر بدستور غصّے میں تھا۔ اُس نے مجھ سے مزید سوالات کیے، جن کے مَیں نے تسلّی بخش جوابات دئیے۔ مَیں اِس سے پہلے بھی کئی مرتبہ قطر آچکا تھا، لیکن اِس بار اُن کا رویّہ مختلف تھا۔ 

آخر کار نصف گھنٹے کی پوچھ گچھ کے بعد مجھے جانے کی اجازت دے دی گئی۔ باہر دوست میرے منتظر اور پریشان تھے۔ اُن سے بات چیت کے دَوران پتا چلا کہ ایک دو روز پہلے ایک پاکستانی نشہ آور ادویہ کی اسمگلنگ کے الزام میں پکڑا گیا ہے، جس نے ایک درجن کیپسولز اپنے پیٹ میں چُھپا رکھے تھے۔سو، اب امیگریشن اور کسٹم حکّام ہر پاکستانی پاسپورٹ کو شک و شبے کی نظر سے دیکھتے ہیں۔‘‘

ایسے ایک نہیں، درجنوں واقعات دنیا بَھر کے ہوائی اڈّوں پر پیش آتے ہیں۔ پاکستانی پاسپورٹ دیکھتے ہی حکّام الرٹ ہو جاتے ہیں، حتیٰ کہ جائز اور قانونی ویزوں کو بھی شک و شبے کی نظر سے دیکھا جاتا ہے۔اسی حوالے سے ایک انگریزی اخبار میں شائع ہونے والی ایک خاتون کی داستان ملاحظہ کیجیے:’’کچھ عرصہ قبل مجھے آئی بی اے کراچی کی وساطت سے پیرس میں منعقدہ ایک کانفرنس میں شرکت کا موقع ملا، جو وہاں کی ایک یونی ورسٹی کی جانب سے ہو رہی تھی۔ مجھے کراچی سے دوحا اور پھر وہاں سے پیرس جانا تھا۔ دوحا میں چار گھنٹے انتظار کے بعد مَیں اگلی فلائٹ کے لیے متعلقہ گیٹ پر پہنچی۔ 

مَیں نے جوں ہی ایک افسر کو اپنا پاسپورٹ اور دیگر کاغذات پیش کیے، تو اس کے چہرے سے مسکراہٹ غائب ہو گئی۔اُس نے دو بار میرے پاسپورٹ کی ورق گردانی کی اور پھر پوچھا۔’’ مَیں پیرس میں کتنے دن رہوں گی اور میرے پاس رقم کتنی ہے؟‘‘ مَیں نے اُسے ریٹرن ٹکٹ اور 600یورو دِکھائے۔ مَیں نے کہا۔’’ مَیں 5روز بعد واپس چلی جائوں گی۔‘‘ پھر چند سوالات کے بعد اُس نے مجھے بادل نخواستہ جانے دیا۔ مجھے جس چیز نے پریشان کیا، وہ یہ تھی کہ دوسرے مسافر صرف تین، چار منٹ میں کلیئر ہو رہے تھے اور اُن کے صرف بورڈنگ پاس چیک کیے جارہے تھے۔ 

آٹھ گھنٹے کی تھکا دینے والی فلائٹ کے بعد جب مَیں پیرس کے ایئرپورٹ پر اُتری، تو فخر محسوس کر رہی تھی کہ دنیا کے سب سے خُوب صُورت شہر میں موجود ہوں۔ چند منٹس کے بعد مجھے کاغذات کی تصدیق کے لیے ایک سیکیوریٹی کائونٹر پر جانے کے لیے کہا گیا۔ وہاں دوبارہ میرے پاسپورٹ کی ورق گردانی کی گئی۔ افسر نے مجھ سے پوچھا۔’’پیرس میں کتنے دن رُکو گی اور تمہارے پاس رقم کتنی ہے؟‘‘ میرے گرین پاسپورٹ نے مجھے ایک بار پھر مشکل میں ڈال دیا تھا۔ 

میرے ہم سفر صرف چار، پانچ منٹ بعد اگلے کائونٹر پر جارہے تھے، جب کہ مجھے وہاں20 منٹ تک کھڑا رکھا گیا۔ مجھے آفیسر کو یہ یقین دِلانے میں مشکل پیش آرہی تھی کہ یہاں سرکاری طور پر کانفرنس اٹینڈ کرنے آئی ہوں اور یونی ورسٹی نے مجھے مدعو کیا ہے۔ آخرکار مَیں نے فرینچ زبان سے فائدہ اُٹھانے کا فیصلہ کیا اور اس سے فرینچ میں بات چیت شروع کردی۔ اُس کا فوری اثر ہوا اور اُس نے کہا۔’’ ٹھیک ہے، آپ جاسکتی ہیں۔‘‘ 

مَیں نے اس سفر کے دوران محسوس کیا کہ جب امیگریشن یا سیکیوریٹی حکّام آپ کے پاسپورٹ کو شک کی نگاہ سے دیکھتے ہیں، تو آپ کو شدید حقارت کا احساس ہوتا ہے، لیکن مَیں ان افسران کو بھی قصوروار نہیں ٹھہراتی۔ اِس وقت جو صُورتِ حال ہے، اُس میں اگر مَیں بھی اُن کی جگہ ہوتی، تو ایسا ہی رویّہ اپناتی۔ تاہم، اس سب کے باوجود، مجھے اپنے پاکستانی ہونے پر فخر ہے اور مَیں دنیا کو یہ بتانا چاہتی ہوں کہ تمام پاکستانی دہشت گرد نہیں ہوتے۔‘‘

2010ء کی بات ہے۔ یکم ستمبر کو پاکستان کے ایک حسّاس ادارے کے 9 افسران کو سوال وجواب کے لیے ڈیلاس ایئرپورٹ پر روک لیا گیا۔ یہ افسران TAMPA میں امریکی سینٹرل کمانڈ میں ایک اہم میٹنگ میں شرکت کے لیے جارہے تھے۔ تمام افسران سے علیٰحدہ علیٰحدہ پوچھ گچھ کی گئی۔ ان کے پاسپورٹس کو شک کی نگاہ سے دیکھا جارہا تھا۔ اُنہیں پاکستان میں متعلقہ افسران کو فون کرنے کی بھی اجازت نہیں دی گئی۔یہاں تک کہ اُن کے سرکاری دعوت نامے کو بھی ایک طرف رکھ دیا گیا۔ آخرکار امریکی حکّام کو جب اِس معاملے کا پتا چلا، تو اُنہوں نے اجازت دے دی اور معذرت بھی کرلی کہ ایسا غلط فہمی کی وجہ سے ہوا۔ 

ویسے امریکی ایئرپورٹس پر پاکستانی پاسپورٹس کی تذلیل عام بات ہے۔یہاں تک کہ سابق وزیرِ اعظم شاہد خاقان عباسی کو بھی اس سلسلے میں خفّت اُٹھانا پڑی تھی۔ مارچ 2010ء میں فاٹا کے قانونی ماہرین کے ایک وفد نے اپنا 15 روزہ دورہ اُس وقت مختصر کر دیا تھا، جب اُنہیں باڈی اسکیننگ کا کہا گیا۔ دنیا کے6 برّاعظموں میں واقع سیکڑوں ممالک کے ہوائی اڈّوں اور سرحدی چوکیوں پر روزانہ ایسے کتنے واقعات ہوتے ہیں، اِس کا کوئی اندازہ نہیں لگا سکتا۔ تمام سفری دستاویز مکمل ہونے کے باوجود سبز پاسپورٹ کو شک بَھری نگاہوں سے کیوں دیکھا جاتا ہے؟ 

دراصل اس کے پسِ پردہ درجنوں محرّکات کارفرما ہیں، جن میں پاکستانیوں کا دہشت گردی، فراڈ، دھوکا دہی اور بدعنوانیوں کے حوالے سے پوری دنیا میں منفی تاثر، مُلک میں سیاسی، اقتصادی اور معاشرتی عدم استحکام، اسلامو فوبیا، انسانی اسمگلنگ، حُکم رانوں کی نااہلی اور دیگر عوامل شامل ہیں۔ پاکستان کا ہر تیسرا، چوتھا شخص مُلکی حالات سے مایوس ہو کر مُلک چھوڑنا چاہتا ہے اور جب یہ لوگ باہر جانے کے لیے ناجائز طریقے اختیار کرتے ہیں، تو اس سے مجموعی طور پر سبز پاسپورٹ مزید بدنام ہو جاتا ہے۔ 

اِس امر میں شک نہیں کہ پاکستان سے روزانہ درجنوں افراد دیگر ممالک کا سفر کرتے ہیں اور ہر ایک کے ساتھ ایسے دِل خراش واقعات پیش نہیں آتے، لیکن باہر جانے والوں میں سے اکثریت کا تاثر یہی ہے کہ عام طور پر امیگریشن حکّام، پاکستانی پاسپورٹ کو اچھی نظروں سے نہیں دیکھتے، جب کہ ان کے دیگر ممالک سے تعلق رکھنے والے ہم سفر، منٹوں میں کلیئر کر دیئے جاتے ہیں، البتہ پاکستانیوں سے ضرور پوچھ گچھ کی جاتی ہے، خواہ یہ مختصر وقت کے لیے ہی کیوں نہ ہو اور پاکستانی پاسپورٹ دیکھتے ہی اُن کے چہرے پر مسکراہٹ کی بجائے ناگواری کے تاثرات اُبھر آتے ہیں۔

اگر آپ یوٹیوب پر جائیں، گوگل کھنگالیں، ٹویٹر، انسٹاگرام، ٹک ٹاک اور درجنوں دوسرے میڈیا ذرائع کی چھان بین کریں، تو عالمی ہوائی اڈّوں پر پاکستانی پاسپورٹ کی بے توقیری کے سیکڑوں واقعات ملیں گے، جنہیں پڑھ پڑھ کر آپ تھک جائیں گے۔ 

تاہم اِس ضمن میں مختلف ممالک کی یونی ورسٹیز میں لیکچر دینے والے ایک پروفیسر، ایس طارق نے اپنے ایک مضمون میں گویا’’ دریا کو کوزے میں بند‘‘ کردیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں۔’’مَیں حال ہی میں ایک معروف عالمی یونی ورسٹی میں پوسٹ گریجویٹ اسٹوڈنٹس کو ’’پاکستان عالمی مرکزِ نگاہ‘‘ کے موضوع پر لیکچر دے رہا تھا۔ مَیں بتا رہا تھا کہ کسی بھی خوش حال مُلک کے لیے گڈ گورنینس کتنی ضروری ہے۔ 

جب سوال وجواب کا سیشن شروع ہوا، تو ایک نوجوان امریکی طالبِ علم اُٹھا اور کہنے لگا۔’’آپ پاکستانیوں کو باتیں کرنے کے علاوہ کچھ نہیں آتا۔ آپ کے پاس کوئی ایسی چیز نہیں، جس پر آپ کی قوم فخر کرسکے۔ آپ صرف یہ چاہتے ہیں کہ کوئی بوتل میں دودھ ڈال کر آپ کو فیڈ کرواتا رہے۔ آپ کی قوم آرام طلب ہے۔ آپ ایک بھیڑ کی طرح ہیں، جسے کوئی گڈریا چاہیے۔‘‘ پھر اُس نے جیب سے10ڈالر کا نوٹ نکالا اور کہا۔’’یہ ہے آپ کا گڈریا۔‘‘بدقسمتی سے پاکستان کا تشخص ایک بھکاری قوم کی حیثیت سے اُبھرا ہے۔ ہمارے پاسپورٹ کی حیثیت زیرو ہوگئی ہے۔ 

پھر مجھے معلوم ہوا کہ اومان کے حکّام نے وہاں رہنے والے پاکستانیوں سے کہا ہے کہ وہ گھریلو خادمائوں کو بھارت، بنگلا دیش یا کسی بھی مُلک سے منگوا سکتے ہیں، سوائے اپنے مُلک کے۔ پھر مجھے یاد آیا کہ مَیں ایک بار فرینکفرٹ (جرمنی) کے ایئرپورٹ پر کھڑا تھا کہ ایک امیگریشن آفیسر نے مجھے لائن سے باہر آنے کو کہا اور کئی لوگوں نے میرا پاسپورٹ کھنگالنا شروع کردیا۔ اُسے کئی اسکیننگ مشینز سے بھی گزارا گیا۔ جب مَیں نے احتجاج کیا کہ سرکاری دستاویز کو کیوں شک کی نگاہ سے دیکھا جارہا ہے، تو اُنہوں نے مجھے گھورتے ہوئے بادلِ نخواستہ جانے کی اجازت دے دی۔ 

اِسی طرح ایک بار ہیتھرو ایئرپورٹ پر مجھے علیٰحدگی میں لے جا کر ایسے سوالات کیے گئے، جیسے مَیں نے کسی جرم کا ارتکاب کیا ہو۔ آخر بین الاقوامی ایئرپورٹس پر پاکستانی پاسپورٹ کے ساتھ ایسا سلوک کیوں ہوتا ہے؟ مجھے اس کا صرف ایک ہی جواب ملا کہ اس کے ذمّے دار صرف اور صرف ہم خُود ہیں۔ کسی اور کو موردِ الزام نہیں ٹھہرایا جاسکتا۔ 

جعلی پاسپورٹس اور جعلی ویزوں کے ساتھ سفر کرنا پاکستانیوں کا معمول بن چُکا ہے، جو ہر قیمت پر اپنے مُلک سے نکلنا چاہتے ہیں۔ ڈرگز اور انسانی اسمگلنگ کے ضمن میں بھی ہم بین الاقوامی سطح پر کافی بدنام ہو چُکے ہیں، لیکن پاکستانی پاسپورٹ کی یہ بے قدری صرف ایک دن میں نہیں ہوئی۔ 

مجھے یاد ہے، میرے ایک قریبی رشتے دار نے بتایا کہ وہ 1965ء میں سوئٹرلینڈ سیاحت کے لیے جارہا تھا، جب اس نے کائونٹر پر اپنا گرین پاسپورٹ امیگریشن آفیسر کے حوالے کیا، تو اُس نے مسکراتے ہوئے کہا۔’’سر، آپ ہمارے مُلک میں اپنے قیام کو بڑھا کیوں نہیں دیتے۔ ہمارے خُوب صُورت مُلک میں دیکھنے کو بہت کچھ ہے۔‘‘ یہ 1965ء کی بات ہے اور آج 2024ء ہے۔ 

جب ہمیں نہایت شرم سے یہ بات سُننی پڑ رہی ہے کہ پاکستانی پاسپورٹ کا شمار دنیا کے چوتھے بدترین پاسپورٹ میں ہوتا ہے۔ پاکستانی پاسپورٹ کا 1960ء کی دہائی میں شروع ہونے والا سفر 2024ء میں کریش لینڈنگ کر چُکا ہے اور اس میں لگی آگ بُجھنے کا نام نہیں لے رہی، کیوں کہ ہمارے مُلک کے بگڑتے معاشی حالات، سیاسی عدم استحکام، قدم قدم پر ہوتی ناانصافیاں، کرپشن اور بنیادی انسانی حقوق کی پامالی اس جلتی آگ پر تیل کا کام کررہی ہیں۔

’’یہ سب ہمارا اپنا کیا دھرا ہے‘‘سابق سفیر، ظفر علی ہلالی

ظفر علی ہلالی یمن، نائیجریا اور اٹلی میں پاکستان کے سفیر کے طور پر فرائض انجام دے چکے ہیں، اُنہوں نے پاکستانی پاسپورٹ کی بے توقیری کے ضمن میں کہا کہ’’سیاسی عدم استحکام ، کرپشن، دہشت گردی، آمریت، غربت، بے روزگاری، ڈرگ/ انسانی اسمگلنگ اور دیگر منفی عوامل کی وجہ سے ہمارے مُلک کے امیج کو جو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچا، یہ اسی کا نتیجہ ہے کہ سبز پاسپورٹ بھی اپنی قدر و منزلت کھو بیٹھا ہے۔

شاذ ہی کوئی ایسا خوش گوار دن ہوتا ہے کہ جب بین الاقوامی میڈیا پر ہمارے مُلک سے متعلق کوئی خیر کی خبر چلتی ہے۔ ہر وقت سیاسی جماعتوں کی باہمی لڑائیوں، دہشت گردی، ڈی فالٹ ہونے کر جانے کے خطرے، عوامی مظاہروں، ہول ناک جرائم، بنیادی انسانی حقوق کی پامالی اور انسانی اسمگلنگ کی خبریں ہی نشر ہو رہی ہوتی ہیں۔ بطور سفیر میری جب بھی دوسرے ممالک میں پکڑے جانے والے پاکستانیوں سے ملاقات ہوتی، تو وہ ہمیشہ یہی کہتے کہ’’بے روزگاری، ناانصافیوں، منہگائی، انسانی سہولتوں کے فقدان اور غربت کی وجہ سے وہ اپنا مُلک چھوڑنے پر مجبور ہوئے۔‘‘

اور پھر غیر ممالک میں جب پاکستانیوں سے متعلق منفی خبریں چَھپتی ہیں، تو وہ ہر پاکستانی ہی کو شک کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ ہوائی اڈّوں پر کمبوڈیا، سری لنکا، نیپال اور پس ماندہ افریقی ممالک کے مسافروں تک کو بلا روک ٹوک جانے دیا جاتا ہے،لیکن پاکستانی مسافروں کو امیگریشن کی لائن سے علیٰحدہ نکال کر گھنٹوں جرح کی جاتی ہے۔

جب کہ انسانوں اور منشیات کی اسمگلنگ نے بھی پاکستانی پاسپورٹ کے تشخّص کو بُری طرح مجروح کردیا ہے۔ہمارا سبز رنگ کا پاسپورٹ دنیا کے لیے سُرخ رنگ کے خطرے کی علامت بن گیا ہے اور اس ضمن میں سو فی صد غلطی ہماری اپنی ہے۔ گزشتہ چند برسوں میں باہر جانے والے کئی کھلاڑی غائب ہو گئے۔ حتیٰ کہ قومی ائیر لائن کا اسٹاف بھی دوسرے ممالک میں سلپ ہو جاتا ہے۔ وزارتِ خارجہ کے حالیہ اعداد و شمار کے مطابق، اِس وقت دنیا بَھر کی جیلوں میں ایسی ہی خلاف ورزیوں پر 20ہزار سے زائد پاکستانی قید ہیں، جن میں سے74فی صد یو۔اے۔ای اور سعودی عرب میں ہیں۔ ان میں سے اکثر ڈرگ اسمگلنگ اور غیر قانونی طور پر غیر ممالک جانے میں ملوّث ہیں۔ 

یہ تعداد 2022ء کے اعداد و شمار کے مقابلے میں دُگنی ہے۔اگر پاکستانی غائب نہ بھی ہوں، تو مدّت سے زاید قیام کرکے اور ڈی پورٹ ہو کر مُلک کی بدنامی کا باعث بنتے ہیں۔ درحقیقت، اقتصادی، معاشرتی، جمہوری اور بنیادی انسانی حقوق جیسے حالات پاسپورٹ کی طاقت متعیّن کرتے ہیں۔ جتنا طاقت وَر مُلک ہوگا، اُتنا ہی اُس کا پاسپورٹ طاقت وَر ہوگا۔ اس وقت مُلک کے جو خوف ناک حالات ہیں، اُن سے ہی اندازہ لگا لیں کہ آپ کے پاسپورٹ کا وزن کتنا ہوسکتا ہے۔ پھر خود ہماری حکومت اور عوام کے اقدامات ہماری شہرت کو داغ دار کر دیتے ہیں۔ 

جیسا کہ حال ہی میں وفاقی حکومت نے دو ہزار ایسے پاکستانیوں کے پاسپورٹ بلاک کرنے کا فیصلہ کیا ہے، جو باہر جا کر بھیک مانگتے ہیں۔ عراق نے بھی زائرین کے رُوپ میں آنے والے 4 ہزار پاکستانی بھکاریوں کی نشان دہی کی ہے۔ اندازہ لگایئے، اِن خبروں سے بین الاقوامی سطح پر پاکستان کے امیج کو کتنا نقصان پہنچا ہوگا۔یاد رکھیے، جب تک ہمارا مُلک اقتصادی، معاشرتی اور سیاسی حوالے سے طاقت وَر نہیں ہوگا، پاکستانی پاسپورٹ بھی ’’ویٹنی لیٹر‘‘ ہی پر رہے گا۔‘‘

سنڈے میگزین سے مزید