• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

شنگھائی تعاون تنظیم: مغرب کے لیے اُبھرتا چیلنج

شنگھائی تعاون تنظیم، جو بیس سال پہلے پانچ رُکنی ادارے کی شکل میں قائم ہوئی تھی، آج ایک عالمی فورم کی شکل اختیار کر چُکی ہے۔ تجزیہ کاروں کے مطابق، یہ ایک ایسا فورم ہے، جو مغرب کے لیے بڑے چیلنج کی صُورت سامنے آرہا ہے۔ خاص طور پر اگر اسے گلوبل ساؤتھ کے تناظر میں دیکھا جائے، تو اس کی اہمیت زیادہ نمایاں ہوتی ہے۔

اِس امر میں کوئی شک نہیں کہ چین کے صدر، شی جن پنگ کا خواب کہ چین، دنیا کے مرکزی اسٹیج پر اپنا بھرپور کردار ادا کرے، ایک حقیقت بنتا جارہا ہے۔چین کے شہر، تنجن میں ہونے والے ایس سی او کے پچیس ویں اجلاس میں دنیا کے 26 رہنما شریک ہوئے، جن میں دو سب سے بڑی آبادی والے ممالک، یعنی روس اور بھارت کے سربراہ بھی شامل تھے، جب کہ علاقے کے اہم کھلاڑی، پاکستان کی نمایندگی وزیرِ اعظم شہباز شریف نے کی۔ 

اُنہوں نے پاکستان کے معاشی و علاقائی کردار کے ساتھ، دہشت گردی کے خلاف کاوشوں کا بھی ذکر کیا۔ دنیا تسلیم کرتی ہے کہ پاکستان دہشت گردی کے خلاف فرنٹ لائن اسٹیٹ ہے اور وہ یہ جنگ بڑی کام یابی سے لڑ رہا ہے۔ ایس سی او اجلاس کے دوران رہنماؤں کی باہمی ملاقاتوں نے بھی دنیا کی توجّہ اپنی طرف مرکوز رکھی اور یہ میزبان چین کی ایک بڑی سفارتی کام یابی رہی۔ 

اِس کانفرنس کے فوراً بعد ہونے والی تاریخی فوجی پریڈ میں جہاں چین کی فوجی قوّت اور ٹیکنالوجی کا شان دار مظاہرہ ہوا، وہیں پر چین نے اپنے حریفوں تک یہ پیغام بھی پہنچا دیا کہ وہ اِس میدان میں بھی آگے بڑھ رہا ہے۔کانفرنس کے مشترکہ اعلامیے میں اسرائیل اور امریکا کے ایران پر ہونے والے حملوں کی مذمّت کی گئی۔

دوسرا اہم پیغام یہ رہا کہ اب شنگھائی تعاون تنظیم، نیٹو، آسیان، جی-7اور جی- 20 جیسے مغربی فورمز کی متبادل کے طور پر ابھر رہی ہے۔ برکس کوعالمی بینک کا متبادل بنانے کی کوشش ہو رہی ہے، تو چین نے ایس سی او ترقیاتی بینک کے لیے 1.4 بلین ڈالرز فنڈ اور مصنوعی ذہانت کے مشترکہ منصوبے پیش کیے۔ 

کانفرنس میں ہر نوعیت کی دہشت گردی کی مذمّت کی گئی اور اس کے خلاف مشترکہ کوششوں پر زور دیا گیا۔عالمی اقتصادی صُورتِ حال اِس فورم کا اہم ترین موضوع رہا اور اِس ضمن میں روس کے کم قیمت پر چین اور بھارت کو فروخت کیے جانے والے تیل کا معاملہ زیرِ گفتگو رہا۔ 

یاد رہے، امریکی صدر نے حال ہی میں بھارت پر پچاس فی صد ٹیرف عاید کیا، جس نے اُس کی معیشت ہلا ڈالی، جب کہ چین پر بھی ٹیرف عاید کیے گئے۔ رہنماؤں نے اِس معاملے پر بھی کُھل کر بات کی اور یقیناً اُنہوں نے امریکی اقدامات کے منفی اثرات کا توڑ تلاش کرنے کی کوشش بھی کی ہوگی۔

شنگھائی تعاون تنظیم ابتدائی طور پر پانچ ارکان پر مشتمل تھی اور اب26 ممالک نے حالیہ کانفرنس میں شرکت کی، جو اِس کی بڑھتی قوّت کا اظہار ہے۔ تاہم، اب بھی اس کا روح رواں چین ہی ہے، کیوں کہ اسی کے پاس سب سے زیادہ معاشی وسائل ہیں اور فوجی قوّت بھی۔وہ اِس وقت امریکا کے بعد دنیا کی دوسری بڑی معاشی قوّت ہے۔ایس سی او کا یہ اجلاس ایک ایسے وقت ہوا، جب دنیا بے یقینی کے دَور سے گزر رہی ہے، جس میں صدر ٹرمپ کی اقتصادی پالیسیز کا بڑا ہاتھ ہے۔جب سے وہ دوسری مرتبہ اقتدار میں آئے ہیں، تقریباً ہر عالمی معاملے میں امریکا کا کردار بڑھ گیا ہے۔

پاک، بھارت جنگ ہو یا یوکرین، روس تنازع یا پھر ایران، اسرائیل جنگ، ہر جگہ امریکا نظر آر ہا ہے۔تھائی لینڈ، کمبوڈیا، آرمینیا اور ازبکستان کی چھوٹی چھوٹی جنگوں میں بھی ٹرمپ کا کردار بہت فعال رہا۔ اُنہوں نے خود کو’’ امن کے داعی‘‘ کے طور پر پیش کیا۔اگست کے شروع میں ٹرمپ، پیوٹن ملاقات پر عالمی ہیڈ لائنز بنیں، لیکن جس چیز نے امریکا کے دوستوں اور دشمنوں، دونوں کو جھنجوڑ ڈالا ہے، وہ ٹرمپ کی اقتصادی پالیسی ہے، جس کا سب سے بڑا ہتھیار ٹیرف ہے۔ 

یعنی امریکا میں درآمدات پر ٹیکس۔ بھارت، امریکا کا بہت قریبی حلیف مانا جاتا رہا ہے اور مودی، ٹرمپ کے قریبی دوست مانے جاتے ہیں، لیکن وہ بھی ٹیرف سے نہ بچ سکے۔ مودی نے بھی بھاگم بھاگ شنگھائی تنظیم کے اجلاس میں شرکت کی، جہاں صدر شی جن پنگ اور صدر پیوٹن سے اُن کی ملاقاتیں ہوئیں۔پاکستان، چین کے بہت قریب اور اس کے معاشی منصوبوں میں مرکزی کردار ادا کر رہا ہے۔ جب کہ حال ہی میں اس کے تعلقات ایک عرصے بعد امریکا سے بھی بہتر ہوئے ہیں۔ 

اِس لیے شہباز شریف کو شنگھائی فورم میں اچھا موقع ملا کہ وہ مُلکی معیشت کی مضبوطی کے راستے تلاش کرسکیں۔اگر ایس سی او اجلاس کے ایجنڈے پر نظر ڈالی جائے، تو تین امور نمایاں طور پر نظر آتے ہیں۔ رابطہ کاری، ڈیجیٹل اکانومی اور گرین انرجی۔اِس وقت شہباز حکومت کا فوکس بھی ان ہی امور پر ہے، اِس لیے پاکستان کے لیے یہ بہت اچھا موقع تھا کہ وہ اس ایجنڈے سے جڑ کر ترقّی کے زینے چڑھے اور اپنی کم زور معیشت مضبوط بنائے، جو اس کی بنیادی ضرورت بھی ہے۔

اگر کوئی مُلک کسی فورم یا دوطرفہ ملاقات میں حصّہ لیتا ہے، تو اس کی جانچ خُوب صُورت بیانات سے نہیں، بلکہ معیشت کی مضبوطی سے ہوتی ہے، وگرنہ پھر شکایت ہوتی ہے کہ دوسرے ممالک ڈکٹیشن دے رہے ہیں۔ پاکستان، صدر شی جن پنگ کے فلیگ شپ منصوبے، بیلٹ اینڈ روڈ پراجیکٹ کا اہم ترین پارٹنر ہے۔ اس کا سی پیک منصوبہ پاکستان میں معاشی انقلاب کا پیش خیمہ بن رہا ہے۔ خوش آئند بات یہ ہے کہ دونوں ممالک اِس حصّے داری میں اعتماد اور باہمی تعاون سے آگے بڑھ رہے ہیں۔دونوں مشکل وقتوں میں ایک دوسرے کے ہم نوا بھی ہیں، جیسے حالیہ پاک، بھارت جنگ میں دیکھا گیا۔

روس اِن دنوں مشکل وقت سے گزر رہا ہے۔ یوکرین سے جنگ کو 45 ماہ ہوچُکے ہیں اور یہ جنگ پیوٹن کے لیے دلدل بنتی جارہی ہے۔ ادھر امریکا، یورپ اور خود یوکرین نے بھی جُھکنے کا کوئی عندیہ نہیں دیا، بلکہ لگتا ہے کہ وہ روس کو اس جنگ میں اُسی طرح الجھا رہے ہیں، جیسے افغانستان میں اُسے پھنسایا گیا تھا۔ گو کہ صدر ٹرمپ نے الاسکا ملاقات میں پیوٹن کو اِس مشکل سے نکلنے کا راستہ دیا تھا، لیکن وہ اس سے فائدہ نہ اٹھا سکے۔ وہ کیا سوچ رہے ہیں؟

یہ تو وہی جانتے ہوں گے، لیکن ہر جگہ بے لچک سیاست مشکلات میں پھنسا سکتی ہے، جس کا سوویت یونین کا آخری دور بھی گواہ ہے۔ روس کی معیشت کا انحصار تیل اور گیس پر ہے، جن کی بڑی مارکیٹ یورپ تھی اور اب چین اور بھارت ہے۔ جب کہ وہ گندم اور دیگر اجناس کا بھی بڑا ایکسپورٹر ہے۔ صدر پیوٹن 35فی صد کم نرخوں پر چین اور بھارت کو تیل فروخت کرنے پر مجبور ہیں۔ اگر دیکھا جائے، تو اس کا فائدہ بھارت اور چین ہی کو ہو رہا ہے۔ 

شنگھائی فورم اجلاس کے دَوران صدر شی جن پنگ اور صدر پیوٹن نے سائبیریا پائپ لائن-2 منصوبے کا اعلان کیا، جو چین اور روس کی غیر معمولی دوستی کا ایک بڑا ثبوت ہے۔ اس معاہدے کے تحت روس، چین کو پچاس بلین میگا گیس فراہم کرے گا۔دراصل ٹرمپ، پیوٹن ملاقات کی ناکامی نے چین اور روس کے مابین قربتیں بڑھا دی ہیں، لیکن اس سے روس کا چین پر معاشی انحصار بھی بڑھ رہا ہے۔

چین، روس کو امریکا کے مقابل تو دیکھنا چاہے گا، لیکن اتنا مضبوط نہیں کہ وہ علاقے یا عالمی سطح پر اسی کے مقابل آ جائے، شاید اِسی لیے شنگھائی فورم پر شمالی کوریا کے رہنما بھی موجود تھے، جنہیں امریکا کا بڑا مخالف تصوّر کیا جاتا ہے، حالاں کہ وہ ٹرمپ کے پہلے دَور میں اُن سے ایک معاہدہ کرچکے ہیں، جس کے تحت شمالی کوریا غیر ایٹمی علاقہ قرار پایا۔

نیز، روس، یوکرین کے معاملے میں تنہائی کا شکار ہے کہ کوئی بھی جنگ پسند نہیں کرتا اور سب وہاں امن چاہتے ہیں۔ پیوٹن نے شنگھائی فورم سے یہ پیغام دینے کی کوشش کی کہ وہ تنہا نہیں ہیں۔ مغربی پریس نے اسے بہت بڑھا چڑھا کر پیش کیا، یہاں تک کہ صدر ٹرمپ نے شمالی کوریا کے سربراہ اور پیوٹن کے درمیان ملاقات کو امریکا کے خلاف سازش قرار دے دیا۔

مودی کی پالیسیز اندرونِ مُلک اور دنیا میں تنقید کا نشانہ بن رہی ہیں۔وہ امریکی دوستی کی آڑ میں مشرقِ وسطیٰ میں قدم جمانے کی کوشش کرتے رہے، لیکن پچاس فی صد امریکی ٹیرف نے بھارت کو دوراہے پر کھڑا کر دیا ہے۔ شنگھائی فورم میں مودی نے روسی صدر سے ملاقات کی اور صدر شی جن پنگ سے بھی ملے۔ 

مودی اور شی جن پنگ کے درمیان اچھی دوستی رہی ہے اور ان کی ہوم ڈپلومیسی کا بہت شہرہ رہا تھا، لیکن شنگھائی تنظیم کے اجلاس میں شی جن پنگ نے مودی کے مقابلے میں پیوٹن اور شمالی کوریا کے سربراہ سے زیادہ گرم جوشی کا مظاہرہ کیا، جو اُن کے دائیں، بائیں رہے۔ روس، بھارت کا دیرینہ دوست ہے اور بھارتی دفاعی نظام کا بڑا حصّہ روس ہی سے خریدا گیا ہے۔

افغانستان کی پہلی اور دوسری جنگ میں بھارت نے اس روسی دوستی کا بہت فائدہ اُٹھایا، لیکن حال ہی میں پاک، روس تعلقات بھی بہتر ہوئے ہیں۔بھارت کا اِس وقت سب سے بڑا مسئلہ سستا تیل اور ٹرمپ کے ٹیرفس ہیں۔وہ یقیناً چاہے گا کہ روس اسے مزید رعایت دے تاکہ وہ ٹیرف کے اثرات کم کرسکے۔ مودی، صدر شی جن پنگ سے ملاقات کے ذریعے یہ پیغام دینا چاہتے ہیں کہ اُن کے پاس امریکی تجارت کا متبادل موجود ہے۔

بھارت کی امریکا سے تجارت108بلین ڈالرز، جب کہ چین سے106 بلین ڈالرز سالانہ ہے، مگر فرق یہ ہے کہ چین کے ساتھ تجارت میں بھارت خسارے میں ہے، جب کہ امریکی تجارت سے وہ بہت فوائد حاصل کرتا رہا ہے۔اِس وقت امریکا میں سب سے زیادہ غیر ملکی طلبہ چین کے ہیں، جو 27 فی صد بنتے ہیں،جب کہ دوسرے نمبر پر بھارت کے 25فی صد طلبہ ہیں۔ بھارت، امریکا کے ساتھ کواڈ فورم اور ممبئی، دبئی، یورپ کوریڈور میں بھی شامل ہے۔ 

چین کے مقابل آسیان کا بھی حصّہ ہے۔ بھارت کی یہ پالیسی رہی ہے کہ وہ ہر کسی سے فائدہ اٹھانا چاہتا ہے۔اس نے غیرجانب دار فورم کو پچاس، ساٹھ کی دہائیوں میں بہت استعمال کیا۔ پاکستان کو مغربی بلاک کا حصّہ ظاہر کرکے دونوں اطراف، مغرب اور سوویت یونین سے مفادات حاصل کیے اور اب وہ خود مغربی بلاک میں ہے۔ بھارت کے لیے یہ اہم ہے کہ چین اور روس کو کیسے یقین دلائے گا کہ وہ ان کے خلاف نہیں ہے۔ بہرحال، اِس وقت تو مودی کا بڑا مسئلہ ٹرمپ کا عاید کردہ ٹیرف ہے اور اس معاملے میں شنگھائی فورم شاید ہی اُن کی مدد کرسکے۔

ایس سی او اجلاس میں مختلف خیالات کے حامل ممالک شامل تھے۔ترکیہ، نیٹو کا رُکن ہے، تو بھارت امریکی فورمز کا شراکت دار اور روس کا قریبی دوست۔ایران بھی وہاں موجود تھا، جو امریکا اور اسرائیل کا دشمن ہے، جب کہ اسرائیل، چین اور روس دونوں کا دوست ہے۔ وسط ایشیائی ممالک کی نمایندگی بھی موجود تھی، جو مغرب کے قریب ہیں۔

اِسی طرح جنوبی افریقا کا معاملہ ہے۔ پاکستان اجلاس میں بہت فعال رہا، جو چین کا قریبی ساتھی ہے، امریکا سے بھی اچھے تعلقات ہیں، تاہم اسے بھارت اور افغانستان سے شکایات ہیں۔ اِسی طرح افغان قیادت بھی اجلاس میں شریک ہوئی، جسے ابھی دنیا نے تسلیم نہیں کیا۔ صدر شی جن پنگ کے سامنے اہم سوال یہی تھا کہ ان سب میں کیسے توازن قائم رکھا جائے۔

دوم، یہ مغرب کے مقابل تو ہوں، مگر دشمنی نہ ہو۔سوم، چین اِس اجلاس کے ذریعے اپنی معاشی اور فوجی قوّت کا بھرپور مظاہرہ بھی کرنا چاہتا تھا۔صدر شی جن پنگ اِن تمام امور میں کام یاب رہے۔ شنگھائی فورم اب مغرب کے مقابل ایک واضح سفارتی آواز ہے، لیکن چین نے بھارت اور روس کو ایک پلیٹ فارم فراہم کرنے کے باوجود یہ تاثر نہیں جانے دیا کہ وہ مغرب کا دشمن ہے۔ اگر مقابلہ ہے، تو وہ معاشی اور اقتصادی میدان ہی میں ہے۔ وجہ ظاہر ہے کہ امریکا اور چین کی باہمی تجارت850 بلین ڈالرز ہے، جب کہ چین کے اربوں ڈالرز امریکی بینکس میں رکھے ہوئے ہیں، جنہیں وہ کبھی خطرے میں ڈالنا نہیں چاہے گا۔

وہ اپنی اُسی پالیسی پر گام زن ہے کہ دھیرے دھیرے اور صبر سے آگے بڑھا جائے۔صدر شی جن پنگ نے بڑی منصوبہ بندی کے بعد یہ فورم لانچ کیا اور وہ کسی صُورت اسے بڑی طاقتوں یا پاور گیم کا حصّہ نہیں بننے دیں گے۔وہ فی الحال اسے ایک معاشی پلیٹ فارم ہی کے طور پر آگے بڑھانا چاہیں گے، جہاں رُکن ممالک کو چین کی معاشی قوّت اور ٹیکنالوجی سے مستفید ہونے کے مواقع ملیں گے۔

سنڈے میگزین سے مزید
عالمی منظر نامہ سے مزید