• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بلوچستان میں اب فنکاروں کے لیے جگہ نہیں رہی: ایوب کھوسو

بات چیت: وحید زہیر (کوئٹہ)

ایوب کھوسہ اپنی جان دار اداکاری کے سبب ڈراما انڈسٹری میں ایک نمایاں اور الگ پہچان رکھتے ہیں۔اُنہیں اردو اور بلوچی ڈراموں میں متاثرکُن اداکاری پر بہت سے ایوارڈز سے نوازا گیا۔ اردو، پنجابی اور پشتو فلموں میں بھی کام کیا، جب کہ پی ٹی وی سے بطور مرد شیف پہلا پروگرام کرنے کا بھی اعزاز رکھتے ہیں۔ سیلانی طبیعت کے مالک ہیں۔ مُلک کے ایک کونے سے دوسرے کونے تک گاڑی خود ڈرائیو کرتے ہوئے گھومتے پِھرتے رہتے ہیں۔ 

ڈراما ڈائریکٹر اور رائٹر کی حیثیت سے بھی اپنی پہچان بنا چُکے ہیں۔ گزشتہ دنوں ایک تفصیلی نشست میں اُنہوں نے اپنی زندگی کے مختلف پہلوؤں سے آگاہی دی، جو جنگ،’’ سنڈے میگزین‘‘ کے قارئین کی نذر ہے۔

نمائندہ جنگ سے بات چیت کرتے ہوئے… (عکاسی: رابرٹ جیمس)
نمائندہ جنگ سے بات چیت کرتے ہوئے… (عکاسی: رابرٹ جیمس)

س: سب سے پہلے تو اپنے خاندان اور آبائی علاقے سے متعلق کچھ بتائیے؟

ج: میرے دو آبائی شہر ہیں۔ سندھ میں جیکب آباد، جو تاریخی طور پر خان آف قلّات کا سرمائی علاقہ کہلاتا ہے اور جس کا پرانا نام خان گڑھ تھا، جب کہ دوسرا شہر، بلوچستان کے نصیر آباد ڈویژن کا ضلع، صحبت پور ہے۔ اِس طرح ہم دونوں صوبوں میں بودوباش رکھتے ہیں۔ مدد پور(جیکب آباد) میرے دادا، مدد خان کے نام سے منسوب ہے، جب کہ بلوچستان میں محبوب پور کا نام، میرے دادا کے بھائی، محبوب خان کے نام پر رکھا گیا۔ 

میرے بزرگوں کا پیشہ شروع سے زمین داری رہا اور یہ سلسلہ میرے والد، مہر اللہ خان تک جاری رہا۔ اب بھی خاندان کے بعض افراد زراعت پیشہ ہیں، لیکن نئی نسل کے لوگ دیگر شعبوں سے بھی وابستہ ہوگئے ہیں۔ دادی کے خاندان کا تعلق بھاگ نامی علاقے اور مستونگ میں رہائش پذیر، بنگلزئی قبیلے سے ہے، جب کہ میری امّی کا تعلق کاسی قبیلے سے ہے۔ میرے تایا، نواب خان، صدر ضیاءالحق کی مجلسِ شوریٰ میں شامل تھے۔ ایک کزن سندھ اسمبلی کے رُکن رہے، تو دوسرے کزن، ہزار خان کھوسہ چیف جسٹس بلوچستان ہائی کورٹ، قائم مقام گورنر بلوچستان اور نگران وزیرِ اعظم پاکستان بھی رہے۔

س: تعلیمی مراحل کہاں کہاں طے کیے؟

ج: 1959ء میں بلوچستان میں پیدا ہوا۔ کاسی قلعہ، کوئٹہ میں نانی اور ماموں نے میری پرورش کی۔ والد اور خاندان کے دیگر افراد جیکب آباد کی قیامت خیز گرمی سے بچنے کے لیے چند ماہ کوئٹہ میں گزارنے آتے تھے۔ ابتدائی تعلیم فرانسس گرائمر اسکول سے حاصل کی۔اُن دنوں کوئٹہ میں مشنری اسکولز کی ایک چَین ہوا کرتی تھی، جیسے سینٹ مائیکل اسکول، سینٹ جوزف اسکول اور سینٹ میری، جس میں یوگنڈا، تنزانیہ اور بعض دیگر ممالک سے آئے بچّے تعلیم حاصل کرتے تھے۔

سندھ اور بلوچستان کے امیر گھرانوں کے بچّے بھی بڑی تعداد میں اِن اسکولز میں پڑھتے تھے۔ فادر جوشوا، فادر پیٹر، فادر ٹاٹ اور فادر ٹرنف معروف اساتذہ تھے۔ فادر ٹرنف ایک خُوب صُورت اور بارُعب شخص تھے۔ قمیص شلوار پہنتے اور موٹرسائیکل پر آتے جاتے تھے۔ اساتذہ کی شفقت، اُن کے خُوب صورت لباس اور رنگ برنگے یونی فارمز اِن اسکولز کی خاصیت ہوا کرتی تھی۔

ویسے اُس وقت کوئٹہ شہر بھی بہت خُوب صُورت ہوتا تھا۔ لوگوں میں ایک دوسرے کے لیے احترم کا جذبہ تھا۔ گھر سے اسکول تک درختوں کے جُھنڈ میں، تانگوں کی ٹاپوں کی آواز کا اپنا ہی ایک سحر تھا۔ بہرحال، جیکب آباد کالج سے کامرس میں گریجویشن اور بلوچستان یونی ورسٹی سے ماسٹرز کی ڈگری حاصل کی۔ پھر زرعی بینک میں 16سال بحیثیت مینیجر ملازمت کرکے قبل از وقت ریٹائرمنٹ لے لی۔

س: اداکاری کی طرف کب اور کیسے آنا ہوا ؟

ج: اسکول کے زمانے میں ٹیبلوز اور خاکوں وغیرہ کے پروگرامز میں حصّہ لیا کرتا تھا۔ ریڈیو کے بچّوں کے پروگرام میں آغا محمّد کاسی کے توسّط سے شامل ہوا، جس کی کمپیئر خالہ شنواری تھی۔ اتوار کے اتوار یہ پشتو پروگرام ہوتا تھا۔ پہلے سے سوالات جوابات، کوئی نظم، شعر یا لطیفہ سُنانے کے لیے بتایا جاتا۔ 

کچھ عرصے بعد صدا کاری کا شوق ہوا، تو آڈیشن کے بعد بتایا گیا کہ آواز میچور نہیں اور چند ماہ بعد دوبارہ آڈیشن میں شریک ہونے کے لیے کہا گیا۔ 1978ء میں پی ٹی وی جانا ہوا، تو جنرل مینیجر، کریم بلوچ نے مجھے کوریڈور میں دیکھتے ہی پوچھا۔’’ کیا کر رہے ہو؟‘‘

مَیں نے ڈراموں میں کام کی خواہش ظاہر کی، تو اُنہوں نے اُسی روز پروڈیوسر، نواز مگسی سے ملوایا، جو عبدالقادر جونیجو کے تحریر کردہ سندھی ڈرامے کا بلوچی زبان میں ترجمہ کروا کے ریکارڈنگ کی تیاری کر رہے تھے، اِس میں مجھے بھی کاسٹ کیا گیا۔ واھگ (خواہش) کے نام سے یہ ڈراما پیش ہوا۔ اُنہی دنوں پروڈیوسر اقبال لطیف کوئٹہ سے پہلا اُردو سیریل’’ وہ کون ہے؟‘‘ کے نام سے کر رہے تھے۔ 

یہ ڈراما تاج رئیسانی کا لکھا ہوا تھا، مجھے بھی اس میں شامل کرلیا گیا۔نام وَر اداکار قادر حارث، غلام نبی بجلی، اسماعیل شاہ اور فاروق سرور سے دوستی ہوئی۔پھر کام میں ایسے مصروف ہوئے کہ سَر کھجانے کی فرصت نہیں تھی۔ بعد میں محسوس کیا کہ بینک کی نوکری میں وقت اور صلاحیتوں کو ضائع کر رہا ہوں، یوں بینک کی ملازمت کو خیرباد کہہ کر اداکاری ہی کا ہوگیا۔

س: گھر والوں کا ردّ ِ عمل کیا تھا؟

ج: جب انسان خود غلط اور صحیح میں فرق کرنے پر قدرت رکھتا ہو، تو اُسے ٹوکا نہیں جاتا۔ ڈراموں کے ساتھ زمین داری کے معاملات کو بھی باقاعدہ وقت دے رہا تھا۔ گھر والے میری ذمّے داریاں بخوبی نبھانے سے مطمئن تھے۔ وہ میری حوصلہ افزائی کرتے۔ ماموں اور خاندان کے دیگر افراد نے بھی خُوب ساتھ دیا، جس پر اُن کا شُکر گزار ہوں۔

س: کچھ ایسے ڈرامے، جو آج بھی یاد ہوں؟

ج: اب تک سیکڑوں ڈرامے اور کمرشلز کر چُکا ہوں۔ ابتدائی دَور کے ڈرامے بہت یادگار ہیں، کیوں کہ اُس وقت صرف پی ٹی وی ہوا کرتا تھا اور لاکھوں افراد اُس کے تفریحی پروگرامز سے جُڑے ہوئے تھے۔

پھر یہ کہ کام بھی مثالی تھا۔ ٹی وی پر آنے والوں کو شناخت بھی جلد مل جاتی تھی۔ امر جلیل کا لکھا ڈراما ’’بھنور‘‘، جس کے ہدایت کار کاظم پاشا تھے اور’’چھاؤں‘‘ جسے شاہد کاظمی نے لکھا اور ہدایت کار طارق معراج تھے، کبھی نہیں بھولتے۔

س: کوئٹہ کے علاوہ دیگر اسٹیشنز پر بھی کام کیا؟

ج: جی ہاں۔ یہ وہ زمانہ تھا، جب آپ بیک وقت کئی کئی ڈراموں میں کام نہیں کرسکتے تھے۔ کسی بھی اداکار کو کاسٹ کرنے سے پہلے اُس کے متعلقہ اسٹیشن سے این او سی لیا جاتا تھا تاکہ اُس کی مصروفیات اور رویّوں سے آگاہی حاصل ہو۔ مَیں نے کراچی، پشاور اور لاہور اسٹیشن سے بہت سے ڈرامے کیے۔

س: نجی پروڈکشن ہاؤسز سے پہلا رابطہ کیسے ہوا؟

ج: 1992ء میں’’دشت‘‘ سیریل میں کام کیا۔ نعمان اعجاز اور عابد علی ساتھی اداکار تھے۔اس کی گوادر میں ریکارڈنگ ہوئی اور یوں سمجھیں کہ اِس ڈرامے کے ذریعے پہلی مرتبہ ہم ہی نے گوادر کو دریافت کیا۔

س: فلموں میں بھی اداکاری کی؟

ج: ایک پشتو فلم میں کام کیا۔ اِس کے علاوہ اسلم بھٹی کے ساتھ پنجابی فلم کی ریکارڈنگ کے سلسلے میں دُبئی جانا ہوا، فلم کی کاسٹ میں بھارتی اداکار بھی شامل تھے، لیکن بوجوہ یہ فلم سینماؤں کی زینت نہ بن سکی۔ زیبا بختیار کے ساتھ فلم’’آپریشن وَن ٹو وَن‘‘کی۔ 

اِس فلم نے جس دن ریلیز ہونا تھا، سینما مافیا نے اُس کے مقابلے میں بھارتی فلم ریلیز کی، جس کی وجہ سے زیبا بختیار کی فلم وہ توجّہ حاصل نہ کرسکی، جس کی اُمید تھی۔ اِس سے آپ ہمارے کاروباری حلقے میں قومی جذبے کے فقدان کا اندازہ لگا سکتے ہیں۔ پھر جمال شاہ کے ساتھ لندن میں فلم’’ریوینج آف فٹ لیس‘‘ میں کام کیا۔

س: پشتو فلم میں کام کا تجربہ کیسا رہا؟

ج: پشتو فلموں میں کام کے لیے دل، گردہ چاہیے۔ اکثر پشتو فلموں میں پروڈیوسرز کے ساتھ ایک پیج پر آنا مشکل ہوتا تھا۔ یاد رکھنا چاہیے کہ پیسا ہی سب کچھ نہیں ہوتا اور سَستی تفریح سے قوموں کی خدمت نہیں ہوتی، بلکہ اس سے معاشروں میں بگاڑ پیدا ہوتا ہے۔ فلم اور ڈراما تو تہذیبوں کے امین ہوتے ہیں۔ 

یہ قوموں کا افتخار بلند کرتے ہیں، افراد کو ذمّے داریوں کا احساس دِلاتے ہیں، سبق آموز کہانیاں اصلاح کا باعث ہوتی ہیں۔ بدقسمتی سے اِن امور کا کم ہی خیال رکھا جاتا ہے اور شاید فلم انڈسٹری کے زوال کی ایک وجہ یہ بھی ہے۔

س: آپ نے مشہور اداکار، نصیر الدّین شاہ کے ساتھ بھی کام کیا، تو وہ تجربہ کیسا رہا؟

ج: بالی وُڈ کے اداکار اپنی اداکاری پر توجّہ دیتے ہیں اور اِس شعبے سے وابستہ باقی افراد بھی ایسا ہی مزاج رکھتے ہیں، وہ اِسے پروفیشنلزم کا نام دیتے ہیں۔ ہمارے ہاں رویّے قدرے مختلف ہیں۔ مثلاً مَیں نے قوی خان اور شفیع محمّد جیسے اداکاروں کے مقابل اداکاری کی، جو قدم قدم پر رہنمائی کرتے تھے۔

افضال احمد کوئٹہ سے’’ چاکرِ اعظم‘‘ کا کردار کر رہے تھے، ایک بلوچ سردار کی چال ڈھال اور باڈی لینگویج سے ناواقف تھے، مَیں نے اور اداکار حسّام قاضی نے اُن کی رہنمائی کی، تو وہ بہت خوش ہوئے۔

س: فلم اور ڈراما انڈسٹری میں بلوچستان کے اداکاروں کا کیا مقام ہے؟

ج: بعض معاملات میں ہم مختلف ہیں، جس کی وجہ ہمارے موسم، پہاڑ، سمندر، ریگستان اور نخلستان ہوسکتے ہیں۔ یوں صلاحیتوں میں الگ سے پہچان بھی قدرت کے دَین ہے۔ ہمارے اداکاروں میں ایرانی، تو کہیں ہالی وڈ، لالی وڈ یا بالی وڈ کے اداکاروں کے جَھلک نظر آتی ہے۔

اس کے ساتھ، دوسروں سے استفادے اور تراش خراش کا عمل بھی جاری ہے۔ ہمارے لوگ کسی بھی ماحول میں ایڈجسٹ ہونے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ افغانستان، ایران، پنجاب اور سندھ میں آباد بلوچ اس کی واضح مثال ہیں۔ہمارے لوگ نام اور کام میں ہر جگہ نمایاں ہیں۔

س: اس صنعت کے حوالے سے ہمارا اپنا ماحول اُس طرح نہیں بن پایا، جیسا بننا چاہیے تھا، آپ کی کیا رائے ہے؟

ج: یہ بات درست ہے کہ ہم اپنی مارکیٹ نہیں بنا سکے۔ ہمیں تو علاج معالجے کے لیے بھی کراچی جانا پڑتا ہے۔ ہم ابھی تک کارخانوں اور اچھے تعلیمی اداروں سے محروم ہیں۔ سب کچھ ہونے کے باوجود سیّاحتی ماحول سے دُور ہیں۔ اس کی وجہ بعض حُکم رانوں کی ہٹ دھرمی پر مبنی سیاسی کش مکش کو ٹھہرایا جاتا ہے۔ اِس وقت وفاقی اکائیوں پر یک ساں توجّہ دینے کی ضرورت ہے۔ 

قوم میں بے گانگی کے احساس کا ازالہ ناگزیر ہے۔ مغالطے پیدا کرنے والی بعض پالیسیز دُوریوں کا باعث بنتی ہیں۔ اگر ہمارے ہاں انصاف کے تقاضے پورے ہوں، قانون کی حقیقی حُکم رانی ہو، عوام اور صوبوں کے احترام کا جذبہ اصولی بنیادوں پر ہو، تو میرے خیال میں غلط فہمیوں کے پیدا ہونے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوگا۔

پی ٹی وی، کوئٹہ سینٹر یہاں کے فن کاروں کا واحد ادارہ تھا، مگر وہ عدم توجّہی کے سبب زوال پذیر ہے اور ریڈیو اسٹیشن بھی برائے نام ہی ہے۔ ہماری بھاگ دوڑ سے ایک، آدھ پروگرام یا ڈراما ریکارڈ ہو جاتا ہے، مگر معاوضے بیس، بیس سال سے رُکے ہوئے ہیں۔ ٹیکسز کی بھرمار ہے، اسٹیج مُردہ پڑا ہے۔ مَیں سمجھتا ہوں کہ یہاں کی آرٹس کاؤنسل فعال ہونی چاہیے۔

س: حال ہی میں آپ کا لکھا ہوا ڈراما’’ بخت ہزاری‘‘ پی ٹی وی سے پیش ہوا؟

ج: اچھا ہوا یاد دِلا دیا۔

اس ڈرامے کو جی ایم، پی ٹی وی، فہیم شاہ نے ڈائریکٹ کیا۔ کافی عرصے بعد کوئٹہ کے اداکاروں کو کام کرنے کا موقع ملا تھا، مگر بدقسمتی سے اچھی مارکیٹنگ نہ ہونے کی وجہ سے سینٹر مار کھا گیا۔ پھر یہ کہ ہمارے پاس ابھی تک پرانے آلات ہیں، جن کے ذریعے نجی شعبے کا مقابلہ کرنا ممکن نہیں۔

س: نیشنل اکیڈمی آف آرٹس، کراچی سے سیکھ کر آنے والے فن کاروں کا مستقبل کیا دیکھتے ہیں؟

ج: ناپا اور این سی اے سے پڑھ کر یا تربیت لے کر آنے والے مایوس نظر آتے ہیں۔ کراچی اور لاہور میں جگہ بنانے کے لیے بے شمار دشواریوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ پھر بے روزگاری بھی ہے، پرانے فن کار کام نہ ہونے کی وجہ سے وظیفے کے پیچھے رُلتے پِھرتے ہیں۔

ہم کوشش کررہے ہیں کہ کوئی مثبت ماحول پروان چڑھے اور اِسی مقصد کے لیے’’گرگ‘‘کے نام سے فن کاروں کے لیے ویلفیئر سوسائٹی بنائی، فنڈز جمع کرنے کے لیے بینک اکاؤنٹ کھولا گیا، مگر دو برس ہوگئے، کہیں سے شنوائی نہیں ہوئی اور بینک نے بھی اکاؤنٹ بند کرنے کی دھمکی دی ہے۔ 

اس کے باوجود ہم ناامید نہیں ہیں۔’’گرگ‘‘کے پلیٹ فارم سے خانۂ فرہنگ ایران کے تعاون سے فن اور فن کاروں کی بہتری کے منصوبوں پر بات چیت ہو رہی ہے۔اِس وقت دنیا میں ایرانی فلموں کا چرچا ہے اور ہم بھی مہذّب انداز میں اپنی انڈسٹری کے فروغ سے بہت کچھ حاصل کرسکتے ہیں۔

س: ڈیجیٹل اور یوٹیوب چینلز بھی تو کام کے جوہر دِکھانے اور آمدنی کے ذرایع بن چُکے ہیں؟

ج: یہ بات درست ہے۔ بعض لوگ سطحی اور بے ہودہ انداز میں ان کا استعمال کر رہے ہیں، وہ کما بھی رہے ہوں گے، لیکن اُن سے پوچھا جائے کہ اِس سے عوام کو کیا فائدہ ہو رہا ہے؟ ماسوائے وقت کی بربادی یا گم راہی پھیلانے کے۔ مَیں بھی وی لاگنگ کررہا ہوں اور سمجھتا ہوں کہ لوگ مثبت امیج پسند کرتے ہیں۔

مَیں فوڈ اینڈ ٹریول کے موضوع پر ٹی وی پر پروگرام کر چُکا ہوں اور اب اُسی تجربے سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے یوٹیوب پر سیّاحت کو فروغ دے رہا ہوں۔اپنی فن کار برادری کو کہتا ہوں کہ اب آرٹی فیشل انٹیلی جینس کا زمانہ ہے، جس میں نئے ذرائع کے مطابق اپنی صلاحیتوں کا اظہار کرنا ہوگا۔

س: آپ نے عام انتخابات میں بھی تو حصّہ لیا تھا؟

ج: میرے خیال میں کسی بھی شعبے سے تعلق رکھنے والے، ٹیکنوکریٹس کو سیاست کا باقاعدہ حصّہ ہونا چاہیے۔ مَیں ایک سیاسی گھرانے سے تعلق رکھتا ہوں اور اسمبلی کا حصّہ بن کر اپنے شعبے کے لیے بہت کچھ کرسکتا ہوں اور 2018ء کے انتخابات میں حصّہ لینے کا یہی مقصد تھا۔

ہر مرتبہ سنجیدہ سیاست دان یہی سمجھ کر انتخابات میں حصّہ لیتے ہیں کہ شاید اب کی بار دھاندلی کی تاریخ نہیں دُہرائی جائے گی، مگر ہر بار مینڈیٹ سوالیہ نشان بن جاتا ہے۔

س: آج کے اور ماضی کے ڈراموں میں کیا فرق محسوس کرتے ہیں؟

ج: پہلے اچھی ٹیم بنتی تھی، اپنا اور دوسروں کا وقت قیمتی جاننے کا احساس تھا، پیسا سب کچھ نہیں ہوتا تھا۔ ادارے، تعلق اور رشتے مقدّس ہوتے تھے۔ ایک دوسرے کا احترام، ہم دردی کا جذبہ مثالی تھا۔ نبھائے گئے کرداروں تک کا بَھرم رکھا جاتا۔ 

ادارے اور فن کار بدنامی سے ڈرتے تھے، سب سے بڑی بات نظریاتی وابستگی تھی۔ اچھی تفریح اور خُوب صُورت پیغام مدّ نظر رکھ کر ڈرامے اور فلمیں بنتیں۔ اب بھی جو ادارے اور فن کار اِنہی جذبات کے ساتھ کام کر رہے ہیں،وہ نیک نامی کما رہے ہیں اور شاید اِن شعبوں کا کچھ بھرم ابھی تک اِن افراد کی وجہ سے قائم ہے۔

س: کبھی ڈراموں وغیرہ کے سلسلے میں بیرونِ مُلک بھی جانا ہوا؟

ج: ’’جیو‘‘ کے لیے ڈراما سیریل’’سوکھے پتّے‘‘ کی ریکارڈنگ کے سلسلے میں کینیڈا جانا ہوا اور اُسے ڈائریکٹ بھی کیا۔ اس کے علاوہ عرب امارات، ملائیشیا، تھائی لینڈ اور یو-کے بھی جا چُکا ہوں۔

س: اب تک کتنے ایوارڈ حاصل کر چُکے ہیں؟

ج: بے شمار، مگر پی ٹی وی کے ایوارڈز مجھے بہت عزیز ہیں، جو میری پہچان ہیں۔ بلوچستان ایکسی لینس ایوارڈ اور پرائڈ آف پرمارمینس ایوارڈ بھی لے چُکا ہوں۔ باقی اِتنے ہیں کہ بتانا بھی مشکل ہے، لیکن ایک بات بتاؤں، عوامی محبّت سے بڑا کوئی ایوارڈ نہیں ہوتا۔

س: محبّت سے متعلق کیا رائے ہے، کبھی اِس تجربے سے گزرے؟

ج: محبت نہیں جناب، محبتیں۔ سامعین کی محبّت، ناظرین کی، وطن کی، رشتوں کی محبتیں۔ یوں سمجھیں، محبّتوں سے مالا مال ہوں۔ہاں، اگر آپ کا اشارہ کسی اور طرف ہے، تو سنیے، پرندے اور جانور تک جنسِ مخالف سے محبّت کا جذبہ رکھتے ہیں، تو ہم اِس سے کیسے محروم رہ سکتے ہیں؟ خُوب صُورت تعلق، محترم وابستگی اور قابلِ احترام رشتے ہی تو محبّت کی مٹھاس رکھتے ہیں۔

س: بچّے کتنے ہیں اور کیا کرتے ہیں؟

ج: میرا بڑا بیٹا، ریحان کوئٹہ اور پھر لاہور سے تعلیم مکمل کرنے کے بعد مزید پڑھنے آسٹریلیا گیا۔ وہ زراعت سے بھی وابستہ ہے، اُس نے 2018ء میں بلوچستان اور سندھ میں بلیک رائس کاشت کا تجربہ کیا۔ حکومتی سطح پر مشینری اور ضروری آلات میسّر نہیں ہوئے، جو اِس تجربے کے پھیلاؤ اور کام یابی کے لیے ضروری تھے۔

دوسرا بیٹا، سلیمان صحبت پور میں ملازمت کررہا ہے، جب کہ چھوٹا شہک میڈیا سائنس میں ڈگری یافتہ ہے۔ ڈراما ڈائریکٹر عبداللہ بادینی اور عباس کاکڑ کی رہنمائی میں کام کررہا ہے۔ وہ یاسر نواز کی ایک فلم میں بطور اسسٹنٹ بھی کام کرچُکا ہے، جس قسم کی پذیرائی ملنی چاہیے تھی، وہ نہ ملنے کی وجہ سے کبھی کبھار مایوس بھی ہو جاتا ہے۔

س: کتنی زبانیں بول لیتے ہیں؟

ج: سات زبانیں جانتا ہوں۔ بلوچی بابا کی، پشتو امّی کی زبان ہے۔ سندھی اور سرائیکی ہمارے علاقے میں بولی جاتی ہیں۔ براہوی دادی کی زبان ہے۔جب کہ انگریزی، اردو اور فارسی میں تعلیم حاصل کرچُکا ہوں۔

س: کھانے میں کیا پسند ہے؟

ج: وہ سب کچھ، جو صحت پر بوجھ نہ بنے، کھا لیتا ہوں۔ کوکنگ میرا شوق ہے اور ایک نجی ٹی وی چینل کے سیلبریٹی کوکنگ مقابلے میں شریک ہوکر مقابلہ بھی جیت چُکا ہوں۔ مقابلے کے فائنل میں مدّ ِمقابل اداکار نے مجھے رشوت دے کر پیچھے ہٹنے کی آفر کی، لیکن مَیں نے ایسا کرنے سے انکار کردیا۔

س: لباس میں کیا اچھا لگتا ہے؟

ج: جینز بھی پہن لیتا ہوں، البتہ قمیص، شلوار میں شخصیت کا الگ ہی نکھار آتا ہے، اِسی لیے اکثر یہی پہنتا ہوں۔

س: کون لوگ آپ کے دوست ہیں؟

ج: شاعر، ادیب اور سیاست دان ۔

س:خُوش بُو کون سی پسند ہے؟

ج: قدرتی خوش بُو پسند ہیں۔ خاص طور پر’’عود‘‘پیارا لگتا ہے۔

س: غصّہ کب آتا ہے؟

ج: جوانی میں زیادہ غصّہ آتا تھا، مگر اب ایسا نہیں ہے۔ بہت سی چیزیں سمجھ آگئی ہیں۔

س: آج کل کن منصوبوں پر کام کر رہے ہیں؟

ج: پاک بحریہ کے ساتھ سندھ، بلوچستان کی ساڑھے گیارہ سو کلومیٹر پر مشتمل ساحلی پٹّی کے ساتھ آبادیوں کے لیے تعلیم، صحت اور دیگر بنیادی مسائل کے حل میں بحیثیت ایک سیلبریٹی تعاون کے ایم او یو پر دست خط کیے ہیں۔ 

شاید میرا سماجی تعلق اور کام دیکھ کر اُنہوں نے مجھے آفر کی۔ میری شروع سے کوشش رہی ہے کہ عوامی بھلائی کے کام کروں، کیوں کہ عوام ہی ہماری قوّت ہیں۔ مُلک کی تعمیر و ترقّی کا دارومدار اُن کی اچھی تعلیم و تربیت ہی پر ہے۔

فن و فنکار سے مزید
سنڈے میگزین سے مزید