• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بلوچستان کی ’’گرین بیلٹ‘‘ ایک بار پھر خطرات سے دوچار

2010ء، 2012اور 2022ء میں آنے والے تباہ کُن سیلابوں سے شدید متاثر ہونے والا ضلع، اُستا محمد(سابقہ ضلع جعفر آباد)، جو ’’بلوچستان کی گرین بیلٹ‘‘ بھی کہلاتا ہے، ابھی تک پوری طرح سنبھل نہیں سکا ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ متعلقہ ادارے ماضی میں یہاں آنے والی قدرتی آفات سے کچھ سبق سیکھتے اور زمینی حقائق کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے ٹھوس بنیادوں پر مستقبل کی منصوبہ بندی کی جاتی، لیکن بد قسمتی سے صورتِ حال متعلقہ حُکّام کی جانب سے کیے جانے والے دعووں کے برعکس دکھائی دیتی ہے۔ ضلع اُستا محمّد کو سیلاب کی مزید تباہ کاریوں سے بچانے کے لیے ضروری ہے کہ سب سے پہلے اُن عوامل پر توجّہ دی جائے کہ جو نقصانات کا سبب بنتے ہیں۔

اس وقت ضلعے بَھر کا نکاسیٔ آب کا نظام انتہائی ناقص ہے، جب کہ سیم نالے ٹُوٹ پُھوٹ کا شکار ہیں، جو سیلابی پانی کا دباؤ برداشت نہیں کر سکتے اور ماضی میں انہی سیم نالوں میں پڑنے والے شگاف ہی بڑے پیمانے پر تباہی کا سبب بنے۔ آر بی او ڈی یا رائٹ بینک آئوٹ فال ڈرین نامی میگا پراجیکٹ، جو نہری علاقوں سے سیم کے پانی کے اخراج سمیت سندھ اور بلوچستان سے نہ صرف فصلوں کے اضافی پانی کے اخراج بلکہ سیلابی صورتِ حال میں پانی کو مین ڈرین تک لے جا کر سمندر بُرد کرنے کا اہم ذریعہ ہے، بد قسمتی سے تاحال زیرِ تکمیل ہے۔ 

واپڈا کے زیرِ نگرانی اس قومی منصوبے کی تعمیر پر اب تک اربوں روپے خرچ ہو چُکے ہیں، لیکن اس کے ثمرات عوام کو نہیں مل رہے، بلکہ اس کے برعکس یہ نا مکمل منصوبہ زراعت کی ترقّی میں مزید رُکاوٹوں کا پیش خیمہ ثابت ہو رہا ہے۔ 

مزید برآں، کاشت کار کمیونٹی کے سامنے اس میگا پراجیکٹ کے خد وخال پوری طرح واضح نہیں کیے گئے۔ نیز، سیم اور سیوریج کے ہزاروں کیوسک پانی کے اخراج کے لیے ڈیزائن کیے گئے اس بڑے منصوبے کی وجہ سے جا بہ جا رُکاوٹیں بھی حائل ہیں۔

دوسری جانب ضلع، اُستا محمّد کی حدود میں متعدد سیم نالے تاحال نامکمل ہیں اور بعض مقامات پر زمین داروں نے مبیّنہ طور پر کھودے گئے نالے ہم وار کر کے ان پر کھیتی باڑی شروع کر دی ہے۔ ہر چند کہ اس بارے میں ضلعی انتظامیہ، محکمۂ آب پاشی اور واپڈا حُکّام کو متعدد بار آگاہ کیا گیا، لیکن اس ضمن میں متعلقہ تعمیراتی ادارے اور نہ ہی اس غیر قانونی عمل میں ملوّث زمین داروں سے کوئی باز پُرس کی گئی۔ 

اسی طرح 2010ء کے تباہ کُن سیلاب کے دوران، جو دریائے سندھ کے ٹوڑی بند کو توڑتا ہوا سندھ اور بلوچستان میں تباہی کا سبب بنا، متعلقہ اداروں نے سیلابی پانی کو راستہ دینے کے لیے اُستا محمّد، ڈیرہ الله یار سڑک پر چار مقامات پر کٹ لگائے، لیکن اس راستے کو مستقل طور پر فلڈ رُوٹ بنانے کی بجائے اس گُزر گاہ پر دوبارہ رُکاوٹیں کھڑی کر دیں اور 2022ء کے سیلاب سے ہونے والی تباہی کے باوجود بھی کوئی حفاظتی انتظامات نہیں کیے گئے۔ 

اسی طرح کیر تھر کینال کے خان پور پُل کے ساتھ سیلابی پانی کو راستہ دینے کے لیے مرکزی شاہ راہ پر چار مقامات پر اُس وقت کٹ لگائے گئے کہ جب سیلابی ریلا پوری طرح تباہی مچا چُکا تھا جس کے نتیجے میں نہ صرف آب پاشی کا نظام تباہ ہو گیا، بلکہ لاکھوں ایکڑ پر کھڑی چاول کی اربوں روپے مالیت کی فصل برباد ہو گئی، جب کہ لاکھوں افراد بے گھر ہو گئے۔

ماضی کے ان افسوس ناک واقعات کو تذکرہ کرنے کا مقصد یہ ہے کہ حالیہ مون سون سیزن کے دوران غیر معمولی بارشوں کے سبب بلوچستان میں بھی سیلاب کا خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے۔ گر چہ ضلعی اور ڈویژنل انتظامیہ نے ہائی الرٹ جاری کرتے ہوئے تمام محکموں کو ہنگامی طور پر انتظامات کرنے کی ہدایات جاری کر دی ہیں، تاہم سیلابی گُزرگاہوں کی صفائی کے لیے تاحال کوئی اقدامات نہیں کیے گئے، جس کے نتیجے میں عوامی حلقوں میں یہ تشویش پائی جاتی ہے کہ کہیں اس بار بھی خدانخواستہ سیلابی پانی گرین بیلٹ کو تباہی سے دوچار نہ کر دے۔ 

لہٰذا، پی ڈی ایم اے اور متعلقہ اداروں کو زمینی حقائق کا جائزہ لیتے ہوئے آر بی او ڈی کے سیم نالوں کی تکمیل اور حیردین ڈرینیج سسٹم کے خستہ حال نالوں کی بحالی پر توجّہ مرکوز کرنے کی ضرورت ہے، کیوں کہ ماضی میں انہی سیم نالوں کی خستہ حالی کی وجہ سے تباہی پھیلی، لیکن ایسا لگتا ہے کہ ضلعی انتظامیہ اور متعلقہ ادارے فی الوقت ممکنہ خطرات سے چشم پوشی کیے ہوئے او اپنی ذمّے داریوں سے غافل ہے۔