• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سات ارب ڈالرقرضہ پروگرام کے تناظر میں بین الاقوامی مالیاتی فنڈ(آئی ایم ایف)نے پاکستانی معیشت اور اس کے سماجی شعبے کو درپیش چیلنجز اجاگر کرتے ہوئے22شرائط پر مشتمل چشم کشا رپورٹ جاری کی ہے،جس میں کہا گیا ہے کہ معیارزندگی بہتر بنانے کی دوڑ میں پاکستان علاقائی ممالک سے پیچھے رہ گیا ہے،قرض ادائیگی کی صلاحیت کو خطرات لاحق ہیںاور یہ کہ ان سے نمٹنا پالیسیوں کے موثرنفاذاور بروقت بیرونی مالیاتی تعاون سے مشروط ہے۔رپورٹ کے مطابق معیشت کا بڑا حصہ غیرمسابقتی ہے، توجہ کے فقدان سے صحت اور تعلیم کے شعبےمیںعدم مساوات پائی جاتی ہے۔غربت کی شرح 40فیصدجبکہ پیداواری ملازمتوں کی قلت ہے۔اس رپورٹ کے فی الحقیقت ہونے میں شک وشبے کی کوئی گنجائش نہیںاور اس بات سے بھی انکار ممکن نہیں کہ ملک کے پاس تمام وہ وسائل بدرجہ اتم موجود ہیں جن کا آئی ایم ایف کی اس رپورٹ میں تقاضا کیا گیاہےاوریہ اقتصادی ماہرین کی ملک کیلئےمثبت سوچ و فکرسے مطابقت رکھتی ہے۔اسے آئی ایم ایف کا نہیں،اپنی ضرورتوں کا جامہ پہنایاجانا چاہئے۔ متذکرہ رپورٹ اس بات کی بھی نشاندہی کرتی ہے کہ پاکستان میںمسابقت اور پیداواری صلاحیت متاثر ہونے میںاس کی حکومتوں کا بااثر افراد کو سبسڈی یا ٹیکس سہولیات فراہم کرنا شامل ہے ۔ قرض کی پہلی قسط جاری ہوگئی،یہ پروگرام 36ماہ پر مشتمل ہے،جو موجودہ حکومت ہی کے دور میں مکمل ہوگا۔وزیراعظم شہباز شریف پہلے ہی معاشی اصلاحات کا ایک جامع ایجنڈا لے کر آئے ہیں اور ان کی ٹیم خلوص نیت سے اس پر عمل پیرا ہے،جس کا انتہائی روشن پہلو سات ارب ڈالر کے اس قرضے کے بعد مزید کی ضرورت باقی نہیں رہے گی۔صرف نامساعد سیاسی ماحول ایسا عنصر ہے جو ملکی ترقی کی راہ میں رکاوٹ بنا ہواہے،جسے ذاتی کی بجائے قومی مفاد کے تابع سوچ اور عمل سے دور کیا جاسکتاہے۔

تازہ ترین