• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

(گزشتہ سے پیوستہ )

گورنمنٹ جونیئر ماڈل اسکول ،گورنمنٹ سنٹرل ماڈل اسکول لوئر مال کا ایک علیحدہ سیکشن تھا پھر اداروں کی تباہی کے ساتھ ہی اس جونیئر سیکشن کو بھی ختم کرکے بڑے اسکول میں ضم کر دیا گیا۔ ہمارے زمانے میں بلکہ ایک دور تک دونوں اسکولوں کا نام چھوٹا اسکول اوربڑا اسکول رہا جبکہ بڑے اسکول میں کلاس ششم سے داخلہ شروع ہوتا تھا بڑا اسکول دسویں جماعت تک تھا اور چھوٹے اسکول کے بچے پانچویں جماعت پاس کرکے سیدھے بڑے اسکول میں آ جاتے تھے کیا خوبصورت زمانہ تھا دونوں اسکولوں کے گرائونڈز بہت بڑے تھےاور ان دونوں اسکولوں کے ساتھ گورنمنٹ سنٹرل ٹریننگ کالج کا خوبصورت اور بہت وسیع گرائونڈ تھا۔تینوں اداروں کے لئے ایک سوئمنگ پول تھا اس کو بھی کسی عقل مند نے ختم کرا دیا۔ تینوں اداروں کی عمارتیں آج بھی قدیم فن تعمیر کا انتہائی خوبصورت نمونہ ہیں ۔ آج تینوں ادارے اپنا تاریخی تشخص کھو چکے ہیں اگرچہ گورنمنٹ سنٹرل ماڈل اسکول لوئر مال کی موجودہ پرنسپل سیدہ نزہت بشیر اس تاریخی اور قدیم اسکول کے تشخص کو بہتر بنانے میں کافی محنت کر رہی ہیں مگر ایک مدت کے خراب شدہ اور بگڑے اسکول کو اوپر لانا بہت محنت طلب کام ہے ۔شاید یہ اسکول ہمارے زمانے والا اسکول بن جائے جس نے کبھی پاکستان میں 70سے 80فیصد طلبا میڈیکل پروفیشن، فوج، بیورو کریسی اور انجینئرنگ کو دیئے تھے۔

اچھا جناب بات ہو رہی تھی 1965ءکی جنگ اور لاہور پر فضائی حملے کی۔ جب بھارتی طیاروں نے دو راکٹ مارے اور زور دار دھماکے ہوئے تو ہمارے بینڈ ماسٹر حاجی عبدالمجید پٹیالوی نے چیخ کر زور سے کہا کہ سب بچے درختوں کے نیچے چھپ جائو۔ اس اثنا میں اسکول میں تعطیلات کا اعلان ہو گیا اور ہم تعطیلات کی خوشی میں اپنے بھائی باسط کے ساتھ اپنے گھر ریٹی گن ٹیپ روڈ پر بھاگ گئے ہمیں تو بس تعطیلات کی خوشی تھی ۔جنگ ستمبر 65اور لاہور کا بڑا گہرا تعلق ہے لاہور کے ریڈیو اسٹیشن نے سب سے پہلے جنگی ،ملی نغمے اور ملی ترانے تیار کئے اور نشر کئے میڈم نور جہاں، نسیم بیگم، مالا بیگم ، آئرن پروین، زاہدہ پروین، مسعود رانا، شوکت علی اور کئی دیگر فنکاروں نے ملی ترانے ریکارڈ کرائے۔ اور شعرا نے بھی کمال کر دیا اس طرح انہوں نے نغمے تخلیق کئے کہ لوگ حیرت میں پڑ گئے کہ کس قدر جلدی انہوں نے ایسے جوشیلے نغمے تخلیق کر دیئے مہدی حسن کا یہ ملی نغمہ ’’خطہ لاہور تیرے جاں نثاروں کو سلام‘‘ بہت مقبول ہوا پھر یہ فنکار لاہور کے واہگہ بارڈر پر جاکر فوجیوں کی حوصلہ افزائی کیا کرتے تھے۔ بی آر بی تاریخی نہر سے واہگہ بارڈر تک شہدا کی کئی یادگاریں ہیں مگر اب مختلف عمارات اور پلازوں میں چھپ گئی ہیں کبھی یہ یادگاریں دور سے نظر آجایا کرتی تھیں ۔بی آربی نہر پر تو کئی ناول لکھے گئے اور ڈرامے بنائے گئے تھے ہم ایک مدت تک شہدا کی ان یادگاروں پر جاتے رہے مگر اب اس علاقے میں اتنا رش ہو چکا ہے کہ تلاش کرنے پر بھی یہ یادگاریں نہیں ملتیں حالانکہ یہ سب یادگاریں موجود ہیں مگر آبادی، دکانوں اور پلازوں کی وجہ سے اب نظر نہیں آتیں ہم کئی مرتبہ ان یادگاروں پر گئے بلکہ روزنامہ جنگ کے تعلیمی اور بچوں کے ایڈیشن کے زیر اہتمام اسٹوڈنٹس کے دورے بھی یہاں پر کرائے تھے ۔بی آر بی کے قریب سائفن میں دریا راوی کے نیچے سے نہر بھی آتی ہے اس کا بڑا خوبصورت منظر ہوتا ہے۔ لاہوریئے جو کبھی بڑے جوش وخروش کے ساتھ ان یادگاروں پر جایا کرتے تھے آہستہ آہستہ انہوں نے بھی جانا چھوڑ دیا اب صرف فوجی خود 6ستمبر کو جاتے ہیں یا پھر کوئی بھولا بسرا لاہوریا بھی آ جاتا ہے یہیں پر عزیز بھٹی نشان حیدر کی شہادت کی جگہ بھی ہے جنگ ستمبر 65میں لاہور کے اس بارڈر پر کئی فوجی شہید ہوئے تھے۔

لیں جناب لاہور کی ایک تاریخی قدیم اور فن تعمیر کی نادر نمونہ عمارت کو تباہ کرنے اور اس کے گرانے کا پورا پورا بندوبست کیا جا رہا ہے اور صرف آنے والے چند ماہ میں یہ تاریخی عمارت جو کہ تاریخی ورثہ ڈکلیئر ہو چکی ہے گر جائے گی بلکہ اس کو گرانے کے لئے جو از پیدا کئے جا رہے ہیں یہ تاریخی عمارت 132سال قدیم ہے اور آج بھی بہت حد تک قابل استعمال ہے صرف ذرا سی توجہ سے یہ مزید ایک سو برس تک کام دے سکتی ہے۔ اس تاریخی عمارت کا نام نیوٹن ہال ہے انتہائی خوبصورت فن تعمیر کی یہ عمارت نیوٹن ہال 1902ءمیں فورمین کرسچن کالج (ایف سی کالج لاہور) کے ایک انگریزی کے پروفیسر JOHN NCATCLکے نام پر ہے جو کالج کے وائس پرنسپل بھی رہے ،اس تاریخی عمارت میں کبھی ایف سی کالج کی کلاسیں بھی ہوتی رہی ہیں اور پھر یہ 1920ء میں ایف سی کالج کی انتظامیہ نے نیوٹن ہال میوہسپتال کی انتظامیہ کو فروخت کر دیاتھا اور میو ہسپتال نے اسے نرسوں کا ہوسٹل بنادیا تھا آج بھی یہاں پر چند کمروں میں نرسیں رہتی ہیں ہمیں یاد ہے کہ آج سے صرف بیس سال پہلے تک یہ تاریخی عمارت پورے عروج پر تھی یعنی نرسوں کے ہوسٹل کے کمروں کے اوپر خوبصورت لکڑی کے شیڈ تک پوری طرح اور مکمل حالت میں تھے۔اور اس وقت تقریباً 100کے قریب نرسیں یہاں رہائش پذیر تھیں تمام کمرے جو کہ لکڑی کے شہتیروں والی چھت کے ہیں اور دوسری منزل کی چھت بھی قدیم زمانے والی عمارات کی چھتوں کی طرح مٹی اور گارے والی ہے آج بھی بہت اچھی حالت میں ہے اس تاریخی عمارت کی کبھی بھی میوہسپتال کی انتظامیہ نے دیکھ بھال نہیں کی۔ نہ پی ڈبلیو ڈی والوں نے، خیر اب تو پی ڈبلیو ڈی کا محکمہ ختم ہو چکا ہے البتہ ایک مدت تک پی ڈبلیو ڈی والے اس عمارت کو گرانے کے چکر میں رہے بلکہ کئی ایم ایس میوہسپتال اپنی دیہاڑی لگانے کے چکر میں اس عمارت کو گرانے کی کوشش کر چکے ہیں۔اب اس تاریخی عمارت کو گرانے کا ایک عجیب وغریب منصوبے کا آغاز ہونے والا ہے اس خوبصورت وکٹورین اسٹائل کی عمارت کے مرکزی دروازے پر ٹیوب ویل لگانے کا منصوبہ ہے۔ (جاری ہے)

تازہ ترین