طیارہ، بہ قول اقبال عالم مشرق کے جنیوا، تہران کی جانب محو پرواز تھا۔ لاہور سے متعدد ایئر لائنز کی پروازیں ایران جاتی ہیں لیکن براہ راست تہران کیلئے ہفتے میں صرف ایک ہی پرواز ہے۔ پرواز معمول کے وقت پر روانہ نہ ہو سکی چنانچہ ہم تین گھنٹے کی تاخیر سے اگلی صبح سات بجے تہران کے امام خمینی ائیر پورٹ پر اترے۔ میں تیس سال قبل جب پہلی بار ایران آیا تھا تو اس وقت تہران میں صرف مہر آباد ائیر پورٹ تھا۔ اب خیر سے تہران میں دو ائیر پورٹ ہیں۔ نیا امام خمینی انٹرنیشنل ائیر پورٹ بین الاقوامی پروازوں کیلئے مخصوص ہے۔ ائیر پورٹ پر سفارت خانہ پاکستان کے پروٹوکول کے نمائندے اور تہران یونی ورسٹی کے استاد ڈاکٹرعلی بیات ہمارے استقبال کیلئے موجود تھے۔ ہوٹل تک پہنچنے میں سفارت خانے کی گاڑی نے دو گھنٹے سے بھی زیادہ وقت لیا۔ اس کا سبب فاصلے سے زیادہ تہران کی غیر معمولی ٹریفک تھی۔
ہماری تہران آمد کے ساتھ ہی ساری دنیاکی توجہ ایران کی جانب مبذول ہو گئی۔ ایران کے اسرائیل پر حملے نے ایران کو دنیا بھر میں خبروں کا موضوع بنا دیا۔ ہم ابھی ہوٹل ہی میں تھے کہ اچانک شہر کی سڑکوں پر ٹریفک کا سیلاب امڈ آیا۔ مرد و زن، بوڑھے اور جوان ہاتھوں میں فلسطین کے جھنڈے لیے سڑکوں پر نکل آئے۔ خوشی کے شادیانے بجائے جانے لگے، گاڑیاں اظہار مسرت کے لیے بے مُحابا ہارن بجانے لگیں راستوں میں تل دھرنے کی جگہ نہ رہی۔ پتہ چلا کہ ایران نے اسرائیل پر میزائلوں کی بارش کردی ہے۔ رات گئے تک یہ ہنگامہ جاری رہا۔ میں ہوٹل سے نکلا اور لوگوں کے تمتماتے چہرے دیکھے، ان کے پرجوش نعرے سنے اور ٹریفک کی صورت حال جو ویسے بھی بہت ہولناک ہوتی ہے اسے مزید ہولناک ہوتے دیکھا۔ جس روز حسن نصراللہ شہید کیے گئے اس سے اگلے ہی روز تہران کے چوراہوں، بڑی عمارتوں اور پلوں پر ان کی تصویروں اور تعزیتی جملوں کے حامل بڑے بڑے پوسٹر آویزاں ہو گئے تھے جن میں انکی شہادت کو ’’آغازِ نصر اللہ‘‘ یعنی اللہ کی مدد کا آغاز قرار دیا گیا۔ کہیں قرآنی آیت ’’اذاجاء نصراللہ ...‘‘ سے استشہاد کیا گیا تو کہیں ’’نصر من اللہ وفتح قریب‘‘ میں نصر اور ’’اللہ‘‘ کے الفاظ کو نمایاں کر دیا گیا۔ ان بینرز میں ایرانی قوم کی جانب سے پیغام تو ہے ہی، انکی فنکارانہ خوبصورتی بھی اپنی جگہ قابل توجہ ہے اور ایرانیوں کا جمالیاتی ذوق تو خیر ایران میں ہر جگہ ہی دیکھا جا سکتا ہے جسے دیکھ دیکھ کے مجھے اقبال کا وہ شعر یاد آتا ہے جس میں انھوں نے حسن طبیعت کو عجمیوں کا خاصہ قرار دیا ہے۔
اسرائیل پر ایران کے حملے کے بعد ردِعمل کے بارے میں قیاس آرائیوں اور چہ میگوئیوں کا سلسلہ جاری ہو گیا جو ہنوز جاری ہے لیکن ایرانی بہت پرعزم قوم ہیں۔ انکے ہاں کسی نوع کا خوف یاڈر نہیں۔ عزیز و اقارب دور دراز کے ممالک سے اپنی تشویش کا اظہار کرتے ہیں لیکن تہران میں زندگی معمول کے مطابق ہے۔ افواہوں سے معمولات زندگی پر کوئی اثر نہیں پڑا، لوگ اپنے جی میں جی رہے ہیں اور مست ہیں۔ ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای نے قوم کو اعتماد میں لینے کیلئے تہران یونیورسٹی میدان انقلاب میں جمعہ کے اجتماع سے خطاب کیا۔ اس روز بھی پورے تہران میں ٹریفک کے اژدھام سے معلوم ہو رہا تھا کہ شہر میں کوئی غیرمعمولی واقعہ رونما ہو رہا ہے۔
ایک جمعے کو رہبر انقلاب اسلامی نے خطاب کیا اور خطاب کیلئے نماز جمعہ کو منتخب کیا تو اگلے جمعے کو پاکستانی سفیر جناب مدثر ٹیپو نے اپنے ہم وطنوں سےخطاب کیا۔ انھوں نے بھی خطاب کیلئے مسجد اور نماز جمعہ ہی کا انتخاب کیا۔ تہران کی پاکستانی ایمبیسی میں جہاں دفتری اوقات میں باجماعت نمازوں کا اہتمام کیا جاتا ہے وہاں جمعے کے روز باجماعت نماز جمعہ بھی ادا کی جاتی ہے۔ ایک زمانہ تھا جب نماز جمعہ پاکستان انٹرنیشنل اسکول میں ادا کی جاتی تھی لیکن اب ایک عرصے سے یہ اہتمام پاکستانی سفارت خانے میں کیا جاتا ہے جہاں بڑی تعداد میں تہران میں مقیم پاکستانی اور بعض دوسرے ممالک کے حضرات بھی نمازمیں شرکت کیلئے آتے ہیں اور سفارت خانے کی بیسمنٹ بھر جاتی ہے۔ جناب مدثر ٹیپو پاکستانی لباس میں تشریف لائے اور انھوں نے بڑی اپنائیت اور درد مندی کے ساتھ اپنے ہم وطنوں سے خطاب کیا۔ انھوں نے اپنے ہم وطنوں کو صورت حال کی نزاکت سے آگاہ کیا اور کسی ہنگامی حالت میں جن اقدامات کی ضرورت ہو گی ان کی جانب توجہ مبذول کروائی۔ اس موقع پر سفیر صاحب کا کہنا تھا کہ کوئی بھی انسان مکمل نہیں ہوتا، ہر انسان اور ادارے میں بہتری اور ترقی کی گنجائش ہوتی ہے لیکن اس کیلئے محنت شرط ہے۔ ایمبیسی بھی انسانوں ہی پر مشتمل ایک ادارہ ہے اس کیلئے اگر تجاویز دی جائیں تو ان کی روشنی میں ضرور بہتری لانے کی کوشش کی جائے گی۔ انھوں نے دونوں برادر ممالک کے درمیان دوطرفہ تعلقات کو بہتر بنانے اور اپنے ہم وطنوں کو سہولتیں فراہم کرنے کے سلسلے میں کیے گئے اپنے اقدامات پر روشنی ڈالی۔ انھوں نے ایمبیسی کے کمرشل سیکشن کی خدمات سے بھی لوگوں کو آگاہ کیا اور اس سلسلے میں ٹریڈ اینڈ انوسٹمنٹ کونسلر ڈاکٹر امیر حسین کی کاوشوں کو سراہا۔ عام طور سے سفارت کاروں اور عام شہریوں میں سفارتی آداب کی دیواریں حائل رہتی ہیں لیکن مدثر ٹیپو صاحب نے جہاں اس محفل میں لوگوں کو کھل کر اظہار خیال کا موقع دیا وہاں مستقبل میں بھی خود سے رابطے میں رہنے کی تلقین کی اور رابطے کیلئے سفارت خانے کے ای میل، فیس بک، ٹویٹر وغیرہ اکائونٹس کو استعمال کرنے کی ہدایت کی۔ انھوں نے یہ بھی کہا کہ اگر براہ راست مجھ سے رابطہ کرنا چاہیں تو میرے سیکریٹری عبدالقادر کھیتران صاحب کا نمبر لے لیں اور آپ جو بھی صورت حال ہو اس میں ہم سے رابطے میں رہیں اور جن لوگوں نے اب تک خود کو رجسٹرڈ نہیں کروایا ہے جلد از جلد رجسٹرڈ کروا لیں۔ سفیر پاکستان کی جانب سے نازک صورت حال میں اپنے ہم وطنوں سے براہ راست رابطے اور انھیں اس طرح اعتماد میں لینے کے اس اقدام کو اہل وطن کی جانب سے بہت سراہا گیا۔ تہران یونیورسٹی ایران کی سب سے بڑی یونیورسٹی ہے جو مشرق وسطیٰ کی بہترین یونیورسٹیوں میں شمار کی جاتی ہے اور ایران میں دانش گاہ ِمادر کہلاتی ہے۔1851میں دارالفنون سے جس ادارے کا آغاز ہوا تھا اس نے 1934ء میں ایک ماڈرن یونیورسٹی کی شکل اختیار کر لی اسی یونیورسٹی میں مسند اردو و مطالعہ پاکستان قائم ہے جو گزشتہ سترہ برس سے خالی پڑی تھی۔ ایک طویل مدت کے بعد اس مسند پر کسی پاکستانی استادکا تقرر موجودہ حکومت کا ایک قابل تحسین اقدام ہے۔ توقع ہے کہ دیگر ممالک میں قائم ایسی دوسری مساند پر پاکستانی اساتذہ کے تقرر کا عمل بھی جلد پایہ تکمیل کو پہنچے گا۔