سپریم کورٹ کے چیف جسٹس قاضی فائزعیسیٰ کی سربراہی میں قائم 5رکنی لارجر بینچ نے آئین کے آرٹیکل 63-اے۔ بارے ’’بندیالی کورٹ‘‘ کا فیصلہ کالعدم قراردے کر اس کو اصل شکل میں بحال کر دیا ہے بظاہر یہ ایک آئینی فیصلہ ہے جو’’ بندیالی کورٹ‘‘ کے دیئے گئے فیصلے کے خلاف دو سال سے زائد زیر التوا کی نظر ثانی کی درخواستوں پر دیاگیاہے۔ چونکہ آئین کے آرٹیکل 63- اے کی نئی تشریح ایسے موقع پر کی گئی ہےجب حکومت ایک ایسی آئینی ترمیم لانے کےلئے ہاتھ پائوں ماررہی ہےکچھ آئینی ماہرین کا خیال ہے سپریم کورٹ دو حصوں میں منقسم ہونے سے اپنی قوت سے محروم ہو جائے گی۔ سر دست اپوزیشن کی جانب سے یہ تاثر دیا جا رہا ہے کہ حکومت کی’’ گنتی‘‘ پوری نہیں لہٰذا وہ آئین میں ترمیم منظور نہیں کراسکے گی گنتی پوری نہ ہونے کے باعث ہی آئینی ترمیم موخر کی گئی ہے اور پارٹی پالیسی سے بغاوت کرنےوالوں کو آئین کے آرٹیکل 63 -اے کے تحت نااہلی کے ریفرنس کا سامنا کرنا پڑتا ہے لیکن اس کا ووٹ شمار ہوتا ہے ۔ اب تک ایسی خبریں آرہی ہیں کہ حکومت تا حال جمعیت علما اسلام کو 26ویں ترمیم کے حکومتی مسودہ پر قائل نہیں کر سکی بظاہر مولانا فضل الرحمٰن نے آئینی ترمیم پر حکومتی مسترد کر دیا ہے اور اپنا آئینی ترمیمی مسودہ تیار کرنے کا عندیہ دیا ہے کہا جا رہا ہے کہ کامران مرتضیٰ آئینی ترمیم کا 80فیصد مسودہ تیار کر چکے ہیں تاہم جمعیت علما اسلام کی جانب سے ایک خوش آئند بات بار بار کہی جارہی ہے کہ مولانا فضل الرحمٰن حکومت کے قریب آ گئے ہیں اور نہ ہی دور ہوگئے ہیں لہٰذا مولانا سوچ سمجھ کر فیصلہ کرنا چاہتے ہیں ان کو سب سے زیادہ اپنی سیاست کی فکر ہے وہ اپنی سیاست کو داغدار ہونے سے بچا کرہی ایسا فیصلہ کریں گے جو حکومت کیلئے قابل قبول ہو اور پی ٹی آئی بھی اسے سند قبولیت عطا کر دے لیکن یہ سوچ عملاً ممکن نظر نہیں آتی۔موجودہ صورتحال میں حکومت تنہا تمام محاذوں پر بر سر پیکار ہے پی ٹی آئی حکومت کو گرانے کیلئے بار بار اسلام آباد پر چڑھائی کر رہی ہے ۔وفاقی حکومت کو سب سے زیادہ دبائو کے پی کے کی طرف سے ہے جہاں خود وزیر اعلیٰ اپنے ''سیاسی لشکر'' کے ساتھ اسلام آباد پر حملہ آور ہو رہے ہیں انہیں سرکاری مشینری کی امداد حاصل ہے اور نے وفاقی و پنجاب حکومت کا ناطقہ بند کر رکھا ہے۔ پی ٹی آئی کی اعلیٰ قیادت اپنے کارکنوں کو ’’حالت جنگ‘‘ میں رکھنا چاہتی ہے اور وہ یہ سمجھتی ہے عمران کی رہائی کیلئے کارکنوں کا سڑکوں پر رہنا ضروری ہے ’’ابھی نہیں تو کبھی نہیں‘‘ ممکن نہیں ہو گا۔ اگرچہ پی ٹی آئی اپنے بیشتر ارکان کو وفاقی حکومت کی پہنچ سے دور لے جانے کیلئے کے پی کے لے گئی ہے تاہم پی ٹی آئی نے الزام عائد کیا ہے آئینی ترمیم کی منظوری کیلئے گنتی پوری کرنے کیلئے ان کے کچھ ارکان کو اٹھا لیا گیاہے جو اب کسی کے رابطے میں نہیں۔ پیپلز پارٹی آئینی ترمیم کی منظوری کا تاج اپنے سر سجانا چاہتی ہے لہٰذا وہ آئینی ترمیم کیلئے راہ ہموار کرنےمیں خاصی سرگرم ہے۔ پی ٹی آئی کی اعلیٰ قیادت یہ سمجھتی ہےکہ یہ سب کچھ عمران خان کوجیل میں رکھنے کیلئے کیا جا رہا ہے جب کہ مولانا فضل الرحمٰن ججوں کی مدت ملازمت میں 3، 3 سال کی توسیع کے خلاف ہیں اورحکومت کو یہ مشورہ دے رہے ہیں کہ اگر آئینی عدالت قائم کرنا اتناہی ضروری ہےتو یہ کام 26اکتوبر 2024کے بعد کر لیا جائے وہ چیف جسٹس سمیت ججوں کی تقرری میں وفاقی حکومت کے صوابدیدی اختیارات بڑھانے کے حق ہیں لیکن فوجی عدالتوں کے قیام اور ہائی کورٹس کے ججوں کے دوسری ہائی کورٹس میں تبادلے کے خلاف ہیں۔ فلسطینی عوام سے اظہارا یک جہتی بارے ایوان صدر میں منعقدہ کل جماعتی کانفرنس کے موقع پر صدر مملکت آصف علی زرداری، سابق وزیر اعظم محمد نواز شریف، وزیر اعظم شہباز شریف سے مولانا فضل الرحمٰن کی ملاقات کو غیر معمولی اہمیت حاصل ہے اس موقع پر مولانا فضل الرحمٰن سے ملاقات کرنے میں بلاول بھٹو زرداری اور اور سینیٹر محمد اسحاق ڈار بھی موجود تھے بظاہر یہ ملاقات رسمی نوعیت کی نظر آتی ہے لیکن چار بڑوں کی ملاقات میں آئینی ترمیم پر لا محالہ بات ہوئی ہو گی۔ 8فروری2024 کے انتخابات کا یہ المیہ ہے پی ڈی ایم- 1میں حکومت کے شراکت دار پی ڈی ایم۔2 میں بکھر گئے مولانا فضل الرحمٰن کو عام انتخابات میں سائز سکڑنے کا طاقت ور قوتوں سے گلہ تھا لیکن وہ اپنے سابق اتحادیوں کے طرز عمل سے بھی نالاں ہیں جنہوں نے خود تواہم عہدوں کی بندر بانٹ کر لی لیکن مولانا فضل الرحمٰن کو بھولے سے بھی یاد نہ کیا اب آئینی ترمیم منظور کرانے کا مرحلہ آیا تو ان کو مولانا کی یاد آگئی۔ حکومت کیلئے25 اکتوبر 2024ء کی تاریخ بہت اہم ہے خواجہ آصف بھی بین السطور موجودہ چیف جسٹس کی ریٹائرمنٹ کے بعد کی صورتحال کی سنگینی کا اشارتاً ذکر کر چکے ہیں۔ حکومتی حلقوں کی طرف سے یہ بات برملا کہی جار ہی ہے آئینی ترمیم میں حکومت کی جان اٹکی ہوئی ہے لہذا ہر صورت آئینی ترمیم منظور کرائی جائے گی۔ حکومتی کیمپ میں آئینی ترمیم کے حوالے سے ’’خاموشی‘‘ کے بعد سرگرمی دیکھنے میں آئی ہے پارلیمنٹ کی خصوصی کمیٹی کا اجلاس بھی طلب کر لیا گیا ہے چینی وزیر اعظم کے خطاب کیلئے پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس بھی بلا لیا گیا ہے حکومتی ارکان پارلیمنٹ کو اسلام آباد پہنچنے کی کال دے دی گئی ہے دوسری طرف پی ٹی آئی آئینی ترمیم کا راستہ روکنے کیلئے وزیر اعظم اورا سپیکر کے خلاف تحریک عدم لانے پر غور کر رہی ہے جس طرح 26ویں آئینی ترمیم موجودہ حکومت کیلئے زندگی اور موت کا معاملہ ہے پی ٹی آئی بھی اپنی ’’سروائیول‘‘ کی لڑائی لڑ رہی ہے ملاقاتوں کا سلسلہ جاری ہے سر دست کوئی لیڈر مولانا فضل الرحمٰن بارے پیشگوئی نہیں کر سکتا جو شخص مولانا فضل الرحمٰن بارے پیشگوئی کرنے کی صلاحیت رکھتا ہو وہ ''سیاسی ولی'' کے مرتبے پر فائز ہونے کا دعوے دار ہو سکتا ہے۔