پاکستان دنیا میں وہ واحد ملک ہے جہاں انکم ٹیکس نظام میں نان فائلرز یعنی ٹیکس نادہندگان کیٹگری پائی جاتی ہے جو 2013ءسے 2018ءمیں مسلم لیگ (ن) نے اپنے دور حکومت میں انکم ٹیکس قوانین میں تبدیلی کرکے متعارف کرائی تھی جس میں ٹیکس نیٹ سے باہر ٹیکس نادہندگان پر مختلف قسم کے ٹیکسوں کی شرح میں اضافہ کیا گیا تھا اور اس طرح پاکستان کے ٹیکس نظام میں فائلرز اور نان فائلرز کی علیحدہ علیحدہ کیٹگریز بنائی گئیں۔ ان کیٹگریز کے تحت اضافی ٹیکس دے کر نان فائلر کے طور پر کام کرسکتے ہیں جبکہ ملکی قوانین کے مطابق جس شخص کی سالانہ آمدنی 6 لاکھ روپے سے زیادہ ہو، وہ اپنا ٹیکس ریٹرن جمع کرانے کا پابند ہے لیکن نان فائلرز نے فائلر بننے کے بجائے اضافی ٹیکس دینے کو ترجیح دی جس کی مثال ریٹیلرز کیلئے FBR کی تاجر دوست اسکیم ہے جس میں تاجروں کی رجسٹریشن میں عدم دلچسپی ہے۔ اس کے علاوہ FBR نے اس سال Late Filer کی نئی کیٹگری متعارف کرائی ہے۔ FBR کے چیئرمین راشد محمود لنگڑیال کے مطابق 2023-24 میں 1330 ارب روپے ود ہولڈنگ ٹیکس کی مد میں براہ راست کٹوتی کی گئی جس میں سے 423 ارب روپے نان فائلرز کے تھے جو ڈکلیئرڈ نہیں کئے گئے۔ FBR کے مطابق پاکستان میں 60 فیصد سے زائد 67 ملین ورکرز جن کی سالانہ آمدنی 6 لاکھ روپے سے کم ہے، وہ انکم ٹیکس ادائیگی کے زمرے میں نہیں آتے۔ اس کے علاوہ بغیر آمدنی Nil انکم ٹیکس گوشوارے جمع کرانا بھی ایک سنگین مسئلہ ہے۔ مالی سال 2022 میں مجموعی ٹیکس فائلرز کی تعداد 5.2 ملین تھی جو 2023 میں بڑھ کر 6.2 ملین ہوگئی ہے اوراس سال جولائی سے ستمبر میں ریکارڈ 340473 نئے ٹیکس فائلرز رجسٹرڈ ہوئے ہیں۔ 2023 میں ان ٹیکس فائلرز میں سے صرف 1.1 ملین فائلرز نے اپنی آمدنی ظاہر کی جبکہ 2.7 ملین فائلرز نے Nil یعنی بغیر آمدنی انکم ٹیکس گوشوارے جمع کرائے اور قومی خزانے میں کوئی ٹیکس جمع نہیں کیا۔ FBR کے پاس لوگوں کے طرز زندگی کا ڈیٹا موجود ہے کہ کس کے پاس کتنی گاڑیاں ہیں، وہ سال میں کتنے بیرون ملک سفر کرتے ہیں، اسکولوں اور کلبوں کی فیسوں، فون، بجلی اور گیس کے بلوں کے ریکارڈ سے بھی اُن کی آمدنی اور اخراجات کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔
وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے ملکی معیشت میں اصلاحات کیلئے ٹیکس قوانین میں نان فائلرز کی کیٹگری ختم کرنے اور ٹیکس نہ دینے والوں پر 15 اقسام کی پابندیاں عائد کرنے کا فیصلہ کیا ہے جس میں پہلے مرحلے میں 5 پابندیاں لگائی جائیں گی جس کے تحت پراپرٹی، گاڑیاں، حج، عمرہ اور زیارتوں کے بین الاقوامی سفر، کرنٹ اکائونٹ اور میوچل فنڈز میں سرمایہ کاری پر پابندیاں شامل ہیں۔ نان فائلرز کو اپنے اکائونٹ سے 3 کروڑ روپے سالانہ سے زائد نقد رقم نکالنے کی اجازت بھی نہیں ہوگی تاہم انکم ٹیکس ریٹرن میں ایک کروڑ روپے سے زیادہ آمدنی دکھانے والے افراد گاڑی یا پلاٹ خرید سکیں گے۔ اس کے علاوہ IMF کے نئے پروگرام کے مطابق حکومت کو ریٹیلرز، ہول سیلرز، زراعت اور رئیل اسٹیٹ کے شعبوں کو ٹیکس نیٹ میں لانا ہوگا۔ اس سلسلے میں FBR کو ہدایت کی گئی ہے کہ ٹیکس ادا نہ کرنے والوں کو حراست میں لئے بغیر ٹیکس نیٹ میں لایا جائے۔
وزیر خزانہ کے مطابق پاکستان میں 9000 ارب روپے کی غیر دستاویزی معیشت ہے جس کو دستاویزی بناکر ملکی معیشت کو ڈبل ڈیجٹ کیا جاسکتا ہے۔2022-23 ءمیں GDP میں ٹیکس کی شرح 10 فیصد تھی جو 2023-24 میں کم ہوکر9فیصد ہوگئی ہے جبکہ ہمارے خطے میں GDP میں ٹیکس کی شرح 19 فیصد ہے۔ وزیراعظم شہباز شریف نے آئندہ 5 سال میں GDP میں ٹیکس کی شرح کا ہدف 15 فیصد رکھا ہے اور 2024-25 میں ٹیکس وصولی کا ہدف 12970 ارب روپے رکھا گیا ہے جو گزشتہ مالی سال کے 9306 ارب روپے کے مقابلے میں تقریباً 40 فیصد زیادہ ہے جسے حاصل کرنے کیلئے حکومت نے اضافی ٹیکس لگائے ہیں۔ پاکستان اور IMF ہر 3 ماہ بعد معاشی اور ٹیکس وصولی کے ہدف کا جائزہ لیتے ہیں۔ پاکستان کو جولائی، اگست اور ستمبر کے ٹیکس وصولی کے ہدف میں 96 ارب روپے کی کمی کا سامنا ہے جسے دوسری سہ ماہی میں پورا کرنا ہوگا لیکن ہدف پورا نہ ہونے کی صورت میں منی بجٹ غریب عوام کا مقدر ہوگا۔ منی بجٹ سے بچنے کیلئے حکومتی اخراجات میں کمی یا ترقیاتی اسکیموں میں کٹوتی سے شارٹ فال کو پورا کیا جاسکتا ہے۔IMF کی منیجنگ ڈائریکٹر کرسٹالینا جارجیوا نے واشنگٹن میں وزیراعظم شہباز شریف سے ملاقات میں پاکستان میں معاشی استحکام کیلئے این ایف سی ایوارڈ کا جائزہ، ٹیکسوں کی وصولی میں بہتری، حکومتی اخراجات میں کمی، خسارے میں چلنے والے حکومتی اداروں کی نجکاری، ٹیکس اور توانائی کے شعبوں میں اصلاحات، لائف اسٹائل کی بنیاد پر ٹیکس چوروں کو ٹیکس نیٹ میں لانے، توانائی کے شعبے میں GDP کا زیادہ سے زیادہ ایک فیصد اور صوبوں کو سبسڈی دینے پر پابندی پر زور دیا ہے۔ اس موقع پر انہوں نے پاکستان میں افراط زر اور کرنٹ اکائونٹ خسارے میں کمی، زرمبادلہ ذخائر اور ترسیلات زر میں اضافے اور بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کی کامیابی کو سراہا۔ وزیراعظم پاکستان نے اعتراف کیا ہے کہ IMF معاہدے اور دوست ممالک چین، سعودی عرب اور یو اے ای کی مالی امداد لینے میں آرمی چیف جنرل عاصم منیر نے اہم کردار ادا کیا جس پر قوم اُن کی مشکور ہے۔