• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

’’میں آپ کی نہایت ممنون ہوں کہ آپ نے خیبرپختونخوا کے بارے میں ایک دردمندانہ کالم تحریر فرمایا۔ اس کالم میں آپ نے کمال مہربانی سے شہید حکیم محمد سعید صاحب اور ہمدرد کی خدمات کا ذکر بھی فرمایا۔ آپ نے یہ سوال بھی اٹھایا کہ ہمدرد نے خیبرپختونخوا کے شہریوں کے سماجی رویوں، معاشرت، تعلیم اور خاص طور پر 1979ء سے اب تک کے نفسیاتی اثرات پر کوئی تحقیق کروائی ہے یا نہیں۔ اس سلسلے میں وضاحت کے طور پر عرض ہے کہ پاکستان ہسٹاریکل سوسائٹی کے زیر اہتمام شائع ہونیوالا ، جرنل آف دی پاکستان ہسٹاریکل سوسائٹی ، تاریخ کے موضوعات پر تحقیقی خدمات انجام دینے والا جریدہ ہے جس کی سر پرستی شہید حکیم محمد سعید صاحب نے 1978ء میں قبول فرمائی تھی۔ انہوں نے اس جریدے کو ایک مختصر نام ’’ہسٹار یکس‘‘ بھی دیا تھا۔

شہریوں کے نفسیاتی اثرات پر تحقیق، اس تحقیقی جریدے کے دائرہ کار میں نہیں آتی۔ تاہم، من جملہ دیگر موضوعات کے ، خیبر پختونخوا کے مختلف تاریخی پہلوؤں پر فکر انگیز مقالے اس جریدے میں شائع کیے جاتے رہے ہیں۔ ان کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ 2019ء سے 2024ء کے تیسرے اور تازہ ترین شمارے تک خیبر پختونخوا پر 14 مضامین، اس جریدے میں شائع کیے جاچکے ہیں۔ خیبر پختو نخوا کے آثار قدیمہ پر چار مضامین ان کے علاوہ ہیں۔ آپ کے ملاحظہ کیلئے ان مضامین کی فہرست منسلک ہے۔ جرنل آف دی پاکستان ہسٹاریکل سوسائٹی، الحمد للہ، 1953ء سے اب تک باقاعدگی سے شائع ہورہا ہے۔ اسکے مضامین میں نہ صرف خیبر پختونخوا بلکہ سندھ، پنجاب، بلوچستان حتیٰ کہ کشمیر کے تاریخی پہلوؤں کا بھی جائزہ لیا جاتا رہا ہے۔ پاکستان ہسٹاریکل سوسائٹی تو 2017ء میں اپنی 26 ویں پاکستان تاریخ کا نفرنس، پشاور میں منعقد کر چکی ہے، جس میں پاکستان کے اس شمال مغربی صوبہ سے تعلق رکھنے والے متعدد مقالات پیش کیے گئے۔ یہ چند سطور محض برائے وضاحت ہیں۔ ہمدرد تمام خدمات کسی غرض کے بغیر صرف اللہ کی رضا کیلئےانجام دیتا ہے۔ اس سلسلے میں کسی فخر و استکبار کا اظہار مطلوب نہیں۔‘‘

ان سطور کی شائستگی اور صراحت میں اس عظیم ہستی کی تربیت۔ اپنی عظیم سر زمین پاکستان سے گہری وابستگی حرف حرف واضح ہورہی ہے۔ آج کل تو یہ روایت ہی نہیں رہی کہ کسی کی تحریر پڑھنے کے بعد اس پر اظہار خیال کیا جائے۔ میں محترمہ سعدیہ راشد کا از حد شکر گزار ہوں کہ وہ اس عاجز کی سطور اتنی توجہ سے پڑھتی ہیں۔ خط کے ساتھ پاکستان ہسٹاریکل سوسائٹی کے جرنل کے انگریزی حوالہ جات پر مشتمل دو صفحات بھی موصول ہوئے ہیں۔خیبر پختونخوا اس وقت ہم سب پاکستانیوں کی فوری اور طویل المیعاد توجہ کا مستحق ہے۔ آفریں ہے خیبر پختونخوا کے ہم وطن کہ وہ ایک قومی جرگہ میں بلا امتیاز سیاسی وابستگی یکجا ہوئے۔ محاذ آرائی کے اس موسم میں انہوں نے قربتوں کی خوشبو بانٹی۔

آج 17 اکتوبر ہے۔ شہید پاکستان حکیم محمد سعید کو آج شہادت کا رتبہ نصیب ہوا۔ شہر قائد تو کیا پورا پاکستان، پورا بر صغیر لرز کر رہ گیا تھا کہ یہ کون سفاک ہیں جو علم کو قتل کرتے ہیں۔ جو تدبر کی جان لیتے ہیں۔ جو ایک مسیحا کو اپنے مریضوں کے پاس جانے نہیں دیتے۔ یہ زمانہ میاں نواز شریف کی وزارتِ عظمیٰ کا تھا۔ ہم کتنے بد قسمت ہیں کہ ایک مثالی پاکستانی کو ’’ پاکستان سے محبت کرو‘‘ کی مہم سے روکنےکیلئے اپنے کرائے کے قاتل استعمال کرتے ہیں۔

میں پاکستان کا ہم عمر ہوں بلکہ سات سال بڑا۔ میں نے بہت سے درد مند پاکستانیوں کی قربت سے بہت کچھ حاصل کیا ہے۔ پاکستان ایک خاکہ تھا جس میں ہمیں رنگ بھرنے تھے۔ ایک منصوبہ تھا جسے پایۂ تکمیل تک پہنچانا تھا۔قائد اعظم کی بیماری کے باوجود ان کی شبانہ روز کی محنت کا ثمر تھا۔ جس کی مٹھاس اور غذائیت ہمیں آتی نسلوں تک پہنچانا تھی۔ چند ایک ہی ایسی سعید روحیں ہمیں نصیب ہوئیں۔ جن کے سامنے مبسوط لائحہ عمل تھا۔ جس پر انہوں نے درجہ بدرجہ کام کیا۔

حکیم محمد سعید ان ہی چند پاکستانیوں میں سے تھے۔ جنہوں نے پاکستان میں قدم دھرنے سے لے کر قدم اکھڑنے تک ہر سانس ہر قدم پاکستان میں ’قوت و اخوتِ عوام‘ کی طرف بڑھایا۔ سایۂ خدائے ذوالجلال میں تنہا نہیں کھڑے ہوئے لاکھوں نونہالوں کیلئے اسلام آباد، کراچی، لاہور، پشاور، کوئٹہ میں ہمدرد نونہال اسمبلیاں منعقد کیں۔ انہیں پرائمری تعلیم کی اہمیت کا احساس تھا۔ وہ اسے ایک مضبوط، مستحکم ریاست کا نقطہ آغاز سمجھتے تھے۔ انہوں نے پہلے نو عمر پاکستانیوں کے ذہنوں میں پاکستان جانشین کیا۔ بچوں کی قوت ناطقہ اور قوت تحریر کو متحرک کیا۔ نوجوانوں، بزرگوں کیلئے ’’شام ہمدرد‘‘ کا اہتمام بھی ان تمام شہروں میں کیا۔ قائد اعظم کی قیادت میں ایک الگ وطن مل چکا تھا۔ اب مرحلہ تھا کہ تحریک پاکستان کا توسیعی عمل اپنی منزل تک پہنچایا جائے۔ وہ کوئی بھی اعلیٰ ترین سرکاری عہدہ حاصل کرسکتے تھے۔ پھر اس میں توسیع کے حصول کیلئے سرگرم ہوسکتے تھے۔ وہ بھی نادیدہ قوتوں کی شفقت کا لطف اٹھاسکتے تھے۔ لیکن انہیں احساس تھا کہ وہ جس مقصد کیلئے زمین پر اتارے گئے ہیں۔ اس کا حصول ان کی مستعار زندگی کا نصب العین ہے۔ اور بھی بہت سی شخصیتیں پاکستان کے مختلف صوبوں میں ایسی نظر آتی ہیں۔ جنہوں نے کسی نہ کسی شعبے میں ایسی بے لوث کوششیں کیں۔

کسی نے بڑا اسپتال قائم کیا۔، کسی نے ایک یونیورسٹی، کسی نے دینی مدرسے، کسی نے ٹیکسٹائل مل لگائی، کسی نے لڑکیوں کیلئے یونیورسٹی کی بنیاد رکھی۔

حکیم محمد سعید نے ریاست پاکستان کی تکمیل کیلئے ایک ہمہ گیر لائحہ عمل ترتیب دیا۔ صرف جسم کی حفاظت نہیں، ذہن کی آبیاری،پاکستانیت کی کاشت کی، گود سے گور تک ایک پاکستانی کا روڈ میپ کیا ہونا چاہئے۔ وہ ترتیب دیا۔ ’نونہال‘۔ (جریدہ بھی۔ دوا بھی) سے مدینۃ الحکمت تک ۔ صرف بیان، تقریر نہیں، عمل صرف عمل۔

حکیم محمد سعید واہگہ سے گوادر تک دلوں میں بستے ہیں ذہنوں میں گونجتے ہیں۔ سعدیہ راشد بھی محترم اور مکرم اسی لیے ہیں کہ وہ اس عظیم پاکستانی کی مشعل کو روشن رکھے ہوئے ہیں۔ ایسی ہستیوں کا خلا پُر تو نہیں کیا جاسکتا۔ لیکن ان کی میراث سے روشنی تو نسل در نسل پہنچائی جاسکتی ہے۔ اب نکتہ آفرینی کا دَور ہے۔ حکیم محمد سعید جس ترتیب سے آگے بڑھ رہے تھے وہ ڈیجیٹل کی دنیا میں داخل ہورہے تھے۔ اب تربیت اور اجالا۔ نکتے(Digit) میں ہے۔ ہمدرد یونیورسٹی، اس منتشر قوم کو ڈیجیٹل علوم کے ذریعے آتے چیلنجوں کا مقابلہ کرنے کی تربیت دے۔حکیم محمد سعید کی حکمت، فکر کا دائرہ ساری اسلامی دنیا تک پہنچنا چاہئے۔ اللہ تعالیٰ سب پاکستانیوں کو ان کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق دے۔

تازہ ترین