• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پارلیمان کی خصوصی کمیٹی میں منظور مسودے کی تفصیلات سامنے آگئیں


پارلیمان کی خصوصی کمیٹی میں منظور مسودے کی تفصیلات سامنے آگئیں، مسودے میں آرٹیکل 175 اے میں ترمیم تجویز کی گئی۔

مسودے کے متن میں کہا گیا کہ چیف جسٹس پاکستان کی تقرری خصوصی پارلیمانی کمیٹی کرے گی، خصوصی پارلیمانی کمیٹی سپریم کورٹ کے 3 سینئر ترین ججز میں سے ایک کو نامزد کرے گی، سپریم کورٹ کے ججز کی تعیناتی کیلئے جوڈیشل کمیشن کی تشکیل نو ہوگی، چیف جسٹس جوڈیشل کمیشن کے سربراہ ہوں گے۔

متن میں کہا گیا کہ سپریم کورٹ کے 4 سینئر ترین ججز جوڈیشل کمیشن کے ارکان ہوں گے، جوڈیشل کمیشن میں وفاقی وزیر قانون اور اٹارنی جنرل، پاکستان بار کونسل کا ایک نمائندہ ہوگا، قومی اسمبلی اور سینیٹ سے 2، 2 ارکان جوڈیشل کمیشن کے رکن ہوں گے، جوڈیشل کمیشن میں قومی اسمبلی اور سینیٹ سے حکومت اور اپوزیشن کا ایک ایک نمائندہ لیا جائے گا۔

ججز تعیناتی کے کمیشن میں ایک خاتون یا غیرمسلم رکن ہوں گے، یہ خاتون یا غیر مسلم سینیٹ میں ٹیکنوکریٹ کا الیکشن لڑنے کے اہل ہونے چاہئیں، ایسی خاتون یا غیر مسلم کی بطور رکن تقرری چیئرمین سینیٹ کریں گے۔

مجوزہ 26ویں آئینی ترمیم کے نئے مسودے میں 26 ترامیم شامل کی گئی ہیں، نئے مسودے میں ایک بار پھر آئینی بینچ تشکیل دینے کی تجویز دی گئی ہے، جوڈیشل کمیشن آئینی بینچز اور ججز کی تعداد کا تعین کرے گا، آئینی بینچز میں جہاں تک ممکن ہو تمام صوبوں سے مساوی ججز تعینات کیے جائیں گے، آرٹیکل 184 کے تحت از خود نوٹس کا اختیار آئینی بینچز کے پاس ہوگا، آرٹیکل 185 کے تحت آئین کی تشریح سے متعلق کیسز آئینی بینچز کے دائرہ اختیار میں آئیں گے۔

چیف جسٹس کے تقرر کے لیے پارلیمانی کمیٹی 12 رکنی ہوگی، کمیٹی میں 8 ارکان قومی اسمبلی، 4 ارکان سینٹ شامل ہوں گے،  پارلیمانی کمیٹی میں تمام پارلیمانی جماعتوں کی متناسب نمائندگی ہوگی۔

مسودے کے متن میں کہا گیا کہ پارلیمانی کمیٹی کی سفارش پر چیف جسٹس کا نام وزیراعظم صدر مملکت کو بھجوائیں گے، کسی جج کے انکار کی صورت میں اگلے سینیئر ترین جج کا نام زیر غور لایا جائے گا، چیف جسٹس آف پاکستان کی مدت تین سال ہوگی ، چیف جسٹس کے لیے عمر کی بالائی حد 65 سال مقرر کرنے کی تجویز دی گئی ہے، آرٹیکل 184 تین کے تحت سپریم کورٹ اپنے طور پر کوئی ہدایت یا ڈیکلیریشن نہیں دے سکتی، آرٹیکل 186 اے کے تحت سپریم کورٹ ہائیکورٹ کے کسی بھی کیس کو منتقل کر سکتی ہے، سپریم کورٹ ہائیکورٹ کے کسی بھی کیس کو کسی دوسری ہائیکورٹ یا اپنے پاس منتقل کر سکتی ہے، ججز تقرری کمیشن ہائی کورٹ کے ججز کی سالانہ کارکردگی کا جائزہ لے گا۔

قومی خبریں سے مزید