• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ملک میں آئینی عدالت کے قیام کی اچانک ضرورت بہت سے ذہنوں میں ایک اجنبی اور مبہم تصور کے ساتھ ابھری ہے۔شاید اس کے پیچھے وہ ہوم ورک نہیں جو26ویں آئینی ترمیم کا ٹھوس جواز بنے۔آئینی عدالتیں کثیرالجہتی دائرہ اختیار کے ساتھ ترقی یافتہ ملکوںمیں موجود ہیں جہاں متعدد امورسیاسی جماعتوں کی ہنگامہ آرائی یا مخالفت و مخاصمت سے بالا تر ہوکرعظیم تر قومی مفاد میں انجام پاتےہیں۔ آئینی ترامیم کیلئے حکومت کے پاس پارلیمنٹ میںدوتہائی اکثریت کا ہونا شرط ہےتاہم ایوان میںبیٹھی سیاسی جماعتوں کے مابین وہ سنجیدگی اور متانت کی فضادکھائی نہیں دیتی ،جس کی ضرورت ہے۔ تازہ ترین اطلاعات کے مطابق درپیش حالات کے تناظر میں حکومت اس نتیجے پر پہنچی ہے کہ وفاقی آئینی عدالت کے قیام کا پروگرام ترک کرتے ہوئے آئینی پیکیج کی شکل یکسر بدل دی جائے۔ ساتھ ہی تجویز پیش کی گئی ہے کہ سپریم کورٹ کے نئے چیف جسٹس کی تقرری عدالت عظمیٰ کے تین سینئر ترین ججوں میں سے کی جائے۔مسودے میں پارلیمانی کمیٹی کو اختیار دیا گیا ہے کہ وہ چیف جسٹس کے تقرر کیلئے تینوں نام وزیراعظم کو پیش کرے گی۔اس کے ساتھ ہی سپریم جوڈیشل کمیشن اور پارلیمانی کمیٹی کی تشکیل نو کی بھی تجویزہے۔ سپریم جوڈیشل کمیشن کی تشکیل حکومت یا چیف جسٹس کی بجائے آئینی بینچ کےتوسط سےہوگی،جو 6ججوں اور 7غیر ججوں پر مشتمل ہوگا ۔ان میں وزیرقانون،اٹارنی جنرل، سپریم کورٹ کا ایک ریٹائرڈ جج اوروکلا کمیونٹی اور پارلیمنٹ کے نمائندے شامل ہوں گےجبکہ پارلیمانی کمیٹی کی تشکیل میں سیاسی جماعتوں کی نمائندگی بلحاظ تناسب رکھنے کی تجویز ہے۔ججوں کی تقرری کیلئے جو طریق کار 18ویں ترمیم کا حصہ تھا،جسے بعد میں سپریم کورٹ کی مداخلت کے بعد 19ویں ترمیم میں تبدیل کردیا گیا تھا،اسے دوبارہ متعارف کرایا جائے گا۔سروسز چیفس کی تقرری(بشمول توسیع)کیلئے موجودہ طریق کار کو تحفظ دینے کی بھی تجویز ہے۔ایک اور ترمیم کے تحت کسی بھی شخص کیلئے رکن پارلیمنٹ منتخب ہونے کے 90دن تک دوہری شہریت رکھنے کی اجازت دی گئی ہے۔اس کے بعد اسے اپنی نشست سے استعفیٰ دینا ہوگا یا غیرملکی شہریت ترک کرنا ہوگی۔یہ دعویٰ کیا جارہا ہے کہ ان تجاویز میں مطلوبہ اپوزیشن ارکان کی رضامندی شامل ہے۔ آئینی عدالت ہو یا سپریم کورٹ میں ایک علیحدہ آئینی بینچ،دونوں کے قیام کے مقاصد میں قانون کی حکمرانی اورآئین کی بالادستی بہر صورت مقدم اور ملک وقوم کے بہترین مفاد میں ہونی چاہئے۔ان حالات میں کہ ملک کی ضلعی اور اعلیٰ عدالتوں میں لاکھوں مقدمات سالہا سال سے التوا میں پڑے ہیں۔ مالی وسائل نہ ہونے کے باعث غریب آدمی انصاف کے حصول کیلئے عدالت کا دروازہ نہیں کھٹکھٹا سکتا۔نامور قانونی ماہرین کے بقول،ایک دیوانی مقدمے کو حتمی فیصلے تک پہنچنے میں اوسطاً25سال درکار ہوتے ہیں۔اس کی ایک توضیح یہ بھی ہے کہ ملک میں سیاسی اور آئینی مقدمات کی ایک طویل تاریخ چلی آرہی ہے جنھیں نمٹانے میں اعلیٰ عدالتوں کا بیشتر وقت صرف ہوجاتا ہےبعض حالات میںانھیں حکومتی دبائو کا سامنابھی کرنا پڑاجبکہ پارلیمان کا بھی سارا سیشن سیاسی گتھیاں سلجھانے میں گزرجاتا ہے۔ان دونوں معزز ایوانوں میں عوامی نوعیت کے متعدد مقدمات اور مسودےسالہا سال سے انصاف کے بروقت حصول اور قانون سازی کے منتظر ہیں،جس کیلئے عدالتی کے ساتھ پارلیمانی اصلاحات بھی ہونی چاہئیں۔ معاشی ترقی،عام آدمی کی فلاح و بہبود ،صحت اور تعلیم سمیت بہت سے سماجی شعبوںمیں وطن عزیزدوسرے ممالک سے پیچھے رہ گیا ہے ۔حقیقت میں ان کے پیچھے تمام خامیوں سے پاک نظام کی ضرورت ہے۔

تازہ ترین