قارئین کرام! آپ گواہ ہیں کہ موجود جاری اور شدت اختیار کئے گئے ملکی سیاسی، آئینی و معاشی بحران کے آغاز (اپریل 2022) سے ہی ’’آئین نو‘‘ میں وقفے وقفے سے مسلسل تادم یہ واضح کرنے کی اپنی سی کوشش کی جاتی رہی کہ سیاسی حکومت اور سیاسی جماعتیں سمجھیں اور سنجیدگی سے متوجہ ہوں کہ ہم جس سیاسی و معاشی بحران میں ہیں اس پر مایوس نہ ہوا جائے، عالمی سیاست کے بنتے پیراڈائم شفٹ پر قومی معیشت کی زبوں حالی سے جہاں پاکستان آئی ایم ایف کا بڑا مقروض بن کر جکڑا جا رہا ہے،عین اسی وقت قدرت عالمی و علاقائی سیاست کے تغیرات میں پاکستان کو اس کے جملہ بحرانوں کے باوجود اس کی جائے وقوع ظہور پذیر جیو اکنامک اسٹیٹس اینڈ پولیٹکل اسٹیٹس کو بہت زیادہ کیشن ایبل اور مارکیٹ ایبل بنا رہی ہے۔ بڑی معاشی و عسکری طاقتوں کی معیشت اور قومی سلامتی کے مفادات پاکستان سے جڑتے جا رہے ہیں۔ راہداری کی سہولتوں اور عالمی انرجی کو ریڈور کے حوالے سے ہمارا امکانی امتیاز دنیا پر مکمل واضح ہے۔ جدید دنیا داری کے حوالے سے یقیناً یہ صورت پاکستان کی مارکیٹنگ کے روشن امکانات ہیں لیکن حقیقت میں یہ حسب معمول مملکت خداداد کو بڑے سے بڑے ہر بحران سے نکالنے اور ہماری بحیثیت حکومت و قوم تمام تر منفی کرتوتوں کے مہلک شاخسانے نکلنے کے ساتھ ساتھ، کتنی بڑی اور بروقت مدد خدا ہے کہ پاکستان اپنے جنوبی ایشیائی خطے کے علاوہ دنیا کے دو اور اہم ترین ریجنز سنٹرل ایشیا اور مڈل ایسٹ کیلئے انکے اپنے قومی مفادات کے حوالے سے اہم ترین اپنے قیام سے ہی امتیازی ملک تھا اور اب مزید بن چکا۔ خود چین اور اب روس کیلئے بھی اس کی اہمیت اور حیثیت کو نظر انداز کیا ہی نہیں جا سکتا۔ یقیناً روایتی عالمی سیاست کے برعکس اب پیراڈائم شفٹ میں جاتی دنیا میں پاکستان اپنے داخلی سیاسی بکھیڑوں میں جتنا بھی خود کو مفلوک ومجبور و بے بس و بے کس سمجھے، جیساکہ عوام تو ہے، اور حکمرانوں کی تو جتنی عدم دلچسپی سیاسی استحکام لیڈز ٹو بحالی معیشت میں ہے اس میں شفاف آئینی پریکٹس اور سیاسی استحکام کے ذرائع کو بخوبی سمجھنے کے باوجود آئین پاکستان سے جو کھلواڑ کیا جا رہا ہے وہ پیدا ہوئے مواقع اور روشن امکانات میں رکاوٹوں اور انہیں معدوم کرنے کا سبب بنا اور رہے گا۔
وہ پاکستانی جو قیام پاکستان کی تحریک کے نظریے و مقاصد، اور بعد از قیام مملکت کو درپیش حوادث، بحرانوں اور پوٹینشل و حصولات و کردار کے حوالے سے اسے واقعی اب بھی مملکت خداداد سمجھتے ہیں انہیں یقین ہے کہ حال ہی میں اسلام آباد میں ہونے والی شنگھائی کوپریشن آرگنائزیشن کانفرنس ایک ایسا ہی قدرتی موقع ہے جو پاکستان کوحاصل ہوا۔ اس کانفرنس کا انعقاد، وقت اور صورتحال کے تقاضوں کے مطابق ہوا اور میزبانی کانفرنس کی اہمیت اور محترم مہمانوں کے مقام کے مطابق ہوئی، جو قابل تحسین ہے۔ تاہم اس کے ایمی جیٹ بیک گرائونڈ میں اور دوران بھی آئین کی دھجیاں تو اڑتی رہیں اس پر زیادہ بات اور تجزبہ کیا جائے تو راقم الحروف سیاسی رنگ میں رنگی آئینی ترمیم کی آڑ میں عملی سیاست کی جاری سیاسی دھما چوکڑی کے نوٹس میں چلا جائے گا جو ہر گز اس تحریر کا حوالہ نہیں لیکن شنگھائی آرگنائزیشن کے اسلام آباد اجلاس کے میسج نے ’’آئین نو‘‘ کے دو سال سے اختیار کئے گئے اس بیانئے کہ ’’بحران سے نجات بذریعہ ملکی (واضح ہو گئی) جیو اکنامک اینڈ پولیٹکل پوزیشن‘‘ کے درست ہونے کی واضح تصدیق کی ہے، جس کے فالو اپ کا بلا رکاوٹ جاری رہنا اور نتیجہ خیز ہونا بھی یقینی ہے۔ اس فالو اپ میں پاکستان کا رول بہت بڑا اور ناگزیر ہے جسے ہماری موجود ہر دم اپنی متنازع بقا کی فکر میں مبتلا حکومت اور عوام الناس کے مکمل متنازع منتخب ایوان پر ایٹ لارج عدم اعتماد اور سیاسی عدم استحکام کے بن گئے ذریعے کے ساتھ نتیجہ خیز بنا سکے گی؟ واضح رہے اگر مواقع کے ساتھ آئین سے مسلسل کھلواڑ، سیاسی عدم استحکام اور عوام کی ابتری کے ساتھ جھولی میں آ گرے مواقع کو اس ماحول میں نتیجہ خیز نہ بنایا جا سکے گا جبکہ ہمارے ساتھ جن ملکوں کا اپنا استحکام و خوشحالی جڑ گئی ہے وہ ہماری موجودہ تمام تر ابتری کو خوب سمجھتے اور منتظر متفکر ہیں کہ پاکستان جو اب ہمارا اہم ترین حلیف ہے اسکے داخلی حالات حاضرہ کب سنبھل کر ہمیں اور پاکستان کو باہمی مفادات کے حصول کی راہ پر ڈالیں گے؟
سچی بات یہ ہے تمام ہی اسٹیک ہولڈر اس تلخ حقیقت کو بخوبی سمجھ کر بھی راہ راست پر آنے سے گریزاں ہیں، یہ کہ:آئین پاکستان موجود گھمبیر پاکستان جس میں ابتری و اضطراب کا غلبہ ہے۔ تمام تر پوٹینشل، عوام کی 8فروری کو دکھائی گئی ملک کے مستقبل کے حوالے سے حوصلہ افزائی اور متذکرہ قدرتی اور پیراڈائم شفٹ حاصل مواقع کے باوجود متنازع حکومتی سیاسی بدمستی اور تیز تر ہوتے واضح امکانی ارتقا میں رکاوٹ بن گئے ہیں۔ بہاں تو ترقی کے دروازے کھولنے کی بات ہے پاکستان کمال کی حاصل زرعی و صنعتی ترقی کے ریورس ہونے کے تلخ ترین تجربات ایسی ہی غیر آئینی و غیر جمہوری رکاوٹوں کے نتائج سے حاصل کر چکا ہے۔
اب تو ووٹ کی عزت کی دہائی نہیں، جو ہمارے اسٹیٹس کو میں فقط انتخابی مہم کے دوران ہی ایک ڈیڑھ ماہ کی عمر پاتی تھی۔ لیکن اب عوام نے ازخود حاصل کر لی جسے سبوتاژ کرنے کی حکومتی مزاحمت جاری ہے۔ اس وقت تو آئین کے بے توقیر اور اس سے حکومتی کھلواڑ کا مسئلہ پھر پیدا ہو گیا ہے۔ اللہ بھلا کرے مولانا صاحب کا برسوں کی دنیا داری کی عملی اور عوام سے بے نیاز مفاہمتی سیاست، (آئی پی پیز کے معاہدے اور حج اور گندم سکینڈلز ثبوت) سے توبہ کرکے وہ 8فروری کے انتخابات کو پلٹتے ہی عوامی مینڈیٹ کے اتنے بڑے سرقے پر محافظ آئین بن کر مزاحمت کی علامت بن گئے ہیں۔ اپنا سیاسی رکھ رکھائو اور رواداری کو برقرار رکھ کر اب وہ ہی حفاظت آئین کی جدوجہد کے مرکز و محور بن گئے ہیں۔ ابھی تو جوڈیشل کونسل اور پارلیمانی کمیٹی کے ذریعے چیف جسٹس کی تقرری سے بھی سیاسی استحکام اور احترام و حفاظت آئین اور سیاسی استحکام حاصل نہ ہوگا۔ سپریم کورٹ کو موجود حیثیت میں آزاد و خود مختار رکھ کر ہی شفاف و جائز پارلیمانی وجود کے بغیر کوئی ترمیم نہ کی جائے۔ پارلیمان کےعوامی سطح پر قبول ہونے کے بعد بھی ترمیم کا معاملہ غیر جانبدار اور آزاد و فعال ججز تقرر کیلئے ترمیم کی جائے جو تقرری کے یقینی نتیجہ خیز ہونے والے TORs بنانے کے حوالے سے اور متفقہ ہو۔ اصل ضرورت عدلیہ کو آئین کی تشریح کا اختیار جاری رکھتے ایک ایسی الگ سے مانیٹرنگ باڈی کا قیام ہے جسے مکمل آئینی شیلٹر ہو اور یہ کل آئینی پریکٹس کی مانیٹرنگ کا کام کرے، اس کی خلاف ورزی یا غلط طورپر پریکٹس ہونے کی نشاندہی پارلیمان اور سپریم کورٹ بیک وقت کرے۔ ایسی خود مختار باڈی آئین کے ماہر ٹیکنو کریٹس، پروفیسرز آف کانسٹی ٹیوشن آف اینڈ لا اور نظام عدل و انصاف میں آئین و قانون کی فلاسفی پر دسترس رکھنے والے جوڈیشل اسکالرز پر مشتمل ہونی چاہئے۔ وما علینا الالبلاغ۔