انڈین پرائم منسٹر نریندر مودی کی تمام تر جدوجہد کے باوجود مقبوضہ کشمیر کے حالیہ الیکشن میں انکی بی جے پی کو بدترین شکست سے دوچار ہونا پڑا ہے بی جے پی جس طرح اس سال منعقد ہونے والے لوک سبھا کے الیکشن میں مسلم میجارٹی ریاست کشمیر سے کوئی سیٹ نہیں جیت سکی تھی اسی طرح ریاستی اسمبلی کے حالیہ الیکشن میں اسے حکومت بنانے کیلئے مطلوبہ کامیابی نہیں مل سکی جبکہ ہریانہ اسمبلی چناؤ میں وہ سنگل پارٹی کی حیثیت سے اسی واضح کامیابی سے جیتی ہے جو جموں و کشمیر میں نیشنل کانفرنس اور کانگریس نے مشترکہ طور پر حاصل کی ہے ہر دو اسمبلیاں نوے نوے کے ہاؤس پر مشتمل ہیں ہریانہ میں بی جے پی کو48 اور کانگریس کو 36سیٹیں ملی ہیں جبکہ جموں و کشمیر اسمبلی میں بی جے پی کا اصل مقابلہ کانگریس سے نہیں شیخ عمر عبداللہ کی نیشنل کانفرنس سے تھا جنہوں نے راہول گاندھی کی کانگریس پارٹی سے اتحاد کرتے ہوئے 32سیٹوں پرکانگریس کو سپورٹ کیا بدلے میں کانگریس نے 51سیٹوں پر نیشنل کانفرنس کی حمایت کی یہ الیکشن یکم اکتوبر کو منعقد ہوئے اور انکے نتائج کا اعلان آٹھ اکتوبر کو ہوا نیشنل کانفرنس نے بہت بڑی کامیابی سمیٹتے ہوئے 42 جبکہ کانگریس پارٹی نے محض چھ نشستیں حاصل کیں جن کے ملاپ سے 46کا ہندسہپار کرتے ہوئے کل سیٹیں 48ہو گئیں جبکہ بی جے پی کو ٹوٹل 29نشستیں ملیں جو زیادہ تر جموں ایریا سے تھیں، سب سے بڑی شکست پی ڈی پی کی محبوبہ مفتی کو ہوئی جو محض چار نشستیں حاصل کر سکیں حالانکہ پچھلے دور میں بی جے پی سے مل کر انہوں نے کشمیر میں حکومت بنائے رکھی تھی اس انتخابی مہم میں محبوبہ مفتی نے کٹر مسلم ووٹ کو کھینچنے کیلئے اچھے خاصے بھڑکاؤ بھاشن دیے اور مسئلہ فلسطین کو بھی برے اسلوب میں اٹھایا اسکے باوجود کشمیری عوام نے انہیں مسترد کر دیا ۔
یوں شیخ عبداللہ کے پوتے شیخ عمر فاروق عبداللہ اپنی اتحادی کانگریس پارٹی سے مل کرریاستی حکومت بنانے میں کامیاب ہو گئے ہیں ابھی 16اکتوبر کو انہوں نے جموں وکشمیر کے چیف منسٹر کا حلف اٹھایا تو ان کی تقریب میں کانگریس رہنما راہول گاندھی پریانکا گاندھی محبوبہ مفتی سماج وادی پارٹی کے صدر اکھلیش یادو سمیت مختلف سیاسی پارٹیوں اور کشمیری رہنماؤں نے شرکت کی۔ نریندرمودی نے عمر عبداللہ کو وزارت عالیہ کا حلف اٹھانے پر مبارکباد دیتے ہوئے کہا کہ جموں و کشمیر کی ترقی کیلئے ہم ان کی ٹیم کے ساتھ مل کر کام کرنے کی خواہش رکھتے ہیں شیخ عمر فاروق عبداللہ اس سے پہلے بھی جموں و کشمیر کے وزیراعلیٰ رہ چکے ہیں لیکن تب وہ پرانے والے کشمیر کے چیف منسٹر تھے اور تب انہوں نے حلف بھی کشمیری آئین کے تحفظ کا اٹھایا تھا آئین کا آرٹیکل 370ہٹنے کے بعد ہونے والے پہلے چناؤ میں کامیابی کے بعد اب انہوں نے 16اکتوبر کو جو حلف اٹھایا ہے وہ انڈین آئین کے تحفظ کا ہے کیونکہ 370ہٹنے کے ساتھ ہی کشمیری آئین منسوخ ہو چکا ہے۔ بیس پچیس برس قبل جب ہمارے کچھ لوگوں کی دعوت پر میر واعظ عمر فاروق لاہور آئے تو درویش بھی اس تقریب میں مدعو تھا اور انکے برابر میںہی براجمان تھا۔ میزبانوں نے ان سے سوالات کرنے کی اجازت نہ دی تو قدرے تلخی و تناؤ بھی ہوا درویش نےاحتجاج کرتے ہوئے کہا کہ میں یہاں کھانا کھانے نہیں کچھ جاننے پوچھنے اور سمجھنے آیا ہوں۔ تقریب کے اختتام پر میر واعظ نے خود آگے بڑھ کر نہ صرف یہ کہ درویش سے ہاتھ ملایا بلکہ حال احوال بھی پوچھا، اس ناچیز نے میر واعظ عمر فاروق سے کہا کہ میر واعظ صاحب مجھے کشمیری قیادت میں صرف دو لیڈر پسند ہیں اور آپ کے علی گیلانی تو بالکل پسند نہیں ، بولے پسند کون ہیں؟ کہا کہ ’’دونوں عمر فاروق‘‘ اورمیری یہ تمنا ہے کہ ان دونوں میں کسی بھی طرح اشتراک پیدا ہو جائے اس پر میر صاحب کچھ کہے بغیر مسکراتے ہوئے آگے بڑھ گئے۔ تاہم آج تک اس امر کا افسوس ہے کہ ہمارے لوگوں نے مجھے ان سے سوالات کیوں نہیں کرنے دیے تھے! بہر کیف امر میں کوئی اشتباہ نہیں کہ کشمیر ی نوجوانوں میں بہتر روزگار اور نوکریوں کے حوالے سے ایک نوع کا احساس محرومی ہے جس کی جڑیں کئی دہائیوں سے جاری بدامنی میں پیوست ہیں آج کشمیر کے حوالے سے حکومت کیلئے سب سے بڑا چیلنج یہ ہے کہ وہ جموں و کشمیر میں آئی ٹی اور انڈسٹری کو بڑھاوا دے اس سے وادی میں جہاں روزگار کی بہتری آئے گی وہیں امن و سلامتی کو بھی تقویت ملے گی۔ کشمیر میں بی جے پی ہمارے عرب مسلم ممالک کے ذریعے زیادہ سے زیادہ انویسٹمنٹ کروا رہی ہے جس طرح سڑکیں اور فائیو سٹار ہوٹلز بن رہے ہیں یوں محسوس ہوتا ہے کہ وہ کشمیر کو عالمی سیاحتی مقام بنانے پر تلی بیٹھی ہے۔ ایک دلچسپ امر یہ بھی ہے کہ سوائے بی جے پی کے انڈین کانگریس نیشنل کانفرنس اور محبوبہ مفتی کی پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی سبھی کا ایجنڈا ہے کہ ہم آئین کے آرٹیکل 370کی دوبارہ بحالی کروائیں گے جو بھارتی پارلیمنٹ میں ٹو تھرڈ مجارٹی حاصل کیے بغیر ممکن نہیں، انڈین سپریم کورٹ بھی اپنےمتفقہ فیصلے میں اس پر مہر لگا چکی ہے اگر حالات اسی طرح آگے بڑھتے گئے تو اس نوع کے مطالبے میں کیا دم رہ جائے گا؟