قدر پرواز
نئے سیمسٹر کے آغاز سے قبل ہم نے اور ہماری دو کلاس فیلوز نے تہیّہ کیا تھا کہ اس بار سیمسٹر کے اختتام پر کسی صنفِ مخالف پر تکیہ کرنے کی بہ جائے ہم خود اپنے پراجیکٹس تیار کریں گی اور اب ہم مائکرو پروسیسر لیب میں چار ہزار روپے کی لاگت سے تیار ہونے والے اپنے ’’گاڑی نُما پراجیکٹ‘‘ کی جانب اُمید بَھری نگاہوں سے دیکھ رہے تھے اور اس کی کسی ایک بھی بتّی کے روشن ہونے کے منتظر تھیں، مگر ہمیں مایوسی کا سامنا کرنا پڑا۔
سو، اپنی کئی روز کی محنت اور سرمایہ اکارت جاتے دیکھ کر ہم نے برائے نام وائیوا دے کر اس پراجیکٹ سے جان چُھڑوانے کا فیصلہ کیا۔ تاہم، اس سے بھی زیادہ صدمہ ہمیں اس بات پر ہوا کہ ہمارے ساتھ کھڑی ’’محترمائوں‘‘ نے ہماری اس نام نہاد ’’روبوٹک کار‘‘ کو ہاتھ لگانا تک گوارا نہ کیا۔
بہر کیف، جب ہم تینوں لیب انسٹرکٹر کے آفس میں، جو کسی کباڑیے کی دُکان کا منظر پیش کر رہا تھا، داخل ہوئیں، تو میڈم نے پہلا سوال یہی کیا کہ ’’یہ پراجیکٹ کام کیوں نہیں کر رہا؟‘‘ جس پر ہماری ایک کلاس فیلو کے منہ سے بے ساختہ نکلا، ’’کیوں کہ یہ ہم نے خُود بنایا ہے…‘‘ واضح رہے کہ مذکورہ طالبہ کا جی پی اے تین اعشاریہ چھے کے قریب تھا اور اس واقعے سے انجینئرنگ کی ایک لائق طالبہ کی ’’رٹّا لگانے کی صلاحیت‘‘ کا بہ خوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ انجینئرنگ کے شعبے میں خواتین کا تناسب مَردوں کے مقابلے میں خاصا کم ہے۔ بیش تر طالبات پری انجینئرنگ ہی تک محدود رہتی ہیں اور ایف ایس سی کے بعد اپنی فیلڈ تبدیل کر لیتی ہیں ، جب کہ اگر خوش قسمتی سے کسی طالبہ کو کسی معیاری انجینئرنگ یونی ورسٹی میں داخلہ مل بھی جائے اور وہ رٹّے لگا لگا کر یا اپنی چالاکی و ہوش یاری کے باعث اچّھے مارکس لے کر پاس بھی ہو جائے، توخود کو انجینئر کہلوا کر مطمئن کرنے ہی تک محدود رہتی ہے۔ عملی زندگی میں کیپیسٹر اور انڈکٹر کے مابین فرق تک نہیں کر سکتی۔ بہرکیف، ذیل میں نہایت دل چسپ پیرائے میں شعبۂ انجینئرنگ کی’’ ہونہار طالبات‘‘ کی بعض خصوصیات پیش کی جا رہی ہیں۔
خیالی پلاؤ اور نزاکت
صنفِ نازک کبھی بھی خود کو فیشن کے حصار سے نکال کر صرف انجینئرنگ کی تعلیم پر توجّہ دینے کے لیے آمادہ ہی نہیں ہوپاتیں یا پھر وہ اس اَمر پر قادر ہی نہیں کہ بناؤ سنگھار کو پسِ پُشت ڈال کر اپنی تمام تر توجّہ کسی عمارت کی تعمیر، سرکٹ کی تیاری یا سافٹ ویئر اَپ ڈیٹ کرنے پر مرکوز رکھیں۔
یوں تو انجینئرنگ یونی ورسٹی میں قدم رکھتے ہی ہر طالبہ خود کو مستقبل کی نرگس ماول والا (پاکستانی نژاد امریکی سائنس دان)، تسنیم حسین زہرہ (پاکستان کی پہلی اسٹرنگ تھیورسٹ)، یاسمین لاری یا رملہ قریشی تصوّر کرنے لگتی ہے، لیکن اگر سرکٹ بناتے ہوئے انگلی پر زور سے رِزسٹر کی ٹانگ بھی لگ جائے، تو کُہرام مچا دیتی ہے۔ اسی طرح اگر سولڈنگ کے دوران ذرا سی انگلی زد میں آ جائے، تو گویا قیامت ہی آ جاتی ہے۔
ہم نزاکت کو نسوانیت کا خاصّہ سمجھتے ہیں، مگر ایک مخلوط تعلیمی ادارے میں انجینئرنگ کی طالبات کی بے جا اور بناوٹی نزاکت سے شدید کوفت ہوتی ہے۔ لوگوں کی بِھیڑ میں خراماں خراماں اور اپنے ارد گرد سے بے نیاز ہو کر چلنے والی طالبات خود کو نزاکت کے اعلیٰ مرتبے پر فائز سمجھتی ہیں۔ تاہم، کُرسی اُٹھاتے وقت، کھاتے پیتے ہوئے یا پاور کا بٹن دباتے وقت مصنوعی نزاکت کا مظاہرہ کرنے والی یہ طالبات شادی کا کھانا کُھلتے وقت اور کیفے میں کھانا کھاتے ہوئے الگ ہی رُوپ میں دکھائی دیتی ہیں۔
ادب سے لاتعلقی
گزشتہ تقریباً دو برس سے انجینئرنگ کی تعلیم حاصل کرتے ہوئے ہمیں یہ اندازہ ہوا ہے کہ انجینئرنگ یونی ورسٹی کی طالبات نہایت بے ذوق اور ادب سے دُور ہوتی ہیں اور ان کا ادبی ذوق ڈائجسٹ رائٹرز کے ناولز سے شروع ہو کرنسلِ نو کے جذباتی شعرا ہی پر ختم ہو جاتا ہے۔ حال ہی میں ہماری یونی ورسٹی میں منعقد ہونے والے ایک مشاعرے میں نوجوان نسل کے ایک مشہور شاعر نے بھی بھاری معاوضے کے عوض شرکت کی۔
اس دوران یونی ورسٹی کی وہ طالبات، جنہیں ہر سیمسٹر میں چھے میں سے چار کورسز میں حاضری کم ہونے کے سبب امتحان میں حصّہ لینے کی اجازت نہیں ملی تھی، صفِ اوّل میں بیٹھ کر ’’حافی، حافی‘‘ کے نعرے لگا رہی تھیں، جسے بعد ازاں انہوں نے اپنی ادب نوازی قرار دیا، لیکن اگر انہی ’’ادب نواز طالبات‘‘ سے پاکستان کے قومی شاعر، علاّمہ محمّد اقبال کے چند اشعار سُنانے کی فرمائش کی جائے، تو یہ دو اشعار سے آگے نہیں بڑھ سکتیں۔ کُتب بینی سے دُوری کے سبب انجینئرنگ کی طالبات کا ذخیرہ ٔالفاظ بھی بہت کم ہوتا ہے، جس کا اندازہ اس واقعے سے بہ خوبی لگایا جا سکتا ہے۔
یونی ورسٹی کے ابتدائی دنوں میں جب پڑھائی کا شوق عروج پر تھا، تو ہم نے اپنی نوٹ بُکس کی زیب و زینت پر زیادہ توجّہ دی۔ اسی دوران ہماری ایک ہم جماعت نے ہماری ایک نوٹ بُک کھولی، تو ’’جامعہ ہندسیہ و تیکنیکیہ‘‘ دیکھ کر ہم سے پوچھا کہ ’’ کیا آپ نے کسی جامعہ میں بھی داخلہ لے رکھا ہے؟‘‘ لفظ ’’جامعہ‘‘ کو درسِ نظامی تک محدود سمجھنے والی ان محترمہ کو جب ہم نے بتایا کہ ’’یہ ہماری ہی یونی ورسٹی کے نام کا اردو ترجمہ ہے‘‘، تو انہوں نے شرمندگی کے مارے اپنا سَر جُھکا لیا۔
ذات میں انجینئر
طالبات چاہے انجینئرنگ کے شُعبے سے تعلق نہ بھی رکھتی ہوں، وہ اپنی ذات میں انجینئر ہی ہوتی ہیں۔ وہ صرف باتیں بنانے ہی میں نہیں، بلکہ زندگی کے ہر میدان میں ’’انجینئرنگ کے جھنڈے‘‘ گاڑ سکتی ہیں۔ انجینئرنگ کی طالبات کو کلاس میں کسی عمارت کا اسٹرکچر تیار کرنے کے بعد شام میں کسی فیملی فنکشن میں دیکھ لیں، تو عقل یہ ماننے سے انکار کر دے گی کہ یہ وہی کلاس والی محترمہ ہیں۔ تاہم، جب اُن محترمہ کے ہاتھ پر منہدی کے ڈیزائن کے نام پر بُرج الخلیفہ کا نقشہ دیکھنے کو ملے گا، تو تب آپ یہ ماننے پر مجبور ہو جائیں گے کہ یہ انجینئرنگ کی طالبہ ہے۔
ہم ایک ایسی طالبہ کو بھی جانتے ہیں کہ جو کلاس میں ہمیشہ اونگھتی اور جمائیوں پر جمائیاں لیتی رہتی، انجینئرنگ کی ’’ای‘‘ سے بھی ناواقف لگتی، لیکن شام کو آستینیں چڑھائے کچن میں میکرونیز بنانے کے لیے ایسے داخل ہوتی، گویا کشتیٔ نوح بنانے جا رہی ہو کہ اُس کی انجینئرنگ عملی میدان میں نہ سہی، کچن میں تو چل ہی جائے گی۔ اسی طرح بعض طالبات رات کو بستر پر لیٹنے کے بعد وسیع و عریض ’’ہوائی قلعے‘‘ تعمیر کرتے کرتے سو جاتی ہیں اور خوابوں میں انہیں فتح بھی کر لیتی ہیں۔
تعارف تک محدود
انجینئرنگ کی طالبات میں ایک اہم خاصیت یہ بھی پائی جاتی ہے کہ یہ تعلیمی میدان میں چاہے کچھ کریں یا نہ کریں، لیکن ’’انجینئرنگ کی طالبہ‘‘ ہونے کی بنا پر انہیں گھر کے کام کاج سے جان چُھڑوانا خُوب آتا ہے۔ اگر گھر میں چھوٹا بھائی پانی کا ایک گلاس طلب کر لے، تو یہ پانی کو اس قدر غور سے دیکھتی ہیں کہ گویا ابھی غرقِ آب ہو جائیں گی۔ نیز، پانی کا گلاس دیتے ہوئے یہ ضرور باور کروائیں گی کہ ’’مَیں انجینئرنگ کی طالبہ ہوں۔‘‘
اسی طرح اگر سِم بند کروانے کے لیے کسی ٹیلی کام کمپنی کے دفتر کال کریں گی، تو اپنا تعارف کرواتے ہوئے یہ ضرور کہیں گی کہ ’’مَیں انجینئرنگ کی طالبہ ہوں۔‘‘ لیکن جب انہی جیسی کسی طالبہ سے کلاس میں ٹیچر انجینئرنگ کے بنیادی فارمولے کے اطلاق کا کہیں گی، تو وہ آنکھیں گھماتے ہوئے خود سے یہ سوال کرے گی کہ ’’کیا مَیں انجینئرنگ کی طالبہ ہوں؟‘‘ گویا ان طالبات کی ساری انجینئر نگ صرف تعارف ہی تک محدود رہتی ہے اور پھر یہی طالبات بات بہ بات یہ کہتی ہوئی بھی دکھائی دیتی ہیں کہ ’’ہم یہ کیوں نہیں کر سکتیں؟ ہم لڑکوں سے کم ہیں کیا…؟‘‘
ہم اس سوال کا جواب یہ دیتے ہیں کہ ’’اگر آپ کر سکتی ہیں، تو پھر کر کے دکھائیں ۔‘‘ ہم اس نظریے کے ہرگز قائل نہیں کہ مَرد اور عورت ہر معاملے میں برابر ہیں۔ یاد رہے، عورت فطرتاً جسمانی طاقت کے اعتبار سے مَرد سے کم تر ہے اور نزاکت عورت کی فطری خاصیت ہے۔
اسی طرح مَرد اور عورت دونوں کے اپنے اپنے حقوق و فرائض ہیں اور اسی اعتبار سے وہ خاندان اور معاشرے میں اپنا کردار ادا کرتے ہیں۔ ایک عورت لاکھ کوشش کے باوجود کسی مَرد کا کردار ادا نہیں کر سکتی اور کوئی مَرد جان توڑ محنت کے بعد بھی کسی عورت کا کردار ادا نہیں کر سکتا۔
تاہم، ہماری رائے میں ذہانت کے اعتبار سے دونوں برابر ہیں۔ سو، بے جا نزاکت کا مظاہرہ کرتے ہوئے طالبات کو خود کو طلبا سے کم تر نہیں سمجھنا چاہیے اور اگر انہوں نے انجینئرنگ کا شعبہ اپنایا ہے، تو پھر عملی زندگی میں بھی اس کا مظاہرہ کریں۔ انجینئرنگ کی طالبات ہر سال23جون کومحض ’’ورلڈ وومن انجینئرز ڈے ‘‘کا اسٹیٹس لگانے تک محدود نہ رہیں، بلکہ پاکستان میں خواتین انجینئرزکی ملازمت کے تناسب کو (جو اس وقت فقط4.9فی صد ہے) بڑھائیں۔
اسی طرح اگر انجینئرنگ سمیت تمام سائنسی شعبہ جات کا جائزہ لیا جائے، تو خواتین ملازمین کا تناسب10فی صد سے بھی کم ہے۔ لہٰذا، محض یونی ورسٹی کی سیٹ پر چار سال تک قابض رہنے کے بعد ڈگری لے کر خود کو صرف انجینئر کہلوانے کے علاوہ بھی کچھ کریں۔ اگر کچھ اور نہیں کر سکتیں، تو لوگوں میں شعور پیدا کرنے کا ذریعہ بنیں۔ یاد رہے کہ پاکستان میں اَن گنت طالبات تنگ نظری کے سبب اعلیٰ تعلیم حاصل نہیں کر پاتیں۔
یہی وجہ ہے کہ 2015ء میں تعلیم و ترقّی سے متعلق اوسلو سربراہی اجلاس میں پاکستان کو ’’تعلیم کے میدان میں بدترین کارکردگی کا مظاہرہ کرنے والے ممالک ‘‘ میں شامل کیا گیا۔ ایک ایسے مُلک میں کہ جہاں صرف 13فی صد لڑکیاں نویں جماعت تک اسکول میں تعلیم حاصل کرتی ہیں، یہ حیرت انگیز اَمر ہے کہ والدین اپنی بچّیوں کی تعلیم اور کیریئر پر توجّہ نہیں دیتے۔ حتیٰ کہ جو بچّیاں تعلیم حاصل کرنے کا بندوبست کر لیتی ہیں، ان کی تعلیم پر یک ساں توجّہ نہیں دی جاتی اور ان سے آسان مضامین لینے کی توقّع کی جاتی ہے۔
دوسری جانب کسی میڈیکل کالج میں داخلے کے انتظار میں دو تین برس تک گھر بیٹھے رہنے کے بعد جب اپنا ڈاکٹر بننے کا خواب بکھرنے کے خوف سے ایک ذہین و باصلاحیت طالبہ مایوسی کا شکار ہونے لگے، تو اُسے میڈیکل کے علاوہ دیگر سائنسی شعبوں کی وسعت و اہمیت کے بارے میں بتائیں۔ یاد رہے کہ آج ہمیں میڈیکل کی فیلڈ میں جتنی طالبات کی ضرورت ہے، اتنی ہی انجینئرنگ، آئی ٹی اور بزنس سمیت دیگر شعبوں میں بھی درکار ہیں۔
تعلیم کے کسی ایک شُعبے میں پیچھے رہ جانے کے سبب باقی تمام فیلڈز سے منہ موڑ لینا نری حماقت ہے۔ خیر، اگر کسی طالبہ نے انجینئرنگ جیسی پروفیشنل ڈگری لی ہے، تو اسے عملی میدان میں ضرور قدم رکھنا چاہیے۔ آخر میں ہم اس بات کا اعتراف بھی کرنا چاہیں گے کہ انجینئرنگ کی پڑھائی خاصی مشکل بھی ہے اور وقت طلب بھی۔ سو، جو طالبات اس شُعبے سے وابستہ ہیں، اُن کی کام یابی کے لیے ہماری طرف سے بہت سی دُعائیں اور نیک تمنّائیں۔