• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستانی نوجوان جو کل آبادی کا 60 فی صد ہیں۔ ان میں اس وقت اتنا شعور موجزن ہے کہ وہ 1960 میں جاپان کو اور 1963 میں جرمنی کو قرض دینے والا پاکستان واپس لاسکتے ہیں۔ اب تو سب سے بڑی نعمت سوشل میڈیا نوجوان کی طاقت ہے۔ باعث اطمینان ہے کہ اب سب سے زیادہ جوش، سب سے بڑے صوبے پنجاب میں آیا ہوا ہے۔

یہ شعور چھیننے کیلئے جبر، ہتھکنڈے، پولیس گردی پورے زوروں پر ہے۔ منتخب نمائندوں کو فیڈرل لاجز سے اٹھایا جارہا ہے۔ بیویوں بہوئوں کو لے جانے کی خبریں گشت کررہی ہیں۔ پارلیمانی نظام برقرار رکھنے کیلئے غیر پارلیمانی شکنجے استعمال کیے جارہے ہیں۔ ون یونٹ منظور کروانے کیلئے سندھ اسمبلی کے اسپیکر میر غلام علی تالپور کو زبردستی ایک اونٹ پر بٹھاکر تھر کے صحرا میں چھوڑ دیا گیا تھا۔ یہ 50 کی دہائی تھی۔ بیسویں صدی،اب اکیسویں صدی کی تیسری دہائی ہے۔ مگر اس خطّے کی روایات یکسر قبائلی ہیں، چنگیزیت ہمارے اندر ہے، ہم ہلاکو بن کر خوش رہتے ہیں۔ ہم وڈیروں، جاگیرداروں، سرداروں کی رعونت کے خلاف ہیں۔ مگر جب بھی موقع ملتا ہے تو ہم وڈیرہ، خان، چوہدری ہی بنتے ہیں۔ انسان بننے سے ہمیں نفرت ہے۔

اسلام آباد میں شنگھائی کوآپریشن آرگنائزیشن کے سربراہی اجلاس کا انعقاد پاکستان کیلئے قابل فخر ہے۔ میزبان شہر اسلام آباد میں مہمان نوازی کیلئے تزئین و آرائش پر 2 ارب روپے خرچے کی بات کی جارہی ہے۔ یہ ظاہر ہے کہ آئی ایم ایف کے قرضے میں سے ہی دینے ہوں گے۔ اس کانفرنس کے نتیجے میں ہی ہمارے ہاںکوئی نئے کارخانے قائم ہوں گے۔ جہاں بے روزگاروں کو روزگار مل سکے ۔ واہگہ سے گوادر تک ہر پاکستانی کی پیشانی پر پسینے کے قطروں کے ساتھ یہی سوال درج ہے۔ اتنی بڑی کانفرنس کے مہمانوں کےجاتے ہی ہمارے میڈیا پر پھر وہی پرانے مباحث کا غلبہ ہے۔ آئینی ترامیم میں کتنی پر مفاہمت ہوگئی۔

دو روزہ بین الاقوامی کانفرنس کی تقریریں، پاکستانیوں کے ذہنوں میں نہیں اتر سکیں۔ چین، بھارت، روس، قازقستان، کرغزستان، تاجکستان، ازبکستان، ایران، بیلاروس سے آنے والے کسی رہنما نے پاکستان کے عوام، دانشوروں، سیاسی جماعتوں میں ایسی نظریاتی لہر نہیں دوڑائی کہ انکے فرمودات ٹاک شوز کا موضوع بنتے۔ ان میں دو ملک انڈیا اور ایران ہیں۔ جہاں انتخابات کے ذریعے حکومتیں تبدیل ہوتی ہیں۔باقی تمام ملکوں میں زیادہ تر یک جماعتی یا شخصی نظام ہیں۔

آج اتوار ہے۔ اپنے بیٹوں بیٹیوں، پوتوں پوتیوں، نواسوں نواسیوں، بہوئوں دامادوں کے ساتھ دوپہر کے کھانے پر بیٹھنے۔ اولادوں کے سوالات کے جوابات دینے کا دن، وہ اپنے اپنے اسکول ، کالج یونیورسٹی میں کیا پڑھ رہے ہیں،کیا یہ تعلیم ملک کو آگے لے جانے کی تربیت دے رہی ہے، ہر سال ہزاروں نوجوان فارغ التحصیل ہوکر نکل رہے ہیں۔ ہمارا معاشرہ ہمارا ماحول با اثر شخصیات کا غیر قانونی تسلط ختم کرنے میں کامیاب کیوں نہیں ہے، نوجوانوں کا سماجی اور سیاسی شعور حالات کو بدل کیوں نہیں رہا ہے، پھر نماز عصر کے بعد محلے داری کا اہتمام۔ میری یہ گزارش ہوتی ہے کہ محلے کے لوگ آپس میں ملیں۔ بہت سے مسائل ایسے ہیں جو ہم آپس میں ہی حل کرسکتے ہیں، اس کیلئے کسی وزیراعلیٰ، کسی وزیر اعظم کا انتظار کیوں کریں۔ ہم میں سے ہر ذرہ اپنی جگہ آفتاب ہے، ریگ زاروں، صحرائوں نے ہمیں جو شعور عطا کیا ہے۔ وہ مملکت کو آگے لے جا سکتا ہے۔ہمیں ہر پاکستانی کی قدر کرنا چاہئے۔ یہ جو ہم چند سومخصوص افراد کے گرد ہی گھومتے رہتے ہیں۔ ان کے فرمودات کو ہی اپنے مسائل کا حل سمجھتے ہیں۔ ہم دیکھ چکے ہیں کہ 77 سال میں ہم پیچھے ہی چلے جارہے ہیں۔

شعور دشت سے ہم پر مزاج شہر کھلا

ہمیں توریت کے ذرّوں میں آفتاب ملے

’’شعور دشت‘‘ کے ذریعے ہم ریکوڈک، ڈھوڈک، خاصخیلی، سینڈک، سوئی، کندھکوٹ، آدھی، چاچر، مزارانی، شہداد پور، ڈھوک سلطان، شاہ بندر میں موجود نعمتوں سے فیضیاب ہونے کی بجائے اپنے وزیر خزانہ کو واشنگٹن میں فقیرانہ صدائیں دیتے دیکھتے ہیں۔ ہم اپنا قیمتی وقت ضائع کر رہے ہیں۔ جانے روزانہ کتنے پہر بے کار جارہے ہیں۔ کارخانے مزدوروں کی توانائی، مشینوں کی گنجائش کے مطابق نہ چل رہے ہوں۔ Under Capacity ہوں تو پیداوار پوری نہیں ہوتی۔ ملکی ضروریات کیلئے نہ ہی برآمد کیلئے۔ میں تو تحقیق کررہا ہوں کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں جو حواس خمسہ عطا کیے ہیں۔ جو صلاحیتیں ودیعت کی ہیں اور ہمارے نوجوانوں کے دست و بازو میں جو توانائیاں ہیں۔ بزرگوں کے ذہنوں میں جو سوز و ساز رومی، پیچ و تاب رازی ہیں۔ عمر رسیدگاں کی سوچ میں جو اقبالیت۔ شاہ لطیفیت ہے۔ باہو کی ہو ہے۔ بلھے شاہ کی صداقتیں ہیں۔ وہ کیا قوم کی فلاح کیلئےاستعمال کرنے کی ترغیب دی جارہی ہے۔ اخبارات کے صفحات، چینلوں کے اوقات سب استعمال تو ہورہے ہیں۔ لیکن اصل خبریں سنانے کیلئے نہیں۔24 کروڑ کی بصارتیں ناکارہ ہو رہی ہیں۔ ہماری سماعتیں ضائع ہورہی ہیں۔ اگر کوئی سسٹم ہو۔ قانون کا مستحکم دائرہ ہو تو صلاحیتیں، اہلیتیں، مہارتیں، نیک نیتی، ارادے، تجربے مشاہدے، سب نتیجہ خیز ہوں۔ حکمرانوں کو تو کچھ دیر کو بھول جائیں،صوبائی ہوں ضلعی، وفاقی یا کلیدی عہدوں پر مسند نشیں۔وہ چاہے ان خزانوں کیلئے فکر مند نہ ہوں۔ لیکن ہماری یونیورسٹیوں، تحقیقی اداروں، دینی مدارس میں اساتذہ محققین ۔ علمائے کرام۔ اسکالرز کو تو فکر ہونی چاہئے کہ ہمارے ذہنی سر چشمے سوکھ رہے ہیں۔ دریائوں میں ریت بھر رہی ہے۔

اگر 24کروڑ کی ذہنی صلاحیتیں۔ 60 فی صد آبادی کے دست و بازو کی توانائیاں ان مقاصد کے حصول کیلئے استعمال کی جائیں جن کی فی الوقت ترجیح ہے۔ تو ہم تاجکستان، ازبکستان، قازقستان، سب سے آگے نکل سکتے ہیں۔ بلوچستان، سندھ، پنجاب، خیبر پختونخوا میں ثقافت، ذہانت، فکر، نظریات کی صدیاں تو جہ مانگتی ہیں۔ پہلے بھی اس خطّے میں خوشحالی، ترقی، صوفیائے کرام کی فکر، خانقاہوں، درسگاہوں میں پھیلتی روشنی سے آئی ہے۔ سلاطین، بادشاہوں، راجوں، مہاراجوں نے تو محاذ آرائی کی ہے۔ کشتوں کے پشتے لگائے ہیں۔ سوچنے والوں کو تہ خانوں میں مقید کرکے بھول گئے ہیں۔ دربار میں صرف خوشامدیوں کو بھرا ہے۔ تمغے اور خلعتیں ابن الوقتوں کو عطا کی ہیں۔ خلقت شہر کی توانائیوں کو سلطنت کے استحکام کیلئے استعمال نہیں کیا ہے۔ ملکی خزانوں کو ذاتی خزانہ سمجھا ہے۔ قانون کی نہیں شخصی حکمرانی کی ہے۔ اس لیے ہم ریکوڈک سے اب تک سونا نہیں نکال سکے۔ گزشتہ صدیوں کے حاکم، بیسویں اور اکیسویں صدی کے غلام حکمران قدرتی وسائل سے نہیں۔ اپنے آقائوں کے عطیات پر انحصار کرتے تھے۔ اب بھی برسلز، واشنگٹن، لندن ہی ہمارا مطبخ ہیں۔ چاغی، سوات، ریکوڈک میں معدنی وسائل ۔ میدانوں میں لہلہاتی فصلیں ہمارا انتظار کرتی رہتی ہیں۔ جہاں ویزے کی بھی ضرورت نہیں ہے۔ ہمارے افسر ریٹائرمنٹ کے بعد ان شہروں میں قیام کی بجائے اجنبی زمینوں میں شہریت کے حصول کو ترجیح دیتے ہیں۔ پاکستان ان کیلئے صرف ایک اعلیٰ سرکاری پوسٹنگ ہے اور کچھ نہیں۔

تازہ ترین