• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سنا ہے کہ انیس سوسینتالیس سے آج تک شاید ہی کوئی حکومت اقتدار میں آئی ہو جس نے پاکستان کے آئین سے کھلواڑ نہ کیا ہو۔ یعنی آئین میں ترمیم نہ کی ہو! مگر ٹھہریے رکیے۔ سنا ہے کہ ابتدائی چوبیس برسوں میں پاکستان کے پاس اپنا کوئی آئین نہیں تھا اور ملک انگریز کی قانونی کتابوں انڈین پینل کوڈ اور انڈین کرمنل پروسیجر کوڈ پرچل رہاتھا۔ اقتدار میں آنے والے ابتدائی حکمرانوں نے ان دونوں کتابوں کو نیا نام دیکر اپنا لیا تھا۔ انڈین پینل کو نیا نام پاکستان پینل کوڈ اور انڈین کرمنل پروسیجر کوڈ کو پاکستان کرمنل پروسیجر کوڈ کہاگیا۔ سنا ہے کہ ہندوستان میں قتل کے کیس میں قاتل کو دفعہ 302کےتحت پکڑا جاتا ہے۔ اور پاکستان میں بھی قتل کے مقدمہ میں قاتل کو دفعہ302 میں پکڑا جاتا ہے۔ واللہ عالم بالصواب۔ سنی سنائی باتیں ہیں۔ سنی ہوئی باتوں کا بھلا کیا اعتبار۔سنا ہے کہ حاکم وقت آئین میں(ردوبدل) کے موڈ میں ہے۔ سنا ہے کہ حاکم وقت دوستوں کے علاوہ اس مرتبہ اپنے حریف، بیری اور دشمنوں کواس آئینی کارنامے میں برابر کا شریک دیکھنے کے درپے ہے۔سنا ہے کہ کئی کرتا دھرتا آئینی ترمیموں میں اپنا حصہ ڈالنے میں لگے رہےہیں۔ڈرافٹ بنائے گئے۔ ڈرافٹ پرجانے پہچانےدانشوروں کی طرف سے تجاویز کے انبار لگائے گئے ہیں۔ مجھے لگتا ہے کہ آئینی ترامیم کی آنے والی تجاویز اس قدر زیادہ ہیں کہ ان مجوزہ ترامیم کے آگے آئین کی اپنی حیثیت ایک چھوٹے سے کتابچے جیسی رہ جاتی ہے۔ پاکستان پر وقفہ وقفہ سے طرح طرح کے لوگوں نے حکمرانی کی ہے۔کافی عرصہ تک ڈکٹیٹروں نے بھی باری باری موج مستی کرکے دیکھی ہے۔ ایک ڈکٹیٹر صاحب لوگوں کو کوڑے لگواتے تھے۔ اور کہتے تھے، اب پاکستانی راہ راست پر آئیں گے۔ ڈکٹیٹر مرگیا۔ ڈکٹیٹر کے حکم پر کوڑے مارنے والے مر گئے، مگر کوڑے کھانے والے آج بھی زندہ ہیں۔ ایک ڈکٹیٹر کو آئین پر بہت غصہ آتا تھا۔ اگر کوئی مت کا مارا ہوا آئین کا حوالہ دیدے، تو ڈکٹیٹر صاحب آگ بگولہ ہوجاتے تھے۔ مٹھیاں بھینچ کرکہتے تھے،’’ آئین کوئی آسمانی صحیفہ نہیں ہے۔ جب چاہوں، میں آئین کو پھاڑ کر ردی کی ٹوکری میں ڈال سکتا ہوں۔ میرا کوئی کچھ بگاڑ نہیں سکتا‘‘۔ بگاڑنے والے نے اس کا سب کچھ بگاڑ کررکھ دیا ۔ وہ خود تو نہیں رہا، مگر آئین رہا اور رہتا چلا آرہا ہے۔ وہ جج صاحبان بھی نہیں رہے جو نظریہ ضرورت کے تحت ایک ڈکٹیٹر کو پاکستان کا جائز حکمران ہونے کا فرمان صادر کردیتے تھے۔ ورق گردانی کرتے ہوئے فقیروں کو پتہ چل گیا ہے کہ ہر ملک کے پاس ملک کو چلانے کیلئے ایک چھوٹی سی کتاب ہوتی ہے۔ اس میں بنیادی حقوق سے لیکر بنیادی حقوق سلب کرنے کے اسباب اور کیفیتیں تحریر ہوتی ہیں۔ گلے میں پھندا ڈالنے کیلئے آپ کو آگاہ کیا جاتا ہے کہ کیوں آپ کے گلے میں پھندا ڈالا جاتا ہے۔ چھوٹی سی کتاب جسے آئین کہا جاتا ہے، اس کے بارے میںایک بات نے ہمیں بہت موہ لیا ہے۔ اس لیے کہ آئین آسمانی صحیفہ نہیں ہے، اس میں جب چاہیں آپ ترمیم کرسکتے ہیں۔ کانٹ چھانٹ کرسکتے ہیں۔ ایسی بات پڑھنے کے بعد ہم فقیروں نے آئین میں لکھی ہوئی کئی آرا کو تبدیل کرنے کی تجاویز دی ہیں۔جواب ندارد۔ہمیں آگاہ کیا گیا ہے کہ آئین میں ترمیم صرف منتخب لوگوں کاحق ہے۔ یعنی ہم جن لوگوں کو اپنا قیمتی ووٹ دیکر منتخب کرتے ہیں، یعنی ایم این اے اور ایم پی اے اور سینیٹر یہ ان کا حق ہے کہ وہ آئین میں ترامیم متعارف کروائیں یہ اختیار ووٹ دینے والوں کیلئے نہیں ہے۔کسی بھی ادارے میں سب لوگ اچھے نہیں ہوتے ۔ کسی بھی ادارے میں کام کرنے والے سب لوگ برے نہیں ہوتے۔ ہماری تجاویزچونکہ ووٹ لیکر ایوان اقتدار تک پہنچنے والوں کے بارے میں ہیں،ہم امید کرتے ہیں کہ معتبر منتخب ممبران ہمارے لیے راستے کی رکاوٹ نہیں بنیں گے۔ اور ہماری تجاویز پر غور کریں گے۔

تجویز نمبر ایک :آپ نے ہائرhireاور فائرFireکے الفاظ سنے ہونگے ۔ مطلب ہے کہ جو شخص کسی کو ملازمت دے سکتا ، یعنی ملازمت میں رکھ سکتا ہے، وہ شخص ناقص کام کی وجہ سے اس شخص کو ملازمت سے فارغ بھی کرسکتا ہے۔ اب آپ مدعا بھی سن لیجئے۔منتخب ہوجانے کے بعد ایم این اے اور ایم پی اے پھر کبھی اگلے پانچ برس تک پلٹ کر اپنےحلقے کارخ نہیں کرتے۔ ہم ووٹ دینے والے چاہتے ہیں کہ ہم ووٹ واپس لیکر منتخب رکن کو کارکردگی کی بناپر ممبر شپ سے محروم کردیں۔ جس طرح ووٹ دینا ہمارا حق ہے، عین اسی طرح ووٹ With drawکرنا یعنی ووٹ واپس لینا بھی ہمارا آئینی حق ہونا چاہیے۔ ووٹ دیکر اگرہم کسی شخص کو اسمبلی کا ممبر بنا سکتے ہیں، توپھر اس ممبر کی ناقص کارکردگی دیکھ کر ہم اپنے ووٹ کے ذریعے اسےاسمبلی سے خارج کرنے کا حق بھی رکھنا چاہتے ہیں۔ اگر ہم کسی کوHireکرسکتے ہیں تو پھر اسے ہم خارجFireکرنے کا حق بھی رکھتے ہیں۔ ہم کروڑوں ووٹ دینے والے حکومت سے مطالبہ کرتے ہیں کہ ووٹ کے ذریعے کسی ناقص اور ناکارہ ممبر کو اسمبلی سے باہر نکالنے کے ہمارے حق کو آئین کا لازمی حصہ بنایا جائے۔ اسمبلی ممبران حکومتوں کا خام مال ہوتے ہیں۔ اچھے ممبران سے اچھی اور برے ممبران سےبری اور کمزور حکومت بنتی ہے۔ہمارا بنیادی حق تابناک پاکستان کو جنم دے سکتا ہے۔ ہم ووٹ دینے والوں کو صرفFireکا حق دےدیجئے۔

تازہ ترین