• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

شنگھائی تعاون تنظیم کے سربراہی اجلاس کے کامیاب انعقاد سے خطے میں اور عالمی سطح پر پاکستان کے بارے میں مثبت تاثر پیدا ہوا ہے۔ علاوہ ازیں اس کانفرنس سے جہاں پاکستان کی خطے میں اہمیت اور ہمسایہ ممالک سے تعلقات میں بہتری کی نئی راہیں کھلی ہیں۔ وہیں ہمیں مستقبل میں ایس سی او ممالک کے ساتھ معاشی تعلقات کو بہتر بنانے میں بھی مدد ملے گی۔ کانفرنس کے بعد جاری ہونے والے مشترکہ اعلامیے میں بھی اس بات پر زور دیا گیا ہے کہ رکن ممالک کو عالمی سطح پر باہمی تجارت اور تعاون کو فروغ دینا چاہیے۔ اعلامیےمیں تجارت اور سرمایہ کاری کیلئےرکن ممالک کے مابین سازگار ماحول پیدا کرنے پر بھی اتفاق کیا گیا ہے تاکہ مشترکہ طور پر عالمی اقتصادی مسائل کا مقابلہ کیا جا سکے۔ اس حوالے سے اگر پاکستان کی جغرافیہ حیثیت کو مدنظر رکھا جائے تو ہمارے لئے خطے کے ممالک میں باہمی تجارت کا اہم مرکز بننے کے ساتھ ساتھ اپنی برآمدات بڑھانے کے بھی وسیع مواقع موجود ہیں۔ شنگھائی تعاون تنظیم رکن ممالک کے جغرافیائی دائرہ کار اور آبادی کی تعداد کے لحاظ سے دنیا کی سب سے بڑی علاقائی تنظیموں میں سے ایک ہے۔ اس کے رکن ممالک میں دنیا کی تقریباً نصف آبادی اور عالمی جی ڈی پی کا ایک اہم حصہ شامل ہے۔ اس بااثر علاقائی بلاک کے رکن اور سربراہی اجلاس کے میزبان کی حیثیت سے یہ ہمارے ملک کیلئے ایک اہم موقع ہے کہ ہم اپنی ترقی کے سفر کو ایک نئے عزم کے ساتھ آگے بڑھائیں۔ شنگھائی تعاون تنظیم کے رکن ممالک بشمول چین، روس، بھارت اور وسطی ایشیائی ممالک کے سربراہان نے اس کانفرنس میں علاقائی روابط اور اقتصادی تعاون بڑھانے کے علاوہ جغرافیائی سیاسی استحکام کیلئے بھی آگے کا روڈ میپ طے کیا ہے۔ اس طرح یہ کانفرنس ہمارے لئے معاشی میدان میں باہمی پیش رفت کو فروغ دینے کیلئے اہم ثابت ہو سکتی ہے۔

اس تنظیم کا بنیادی مقصد رکن ممالک میں تجارت، توانائی، ٹیکنالوجی اور ثقافتی تبادلے جیسے مختلف شعبوں میں تعاون کو فروغ دینا ہے۔ اگرچہ ابتدائی طور پر اس تنظیم کی توجہ دہشت گردی، علیحدگی پسندی اور انتہا پسندی جیسے سیکورٹی خدشات کو حل کرنے پر مرکوز تھی لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ پلیٹ فارم بتدریج اقتصادی تعاون اور علاقائی ترقی کو فروغ دینے کا اہم ذریعہ ثابت ہو رہا ہے۔ پاکستان نے 2017 میں ایس سی او کا مکمل رکن بننے کے بعد پڑوسی ممالک اور بڑی عالمی طاقتوں کے ساتھ اپنے سفارتی اور اقتصادی تعلقات کو بڑھانے میں نمایاں کامیابی حاصل کی ہے۔علاوہ ازیں پاکستان کا اسٹرٹیجک محل وقوع اسے شنگھائی تعاون تنظیم کے فریم ورک کے اندر علاقائی روابط کو فروغ دینے میں ایک اہم کھلاڑی بناتا ہے۔ چین، بھارت، افغانستان اور ایران کی سرحدوں سے منسلک اور بحیرہ عرب کے راستے اہم سمندری راستوں تک رسائی کے ساتھ پاکستان نہ صرف وسطی ایشیا بلکہ جنوبی ایشیا اور اس سے آگے کے ممالک تک تجارت اور توانائی کی فراہمی کیلئے ایک کلیدی راہداری کا کام کر سکتا ہے۔ چین پاکستان اقتصادی راہداری (سی پی ای سی)، چین کے بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو (بی آر آئی) کے تحت ایک اہم منصوبہ ہے جو علاقائی رابطوںکیلئے پاکستان کےپوٹینشل کا اہم ترین مظہر ہے۔ سی پیک کے ذریعے پاکستان نے نہ صرف چین کے ساتھ اپنے اقتصادی تعلقات کو مضبوط کیا ہے بلکہ یہ منصوبہ وسطی ایشیائی ممالک کیلئے پاکستانی بندرگاہوں کے ذریعے عالمی منڈیوں تک رسائی کیلئے ایک گیٹ وے بن سکتا ہے۔ یہ منصوبہ اپنے تجارتی راستوں کو متنوع بنا کر اپنی معیشت کو مضبوط بنانے کی کوشش کرنے والی وسطی ایشیائی ریاستوں ازبکستان، قازقستان اور کرغزستان کیلئے بہت اہم ثابت ہو سکتا ہے۔تاہم ایس سی او ممالک کے ساتھ تجارتی تعلقات بڑھانے کیلئے پاکستان کو ممکنہ طور پر سرحد پار انفراسٹرکچر کے منصوبوں کو فروغ دینے، ٹرانسپورٹ نیٹ ورکس کو بڑھانے اور کسٹم کے طریقہ کار کو آسان بنانے کی ضرورت ہے۔ ایسا کرنے سے پاکستان ایک مربوط علاقائی اقتصادی زون بنانے میں اہم کردار ادا کر سکتا ہے جو نہ صرف تجارت کو فروغ دینے کا باعث بنے گا بلکہ اس سے ایس سی او تنظیم کے رکن ممالک میں لوگوں کے درمیان روابط، ثقافتی تبادلے اور سیاحت کو بھی فروغ ملے گا۔علاوہ ازیں شنگھائی تعاون تنظیم کے بنیادی مقاصد میں سب سے اہم مقصد اقتصادی تعاون ہے۔ اس حوالے سے خطے میں تجارت کو فروغ دینےکیلئے پاکستان کی فعال شرکت انتہائی اہم ہے۔ اسی طرح ہمیں ایس سی او ممالک کے ساتھ ٹیکنالوجی کے شعبے میں بالخصوص ڈیجیٹل ٹیکنالوجی، سائبر سیکورٹی اور ای کامرس کے شعبوں میں زیادہ سے زیادہ تعاون کو آگے بڑھانے پر توجہ دینی چاہیے۔ دنیا تیزی سے ڈیجیٹل معیشت کی طرف بڑھ رہی ہے اس لئے ایس سی او کے رکن ممالک کو ضروری انفراسٹرکچر اور ریگولیٹری فریم ورک کی تعمیر کیلئے مل کر کام کرنے کی ضرورت ہے تاکہ رکن ممالک ڈیجیٹل معیشت کی ترقی میں ایک دوسرے کیلئے سہولیات فراہم کر سکیں۔ اس طرح پاکستان اپنے بڑھتے ہوئے آئی ٹی سیکٹر اور اسٹارٹ اپ ایکو سسٹم کے ساتھ اس تعاون کو فروغ دینے میں اہم کردار ادا کر سکتا ہے۔ توانائی کے شعبےمیںبھی رکن ممالک کے باہمی تعاون کیلئے اہم ثابت ہو سکتا ہے۔ خطے کے توانائی کے وسیع وسائل بشمول وسطی ایشیا اور روس کے تیل اور گیس کے ذخائر ایس سی او کے رکن ممالک کے درمیان تعاون کا بہترین موقع فراہم کرتے ہیں۔ اس حوالے سے پاکستان کے پاس یہ موقع ہے کہ وہ اپنی توانائی کی ضروریات پوری کرنے کیلئے ایس سی او کانفرنس کے رکن ممالک سے طویل المدت معاہدے کرکے بھارت کی طرح سستا تیل اور گیس حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ باہمی تعلقات کو مضبوط بنا سکتا ہے۔

تازہ ترین