دینِ اسلام نے معمّر افراد کا معاشرے میں ایک باوقارمقام متعیّن کیا ہےاوراُن کی عزّت و تکریم کو ایمان کی علامت قرار دیا گیا ہے، لیکن آج کی نئی نسل اسلامی تعلیمات اورسماجی اخلاقیات کے قطعاً برعکس اپنے بوڑھے والدین کو گویا بوجھ سمجھنے لگی ہے۔
ضعیف العمر والدین کی کفالت اور خدمت کی اہمیت کا اندازہ سورۂ بنی اسرائیل کی ان دو آیات سے لگایا جا سکتا ہے کہ ’’اور تمہارے ربّ نے حُکم فرمایا کہ اس کے سوا کسی کو نہ پوجو اور ماں باپ کے ساتھ اچّھا سلوک کرو، اگر تیرے سامنے اُن میں سے ایک یا دونوں بڑھاپے کو پہنچ جائیں تو اُن سے ’’ہوں‘‘ نہ کہنا اور اُنہیں نہ جھڑکنا اور اُن سے تعظیم کی بات کہنا اور اُن کے لیے عاجزی کا بازو بچھا، نرم دلی سے اورعرض کر کہ اے میرے ربّ! تُو اِن دونوں پر رحم کر، جیسا کہ اِن دونوں نے مُجھے بچپن میں پالا۔‘‘ اِس ضمن میں حدیثِ نبویؐ ہے کہ ’’بوڑھے مسلمان کی تعظیم کرنا، اللہ تعالیٰ کی تعظیم کا حصّہ ہے۔ (سُننِ ابو داؤد)۔
مندرجہ بالا آیات اور حدیث سے ثابت ہوتا ہےکہ دیگر افراد کی نسبت عُمر رسیدہ لوگوں کو ہماری توجّہ، دیکھ بھال اور ہم دردی کی زیادہ ضرورت ہوتی ہے اور بزرگوں کی تعظیم وخدمت ہمارےلیے کارِ ثواب کا درجہ رکھتی ہے۔ بدقسمتی سے ہمارے معاشرے میں بزرگ افراد کوعدم تحفّظ، جسمانی و نفسیاتی مسائل، غذا کی کمی اور اپنوں ہی کے ہاتھوں بدسلوکی کاسامنا کرنا پڑتا ہے اور بعض بوڑھے والدین تو اپنی نافرمان و ناخلف اور لالچی اولاد کے نازیبا رویّے کے باعث اپنی زندگی کے بقیہ ایّام اولڈ ایج ہومز میں گزارنے پر مجبور ہو جاتےہیں۔
اقوامِ متّحدہ کی بیان کردہ تعریف کے مطابق 60 برس یا اِس سے زائد عُمر کے افراد کو بزرگ شہریوں یا سینئر سٹیزنز کا درجہ حاصل ہے۔ اس ضمن میں 14دسمبر 1990ء کو اقوامِ متّحدہ کی جنرل اسمبلی میں ایک قرارداد نمبر 106/45 بھی منظور کی گئی اور پھر 1991ء میں یواین جی اے نے اپنی قراداد نمبر 91/46 کے ذریعے دُنیا بَھر کے معمّر افراد کے لیے رہنما اصول مرتّب کیے۔
اقوامِ متّحدہ کے انسانی حقوق کے عالمی منشور کی رُو سے بزرگ افراد کو دیگر شہریوں کی طرح آزادی، شرکت، دیکھ بھال، ذاتی تکمیل اور وقار سے زندگی بسر کرنے کا حق حاصل ہے۔ یو این او کی ایک رپورٹ کے مطابق 2050ء تک دُنیا بَھرمیں بوڑھے افراد کی شرح 17 فی صد تک پہنچ جائے گی، جو اِس وقت 10فی صد ہے۔
حکومتِ پاکستان نے بزرگ شہریوں کی دیکھ بھال اوربحالی کےلیےبتدریج متعدّد اقدامات کیے ہیں۔ اس ضمن میں 1999ء میں پالیسی برائے بزرگ شہری متعارف کروائی گئی۔ بعد ازاں، 2007ء میں سینئر سٹیزنز بِل کے تحت معمّر افراد کو روڈ ٹرانس پورٹ اور ریل کےسفر میں کرائےکی رعایت، پینشن کی فراہمی کو قابلِ عمل بنانے، عوامی مقامات پر قائم باغیچوں، عجائب گھروں، چڑیا گھروں، کُتب خانوں، کُتب میلوں اور آرٹ گیلریز میں مفت داخلے اور قانونی خدمات کی فراہمی کے علاوہ ڈاک خانوں، بینکس، ریلوے اسٹیشنز اور دیگر اداروں میں اُن کے لیے علیحدہ کاؤنٹرز بنانے کافیصلہ کیاگیا۔
18ویں آئینی ترمیم کے بعد بزرگ شہریوں کی فلاح و بہبود کے لیے قانون سازی کا اختیار صوبوں کو منتقل کردیا گیا، جس کے بعد وفاقی اور چاروں صوبائی حکومتوں کی جانب سے عُمر رسیدہ افراد کے لیے پالیسی اصلاحات کے تحت ضروری قانون سازی کی گئی۔ تاہم، ان تمام قوانین اورپالیسیز پرمؤثر طور پرعمل درآمد نہ ہونے کے سبب لاکھوں بزرگ شہری آج بھی اپنے بنیادی حقوق سے محروم اور نہایت کسمپرسی کی حالت میں اپنی زندگی کے آخری دن گزار رہے ہیں۔
دوسری جانب مُلک میں بزرگ ومعذور ملازمین اوران کی وفات کی صُورت اُن کے شریکِ حیات کو بڑھاپے اور معذوری میں باعزّت گزر بسر کی خاطر تاحیات پینشن کی فراہمی کے لیے وزارتِ بیرونِ مُلک پاکستانی و ترقّیٔ انسانی وسائل، حکومتِ پاکستان کی نگرانی میں ایک قومی ادارہ، ادارۂ فوائد برائے ضعیف العمر (ایمپلائز اولڈ ایج بینیفٹ انسٹی ٹیوشن) 1976ء سے خدمات انجام دےرہا ہے، جورجسٹرڈ آجران اور ان کے بیمہ دار افراد کی ماہانہ شراکت داری (Contribution) کی بنیاد پر مقرّرہ شرائط کے مطابق حضرات کو 60 برس، جب کہ خواتین کو55 برس کی عُمر میں اور دورانِ ملازمت معذوری کی صُورت میں، صرف پانچ برس کی رجسٹریشن اور ملازمت کے دوران وفات کی صُورت میں، صرف تین برس کی رجسٹریشن پر اُس کے شریکِ حیات کو تاحیات کم از کم 10 ہزارروپےماہانہ اور پینشن فارمولے کے مطابق زیادہ سے زیادہ30,720 روپے ماہانہ تک پینشن فراہم کرکے معاشرے کے بزرگ افراد کی مالی کفالت کا قومی فریضہ انجام دے رہا ہے۔
اِس وقت مُلک بَھر میں ای او بی آئی کی پینشن سے4 لاکھ سے زاید افراد مستفید ہو رہے ہیں۔ پاکستان میں بزرگ افراد کی فلاح و بہبود کے لیےقائم ایک غیرسرکاری سماجی تنظیم، سوشل پروٹیکشن ریسورس سینٹر (ایس پی آر سی) کی رپورٹ بہ عنوان ’’پاکستان میں بزرگ افراد کی حالت اور بہتری‘‘ کے مطابق ماضی کے مقابلے میں دُنیا بھر میں بہتر خوراک، صحت کی دیکھ بھال اور امراض کو کنٹرول کرنے والی مؤثر ادویہ کی وجہ سے انسانوں کی طبعی عُمر میں اضافہ ہو رہا ہے۔
ایک کروڑ معمّر افراد کے ساتھ عُمر رسیدہ افراد کی آبادی کے اعتبار سے پاکستان کا شمار دُنیا کے 15ویں بڑے مُلک میں ہوتا ہے۔ ماہرین کے مطابق 2030ء میں مُلک میں بزرگ شہریوں کی آبادی دُگنی ہونے کا امکان ہے۔ دوسری جانب ایک سروے رپورٹ کے مطابق پاکستان میں72فی صد بزرگ شہری اپنے کُنبے، 9 فی صد شریکِ حیات، 7 فی صد تنہا، 3 فی صد اپنے قریبی رشتے داروں جب کہ بقیہ 9 فی صد اولڈ ایج ہومز یا گلی محلّوں میں بے یار و مددگار زندگی گزار رہے ہیں۔
ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق اُبھرتے سورج کی سرزمین، جاپان میں معمّرافراد کی تعداد بلند ترین سطح پرپہنچ چُکی ہے۔ تازہ ترین سرکاری اعداد وشمار کےمطابق جاپان میں 65یا اس سے زائد برس کی عُمر کےافراد کی تعداد 3 کروڑ 62 لاکھ 50 ہزار ہے اور اِن افراد کو ملنے والی پینشن کے مقابلے میں اُن کے اخراجات 25 فی صد سے زائد ہو چُکے ہیں، جس کے باعث غُربت اور تنہائی کے مارے یہ بزرگ شہری تنہائی، یک سانیت اور روز بہ روز بڑھتے اخراجات سے بےزار ہوکرجان بوجھ کر چھوٹے موٹےجرائم کرکے جیل جانے پرآمادہ ہیں، کیوں کہ جیلوں میں اُنہیں خوراک، قیام اور علاج معالجے کی سہولتیں مُفت فراہم کی جاتی ہیں۔ اِس ضمن میں حال ہی میں شایع ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق گزشتہ برس جاپان میں عادی جرائم پیشہ افراد س35 فی صد زائد سینئر سٹیزنز نے جان بوجھ کر چوری سمیت دیگر معمولی جرائم کا ارتکاب کیا۔
دوسری جانب واشنگٹن میں قائم ایک فلاحی تنظیم، پاپولیشن ریفرنس بیورو نے عالمی آبادی کے ضمن میں ایک رپورٹ پیش کی ہے، جس میں دُنیا کے 50 ممالک میں عُمر رسیدہ افراد کے اعداد و شمار پیش کیےگئےہیں۔ اس رپورٹ میں برِاعظم ایشیا اور یورپ کو ’’بوڑھے افراد کا گھر‘‘ قرار دیا گیا ہے۔
رپورٹ کے مطابق جاپان میں 28 فی صد، اٹلی میں 21 فی صد، پرتگال میں 21 فی صد، جرمنی میں 21 فی صد، فرانس میں 20 فی صد، سوئیڈن میں 19 فی صد، برطانیہ میں 18فی صد، ریاست ہائے متّحدہ امریکا میں 16فی صد، رُوس میں 14 فی صد، عوامی جمہوریہ چین میں 12 فی صد، یونان میں 11 فی صد، بھارت میں 6 فی صد، بنگلا دیش میں 5 فی صد اور پاکستان میں 4 فی صد بوڑھے افراد رہتے ہیں۔
دوسری جانب ڈنمارک اور فِن لینڈ کو سماجی تحفّظ کے اعتبار سے بزرگ شہریوں کے لیے جنّت نظیر ممالک تسلیم کیا جاتا ہے، جب کہ معمّر افراد کے حوالے سےمرتّب کی گئی عالمی فہرستِ مسرّت میں ڈنمارک، فِن لینڈ، ناروے، سوئیڈن، آئس لینڈ، سوئٹزرلینڈ، نیوزی لینڈ، ہالینڈ، کینیڈا، آسٹریلیا، ریاست ہائےمتّحدہ امریکا، کویت، متّحدہ عرب امارات، لکسمبرگ، آسٹریا، آئرلینڈ، کوسٹاریکا، اسرائیل، بیلجیئم اور برطانیہ قابلِ ذکر ہیں۔
دُنیا بَھر میں بڑھاپے کی عُمر کو پہنچنے والے افراد کی تیزی سے بڑھتی تعداد کو مدِنظر رکھتے ہوئے اُن کی مناسب دیکھ بھال اور علاج معالجے کی اہمیت بڑھ گئی ہے، جس پر حکومت، سماجی اداروں اورمعاشرےکو مشترکہ طور پر خصوصی توجّہ دینے کی ضرورت ہے۔ اس وقت دُنیا بَھر کے معمّر افراد کا معیارِ زندگی بہتر بنانے کے لیے ایک غیر منافع بخش تنظیم، ہیلپ ایج انٹرنیشنل سرگرمِ عمل ہے۔ یہ آرگنائزیشن دُنیا بھرکے بزرگ شہریوں کی نمایندہ تنظیم کا درجہ رکھتی ہے۔ 1983ء میں قائم کی گئی اس تنظیم کا نیٹ ورک 98 ارکان ممالک میں پھیلا ہوا ہے۔
ہیلپ ایج انٹرنیشنل کا نصب العین بزرگ افراد کو ایک باوقار زندگی گزارنے میں رہنمائی اور مدد فراہم کرنا ہے۔ مذکورہ تنظیم دُنیا بَھر میں بزرگ افراد کی فلاح و بہبود کے لیے بنائی جانے والی پالیسیز اور پروگرامز کی وکالت کے ساتھ عُمر رسیدہ افراد کے لیے خدمات انجام دینے والی مقامی تنظیموں اور برادریوں کو رہ نمائی اور تیکنیکی امداد بھی فراہم کرتی ہے۔
اس فلاحی تنظیم کو اقوامِ متّحدہ، یورپی یونین، امریکا، برطانیہ، سوئیڈن اور آئرلینڈ سے سالانہ 22.1 ملین پاؤنڈز مالی امداد کی شکل میں ملتے ہیں اور اس کا صدر دفتر لندن میں ہے ، جب کہ ایشیا، افریقا، مشرقِ وسطیٰ، لاطینی و شمالی امریکا اور یورپ کے متعدد ممالک میں اس کا منظّم نیٹ ورک قائم ہے۔
بزرگ شہریوں کے حقوق کی وکالت کرنے والی یہ عالمی تنظیم پاکستان میں ’’ہیلپ ایج پاکستان ‘‘ کے نام سے خدمات انجام دے رہی ہے اور اِس کا صدر دفتر اسلام آباد میں واقع ہے۔ مذکورہ تنظیم کی تحقیق کے مطابق پاکستان میں بیش ترعُمررسیدہ افراد غُربت کا شکار ہیں۔ کسمپرسی کے شکار ان افراد کی ساری زندگی زراعت سمیت دیگر غیر رسمی شعبوں میں خدمات انجام دیتےگزرتی ہےاورجب یہ بڑھاپے کی منزل کو پہنچتے ہیں، تو اُن میں سے بہت کم افراد ہی پینشن اور اچھی آمدنی سے مستفید ہو پاتے ہیں۔
ریاست کی جانب سے اِنہیں اپنے خاندان کے رحم و کرم پر یا پھر بے یار و مددگار چھوڑ دیا جاتا ہے، جب کہ جسمانی و ذہنی معذوری کے شکار اکثر ضعیف العمر افراد تنہا زندگی گزارنے پر مجبور ہیں یا پھر اُن کے بچّے اُن کی دیکھ بھال کرتے ہیں۔ تحقیق میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ بالخصوص معمّر بیوائیں ناتوانی، ضعف اور مالی عدم تحفّظ کا شکار ہیں۔
دوسری جانب پاکستان میں لاکھوں عُمر رسیدہ افراد کو علاج معالجے کی منا سب سہولتوں کی کمی کا بھی سامنا ہے اور کم زور مدافعتی نظام کےباعث انہیں اکثرغیرمتعدّی امراض بھی لاحق ہو جاتے ہیں، لیکن اس کے باوجود صحتِ عامّہ کے نظام میں پائی جانے والی کم زوریوں اور نقائص کےباعث اُن کے علاج معالجےکو ترجیح نہیں دی جاتی اور اکثر اسپتالوں کا طبّی عملہ بھی بزرگ شہریوں کے علاج معالجے کے لیے درکار صلاحیتوں سے نابلد ہے، جس کے باعث معالجین ضعیف العمر افراد کو لاحق امراض کی بروقت تشخیص سے قاصر رہتے ہیں۔
حتیٰ کہ اکثرسرکاری اسپتالوں میں معمّر افراد کے علاج میں مہارت رکھنے والے معالجین تک، جنہیں Geriatric Doctors کہا جاتا ہے، دست یاب نہیں۔ پھر پاکستان اپنے جغرافیائی محلِ وقوع، کم زور معیشت اور ناقص انتظامی ڈھانچےکی وجہ سے وقتاً فوقتاً قدرتی آفات کا شکار بھی رہتا ہے۔ نیز، اسےدہشت گردی اور امن و امان کی ناقص صورتِ حال کا بھی سامنا ہے۔
ان ہنگامی حالات میں بزرگ شہری سنگین خطرات میں گِھرے رہتے ہیں اور اِس نازک صورتِ حال میں اُنہیں امداد کی شکل میں ایسی خوراک اور ادویہ کی ضرورت ہوتی ہے کہ جو عُمر کے اعتبار سے اُن کی خصوصی ضروریات پوری کرسکے۔ ہیلپ ایج پاکستان اس ضمن میں بھی شعور و آگہی فراہم کر کےاپنا کردار ادا کر رہی ہے اور پاکستانی معاشرے کے لیے اُس کا پیغام ہے کہ اپنے بزرگوں کی بڑھتی عُمر کو قبول کریں اور انہیں کسی صُورت نظر انداز نہ کریں۔