• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

’’وائٹ ہاؤس کا اگلا مکین کون ہوگا؟‘‘ اِس سوال کے جواب کے لیے دنیا بَھر کے لوگوں کی نگاہیں امریکی انتخابات پر مرکوز ہیں، جو 5نومبر کو ہو رہے ہیں۔ مقابلہ سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ اورکمیلا ہیرس کے درمیان ہے، جو اِن دنوں اپنی انتخابی مہم پر نکلے ہوئے ہیں اور بڑی بڑی ریلیوں سے خطاب کر رہے ہیں۔ زبانی وار، سیاسی داؤ پیچ اور عوام سے وعدے وعید جاری ہیں، لیکن ایک بات طے ہے کہ امریکا میں اس عُہدے کے لیے جذبات اور شخصی وجاہت و کشش سے زیادہ ٹھوس زمینی تبدیلیوں کا یقین دِلانا پڑتا ہے۔

امریکا سُپر پاور ہے اور دنیا کے تقریباً ہر معاملے، مسئلے میں اس کا کردار فیصلہ کُن ہوتا ہے۔ یوکرین، غزہ اور اب لبنان کی لڑائیاں ہمارے سامنے ہیں۔ اپنے اپنے نظریات کی بنیاد پر کوئی اسے ظالم کہتا ہے، تو کوئی اس کے گُن گاتا نظر آتا ہے، لیکن یہ واضح ہے کہ دنیا میں عموماً وہی ہوتا ہے، جو امریکا کا فیصلہ ہوتا ہے۔ یہ بات بہت سے لوگوں کو بُری لگتی ہے، اِس پر مظاہرے بھی ہوتے ہیں، امریکی جھنڈے جلائے جاتے ہیں اور صدر کی تصاویر پیروں تلے روندی جاتی ہیں۔

تاہم، بین الاقوامی امور کو جذبات کی بجائے سائنسی تجزیوں کی بنیاد پر جانچنا چاہیے، وگرنہ بہت سے مسائل کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔گو، امریکی صدر طاقت کا مرکز ہے اور اُسے اقتدار میں لانے یا قوّت فراہم کرنے میں تیس کروڑ سے زاید امریکی بنیادی کردار ادا کرتے ہیں۔ یہ صدر جہاں بھی جاتا ہے، اُس کے ساتھ چند قدم کے فاصلے پر ایک شخص بریف کیس اُٹھائے چلتا ہے، جس میں وہ کوڈز ہوتے ہیں، جن سے صدر کے حکم پر لمحہ بَھر میں ایٹمی جنگ چِھڑ سکتی ہے۔

اب عوام فیصلہ کرنے جا رہے ہیں کہ بھارت نژاد کمیلا ہیرس اور غیر روایتی صدر کے طور پر معروف ڈونلڈ ٹرمپ میں سے کون کرسیٔ صدارت پر براجمان ہوگا۔ اِس وقت صدارتی مہم زوروں پر ہے، ری پبلکن اور ڈیموکریٹک اُمیدواروں کی زیادہ تر توجّہ سوئنگ اسٹیٹس پر ہے۔کمیلا ہیرس اگر جیت جاتی ہیں، تو وہ پہلی خاتون صدر ہوں گی۔ 

یاد رہے، امریکا میں عورتوں کو ووٹ دینے کا حق ایک سو سال پہلے ملا تھا۔ امریکی قانون دان، اہلِ دانش اور عوام کسی اَن دیکھی جمہوریت یا ماڈل کو فالو نہیں کرتے بلکہ وہ اپنے معروضی حالات کی بنیاد ہی پر فیصلے کرتے ہیں۔ ٹرمپ اپنے غیر روایتی اندازِ حُکم رانی کے علاوہ اب اِس لیے بھی عالمی شہرت حاصل کر چُکے ہیں کہ اُن کے دورِ حکومت میں کوئی جنگ نہیں ہوئی، لیکن یہ ضروری نہیں کہ امریکی عوام صرف دنیا بَھر کے مسائل پر ووٹ دیں، اُن کے اپنے اندرونی معاملات اور مسائل ہیں، جنہیں وہ ہر بات پر فوقیت دیتے ہیں۔

یہ تو ہم اور آپ ہیں، جنہیں یہ خوش فہمی ہے کہ امریکی عوام کو یوکرین، غزہ، لبنان یا ایران کا ہر وقت غم کھائے جاتا ہے یا وہ ان چھے ہزار میل دُور ممالک کی اکھاڑ پچھاڑ سے متاثر ہوتے ہیں۔ شاید ہم بھول جاتے ہیں کہ’’اور بھی غم ہیں زمانے میں محبّت کے سوا۔‘‘اور یہ غم فی الحال غیر قانونی تارکینِ وطن، اسلحہ رکھنے، گھریلو بجٹ اور اسقاطِ حمل پر پابندی جیسے معاملات ہیں، بالکل اُسی طرح جیسے ہمارے لیے بجلی، گیس کے بِلز، پیٹرول، پیاز اور ٹماٹر کی قیمتیں اہم ہیں۔ 

ہاں یہ ضرور ہے کہ وہ ذائقہ بدلنے کے لیے کسی مسئلے پر نیویارک میں ریلی نکالتے یا یونی ورسٹیز میں شور شرابا کرلیتے ہیں تاکہ کوئی اُن پر انسانی حقوق سے بے بہرہ ہونے کا الزام نہ لگائے۔تاہم، اوّلیت’’ معیارِ زندگی‘‘ ہی کو دیتے ہیں۔

ٹرمپ اور کمیلا کی مرکزِ نگاہ وہ سوئنگ اسٹیٹس ہیں، جو ہر الیکشن میں فیصلہ کُن کردار ادا کرتی ہیں۔ یہ وہ ریاستیں ہیں، جن کے عوام اپنے ووٹ کسی ایک یا دوسری پارٹی کے حق میں بدل سکتے ہیں۔ یعنی وہاں عوامی رائے ڈانواں ڈول ہوتی ہے۔ مثال کے طور پر اگر کسی مخصوص ریاست نے 2020ء میں بائیڈن کے حق میں ووٹ دیا تھا، تو اِس مرتبہ کچھ ایسے امکانات بن گئے ہیں کہ وہاں ٹرمپ کے حق میں ووٹ پڑیں، لیکن ابھی تک عوام کا کوئی واضح فیصلہ یا مُوڈ سامنے نہیں آیا۔

اِس وقت7 ریاستوں کو سوئنگ اسٹیٹس کہا جارہا ہے، جن میں ایری زونا، جارجیا، مشی گن، نیواڈا، شمالی کیرولینا، پینسلوینیا اور وسکونسن شامل ہیں۔خیال کیا جا رہا ہے کہ یہاں کا ووٹر آخری وقت میں فیصلہ کرے گا۔ ظاہر ہے، ہر امیدوار اُسے اپنے حق میں کرنے کی پوری کوشش کر رہا ہے اور اِسی لیے انتخابی مہم کا اصل میدانِ جنگ یہی ریاستیں ہیں۔

کمیلا ہیرس کے اُمیدوار بننے سے قبل یہ بات عام طور پر کہی جارہی تھی کہ ٹرمپ بڑے مارجن سے جیتیں گے، مگر اب ڈیمو کریٹس کا دعویٰ ہے کہ یہ مارجن بہت معمولی سا رہ گیا ہے اور ان کے مطابق، مقابلہ کانٹے دار ہوگا۔کمیلا کے میدان میں اُترنے کے بعد بلاشبہ انتخابی مہم میں گرما گرمی اور جوش وخروش پیدا ہوا اور مایوس ڈیموکریٹس پھر سے مقابلے پر کمربستہ نظر آئے۔ڈیموکرٹیس کے لیے سب سے بڑا بوجھ صدر بائیڈن کی ضعیف العمری اور خراب کارکردگی رہی۔ وہ اندرونِ مُلک بہت کم ریلیف فراہم کرنے میں کام یاب رہے اور آخر میں تو اُن کا امیج ایک تھکے ہارے کھلاڑی کا تھا۔

وہ خارجہ محاذ پر بھی امن قائم کرنے میں ناکام رہے۔اپنے قریب ترین حلیف اسرائیل کے وزیرِ اعظم نیتن یاہو سے اپنی بات نہ منوا سکے، باوجود یہ کہ وہ اسرائیل کو اربوں ڈالرز کی امداد بھی دیتے رہے۔ سات اکتوبر کے بعد اسرائیل نے جس جارحیت کا آغاز کیا، اِس موقعے پر بائیڈن سب سے پہلے بھاگم بھاگ تل ابیب پہنچے اور اپنی یک جہتی کا یقین دلایا۔یوکرین کی جنگ کے اثرات کم نہ ہوئے، یعنی پیوٹن نے اُن کے دباؤ اور اقدامات کو اُس طرح اہمیت نہ دی، جیسے امریکا کی منشا تھی۔ غزہ میں قتلِ عام جاری ہے، جب کہ لبنان میں بھی اسرائیل کو کُھلی چُھوٹ مل چُکی ہے۔

ہانیہ، حسن نصر اللہ اور شنوار جیسے اہم لیڈر مارے گئے اور نوبت یہاں تک آپہنچی ہے کہ حماس اپنے نئے سربراہ کا نام بتانے کو تیار نہیں کہ وہ بھی کہیں نشانہ نہ بن جائیں۔یہ ننگی جارحیت کو نہ روکنے کی ایک بدترین مثال ہے۔ امریکی عوام بھی جنگ سے تنگ ہیں، وہ کسی بھی جگہ اپنے فوجیوں کو الجھانا نہیں چاہتے، جس کی سب سے بڑی مثال افغانستان ہے، جہاں سے امریکا سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر نکل گیا۔ ایسے میں سابقہ صدر ٹرمپ کا امیج’’ مین آف پیس‘‘ بنا، اِسی لیے امریکا سے آنے والی اطلاعات کے مطابق ٹرمپ کی جیت کو کوئی غیر معمولی واقعہ ہی روک سکتا ہے۔ نیز، دو قاتلانہ حملوں نے بھی اُن کے حق میں ہم دردی کی لہر پیدا کردی ہے، جو گزشتہ انتخابات میں ناپید تھی۔

بلاشبہ امریکی اور مغربی میڈیا کا ایک بڑا حصّہ، جس میں اب بھارتی میڈیا اور پیسا بھی شامل ہوچُکا ہے، کمیلا کا ایک ایسا امیج تراشنے میں کوشاں ہے کہ اُن کے جیتنے سے امریکی قوم کو کوئی نئی شناخت مل جائے گی۔ ایک تارکِ وطن خاندان کی فرد کی جیت امریکا کی’’ مائیگرینٹ نیشن‘‘ ہونے کے امیج کو جلا دے گی، لیکن یہ تو میڈیا اور تجزیہ کاروں کی سوچ یا اُن کا اینگل ہے، سوال یہ ہے کہ کیا امریکی عوام بھی یہی چاہتے ہیں؟

میڈیا کے اِن ماہرین کو 2016ء میں بڑا تلخ جواب ملا تھا اور اُن کے تمام اندازے، تجزیے غلط ثابت ہوئے۔ اُن کے یہ ڈراؤنے خواب بھی لوگوں کو متاثر نہ کرسکے کہ ٹرمپ، امریکا کے لیے تباہ کن ثابت ہوں گے۔ٹرمپ جیتے اور ایک کام یاب صدر بنے۔ ہاں، غلطیاں بے شک اُن سے ہوئیں، مگر کیا جوبائیڈن، بش، اوباما یا بل کلنٹن سے غلطیاں نہیں ہوئیں؟ 

کیا اُن کے زمانے میں امریکا کے دنیا بَھر میں قصیدے پڑھے جاتے تھے۔ اور تو چھوڑیں، کیا پاکستان میں امریکا کو کوئی دوست کہتا یا اس کی تعریف کرتا تھا، باوجود یہ کہ پاکستان کو اُن کے دور میں اربوں ڈالرز کی فوجی اور اقتصادی امداد بھی ملتی رہی، جب کہ ٹرمپ کے زمانے میں تو یہ امداد بند ہی ہوگئی تھی، پھر بھی اُس وقت کے وزیرِ اعظم کا فرمانا تھا کہ’’ٹرمپ سے ملنا گویا دوبارہ ورلڈ کپ جیتنا تھا‘‘اور یہ کہ’’یہی شخص کشمیر کا مسئلہ حل کروا سکتا ہے۔‘‘

اُن کے کچھ حمایتی تو اب بھی اِس خوش گمانی میں مبتلا ہیں کہ ٹرمپ کے آتے ہی پارٹی کے بانی کی رہائی کا حکم آجائے گا۔ دراصل، بہت سے تجزیہ کار ایک خاص زاویے سے کسی معاملے کو دیکھتے ہیں اور پھر اپنی اس سچّائی کے سحر میں بھی خود ہی گرفتار ہوجاتے ہیں۔ ان تجزیہ کاروں کی یہ خواہش بھی ہوتی ہے کہ ہر کوئی، خواہ وہ حُکم ران ہو یا عام آدمی، اُن ہی کی بات مانے، کیوں کہ اُن کے مطابق اسی میں مُلک و قوم کی بھلائی ہے، وگرنہ بیڑہ غرق ہوجائے گا۔ یہ خود ستائی اور خود ساختہ دانش وَری کی ایک شکل ہے، جو ہر دَور میں دیکھی گئی اور ہر مُلک میں پائی گئی۔ ڈونلڈ ٹرمپ اور میڈیا کے مابین ٹکرائو اس کا ایک کلاسیکل کیس ہے۔دیکھتے ہیں، اِس بار یہ اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے۔

آپ نے اکثر دیکھا ہوگا کہ ہمارے مُلک میں عالمی امور پر نظر رکھنے والے امریکا کی اِن دونوں جماعتوں سے متعلق ایک خاص تاثر دیتے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ ڈیموکریٹس، پاکستان کو دباؤ میں رکھتے ہیں، جب کہ ری پبلکنز کا رویّہ ہم دردانہ ہوتا ہے۔اِس سلسلے میں ڈیموکریٹس کے لیے بل کلنٹن، اوباما اور بائیڈن کی مثالیں پیش کی جاتی ہیں۔ بل کلنٹن، پاکستان آئے، تو اُس وقت کے سربراہ جنرل پرویز مشرّف سے ہاتھ تک نہ ملایا، کیوں کہ اُنھوں نے مُلک میں مارشل لاء لگایا تھا، جب کہ صدر بش نے اُنہی پرویز مشرّف کو ریڈ کارپٹ دیا کہ افغان وار میں اُنھوں نے ساتھ دیا تھا۔

اوباما نے اپنے آٹھ سالہ دَور میں کبھی پاکستان کا رُخ نہ کیا، حالاں کہ اُن کا بچپن کراچی میں گزرا تھا، جب کہ وہ بھارت چار مرتبہ گئے۔جوبائیڈن بھی پاکستان نہیں آئے، بلکہ پی ٹی آئی کو گلہ رہا کہ وہ اُن کے مقبول رہنما کی کال ہی نہیں اُٹھاتے تھے۔ جوبائیڈن نہ صرف بھارت گئے، بلکہ وہاں ایک نئے کوریڈور کا اعلان بھی کیا۔ دراصل، اِس طرح کے دوروں یا تعلقات کا انحصار اِس بات پر ہوتا ہے کہ حالات کیسے ہیں۔

جوبائیڈن، سعودی ولی عہد کو تُرک صحافی کے قتل کے الزام میں ملوّث کرتے رہے، لیکن وقت پڑنے پر سب بھول گئے اور بھاگے بھاگے سعودی عرب پہنچ گئے کہ تیل کی قیمتیں بڑھنے نہ دیں۔ دیکھا جائے، تو امریکا کی اِن دونوں جماعتوں کا ایجنڈا کچھ یوں ہے کہ ڈیموکریٹک پارٹی ایک لبرل سیاسی جماعت ہے، جس کا منشور انسانی حقوق، سماجی تحفّظ کی برتری اور موسمیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے کی اہمیت پر زور دیتا ہے۔ اس کے برعکس، ری پبلکن ایک قدامت پسند پارٹی ہے، جسے’’ گرینڈ اولڈ پارٹی‘‘ بھی کہا جاتا ہے۔

کم ٹیکس یعنی عوامی ریلیف، کم افراد پر مشتمل کابینہ، امیگریشن پر انتہائی سخت پالیسی اور اسقاطِ حمل پر پابندی جیسے امور اس کے منشور میں شامل ہیں۔ اب انہیں دیکھ کر کوئی بھی مُلک اندازہ لگا سکتا ہے کہ کون سی پارٹی کے اقتدار سے اُسے کتنا فائدہ یا نقصان پہنچ سکتا ہے، لیکن یہ حتمی نہیں، جیسے ہم نے سعودی عرب کے معاملے میں جوبائیڈن کی مثال دی، اِسی طرح غزہ میں جس طرح موجودہ امریکی حکومت اسرائیلی جارحیت کی حمایت کر رہی ہے، کیا وہ انسانی حقوق کی پاس داری ہے؟اصل میں امریکا کی دونوں پارٹیوں کا ایک ہی منشور ہے اور وہ ہے’’امریکا کو دنیا کی سب سے برتر قوّت رکھنا۔‘‘

ٹرمپ یا کمیلا ہیرس کو الیکٹورل کالج کی 538نشستوں میں اکثریت حاصل کرنی ہوگی تاکہ وہ صدر کے عُہدے تک پہنچ سکیں، یعنی270یا اس سے زیادہ۔الیکٹورل کالج ایک پیچیدہ انتخابی نظام ہے۔ امریکی عوام صدر کو براہِ راست ووٹ نہیں ڈالتے، بلکہ الیکٹورل کالج کے ارکان کو ووٹ ڈالتے ہیں، جو صدر کا انتخاب کرتے ہیں۔اس کے ارکان کو’’الیکٹر‘‘ کہا جاتا ہے۔ ہر ریاست کو آبادی کے تناسب سے الیکٹرز ملتے ہیں۔جب پولنگ کے دن ووٹ ڈالتے ہیں، تو پرچی پر لکھا ہوتا ہے’’الیکٹر برائے فلاں امیدوار۔‘‘

یعنی عوام’’ الیکٹرز‘‘ چُنتے ہیں، جن سے الیکٹورل کالج بنتا ہے، جو بعدازاں صدر کا انتخاب کرتا ہے۔ اِس ضمن میں ایک اہم بات یہ بھی ہے کہ جس ریاست میں کسی صدارتی امیدوار کو پچاس فی صد سے زیادہ ووٹ ملیں، تو پھر اُس ریاست کے تمام ووٹ اُسی کو دے دیئے جاتے ہیں۔ الیکٹرز کی تعداد فیصلہ کردیتی ہے کہ صدر کون ہوگا۔ یہ دسمبر کے مہینے میں اپنے اُمیدوار کو ووٹ دیتے ہیں اور یوں صدارت کنفرم کردیتے ہیں۔اِس لیے بسا اوقات زیادہ ووٹ لینے والا بھی صدر نہیں بن پاتا، ہاں زیادہ الیکٹرز رکھنے والا صدر بن جاتا ہے۔ہلیری کلنٹن نے ووٹ زیادہ لیے، لیکن اُن کے پاس الیکٹرز کم تھے، اِسی لیے وہ ہار گئیں۔

اِس پیچیدہ انتخابی سسٹم سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ امریکا میں اُمیدوار کو کیسے کیسے دشوار مراحل سے گزرنا پڑتا ہے، اِسی لیے اُس کے پاس اِتنی طاقت ہوتی ہے۔ یاد رہے، امریکی صدر کے پاس کئی غیرمعمولی اختیارات ہوتے ہیں، وہ ایوانوں کو خصوصی معاملات میں بائی پاس بھی کرسکتا ہے، لیکن عموماً اُسے بِل پاس کرنے کے لیے کانگریس اور سینیٹ کو ساتھ لے کر چلنا پڑتا ہے۔ خارجہ امور اور فوجی معاملات میں اُس کے اختیارات غیر محدود ہوتے ہیں، گو اُن پر دونوں ایوانوں میں کُھل کر بحث ہوتی ہے۔ سو، اب ٹرمپ جیتیں یا کمیلا، اُنہیں رہنا تو اِسی نظام میں ہے۔

سنڈے میگزین سے مزید