• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

صبح گھر سے نکلیں تو چاروں طرف فقیر ہی فقیر نظر آتے ہیں، کوئی اپنا آدھا بازو دکھا کر بھیک مانگتا ہے، کوئی کسی کم سن بچی کے کاندھے پر ہاتھ رکھے کالی عینک لگائے آپ کے سامنے ہاتھ پھیلا دیتا ہے، کوئی گڑگڑاتے ہوئے چہرے کے ساتھ ہاتھ باندھ کر کھڑا ہو جاتا ہے، کوئی زمین پر گھسٹتا ہوا آتا ہے اور بھیک کا طالب ہوتا ہے، کئی عورتیں بڑی بوڑھیوں والا برقع پہنے اپنے جوان بازو آپ کے سامنے پھیلا دیتی ہیں، کئی بچے ایک میلا سا کپڑا آپ کی کار کی اسکرین کے ساتھ لگا کر کھڑے ہو جاتے ہیں اور آنکھوں ہی آنکھوں میں بھیگ مانگتے ہیں۔ کچھ نے ہاتھ میں ایکسرے پکڑا ہوتا ہے اور دوا کے لئے پیسے طلب کررہے ہوتے ہیں، کسی مسافر کی جیب کٹی ہوتی ہے اور وہ اپنے گاؤں تک کا کرایہ مانگ رہا ہوتا ہے، کوئی آپ سے موٹر سائیکل یا کار پر لفٹ مانگتا ہے اور دوران سفر اپنی درد بھری داستان سنا کر خیرات کا طالب ہوتا ہے، کوئی بچہ اپنا خوانچہ سڑک پر الٹا دیتا ہے جس میں بیس پچیس روپے کے بسکٹ وغیرہ ہوتے ہیں اور سڑک کے کنارے بیٹھ کر رونا شروع کردیتا ہے اور یوں لوگوں کی ہمدردیاں حاصل کرکے ان سے مدد لینے میں کامیاب ہو جاتا ہے۔کوئی کاندھوں پر کدال رکھے آپ کے پاس آتا ہے کہ گاؤں سے مزدوری کے لئے آیا تھا لیکن مزدوری نہیں ملی، کوئی پورے کنبے کو ساتھ لئے پھرتا ہے کہ یہ صبح سے بھوکے ہیں، ان کیلئے ایک وقت کی روٹی کے پیسے دے دیں۔

یہ بھیک مانگنے والے آپ کو صرف گلیوں اور بازاروں ہی میں نظر نہیں آتے یہ لوگ زندگی کے مختلف شعبوں میں موجود ہیں اور اپنے اپنے انداز میں بھیک مانگتے ہیں۔ یہ فقیر آپ کو سرکاری دفتروں میں بھی مل جاتے ہیںاورآپ سے فائل کا پہیہ چلانے کیلئے نوٹ مانگتے ہیں، یہ فقیر دانشوروں میں بھی موجود ہیں ۔اس طبقے کے افراد اخبارات کے دفاتر میں بھی پائے جاتے ہیں۔ بھکاریوں کی کثیر تعداد نام نہاد مشائخ میں بھی موجود ہے، انہیں خفیہ فنڈ سے بھیک ملتی ہے، کچھ لوگ دوست اور دشمن ممالک سے بھیک وصول کرتے ہیں ، محکمہ خارجہ اور اکنامک ڈویژن کے پالیسی ساز بھی امریکہ کے بھکاری ہیں۔ انہیں بہت سائنسی طریقے سے بھیک دی جاتی ہے اور یہ اتنے ہی سائنسی طریقے سے پاکستان کی خارجہ اور معاشی پالیسیاں پاکستان کی بجائے امریکہ کے مفادمیں تیار کرتے ہیں۔ وزیر، مشیر اور مقتدر طبقے کے ارکان بھی بھکاریوں میں شامل ہیں۔ یہ بڑے بڑے سودوں میں اپنی بھیک بطور کمیشن وصول کرتے ہیں یہ تو وہ طبقہ ہے جوگنے کی ایک پور کے لئے کماد کا پورا کھیت اجاڑ دیتا ہے، ان کے بچے امریکہ میں امریکہ کے خرچ پرپڑھتے ہیں، ان کی بیویاں امریکہ میں امریکہ کے خرچ پر شاپنگ کرتی ہیں اور یہ خود امریکہ کے خرچ پر پاکستان خرچ کردیتے ہیں۔ یہ لوگ محب وطن بھی کہلاتے ہیں۔ بھیک مانگنے والوں میں کئی ایم پی ایز اور ایم این ایز بھی شامل ہیں، یہ وزارتوں ،ٹھیکوں اور قرضوں کی بھیک مانگتے ہیں، کوئی سیاسی بحران پیدا ہو تو حکومت یا اپوزیشن سے کروڑوں کے بدلے اپنا ضمیر فروخت کرنے پر آمادہ ہو جاتے ہیں۔ شاید اس لئے ایک صاحب زر نے کہا تھا کہ کسی بھی اسمبلی کی قیمت چند ارب روپے سے زیادہ نہیں۔ بہرحال ان اسمبلیوں میں سب نہیں کچھ فقیر ایسے ہیں جو حکومتیں بنانے اور گرانے کے لئے دستِ طلب اور زبانِ طمع دراز کرتے ہیں اور اپنے ساتھ اپنے ساتھیوں کو بھی بدنام کرتے ہیں۔ بھیک مانگنے والے صاحبانِ حزبِ اختلاف بھی ہیں، یہ الیکشن کے دنوں میں ووٹوں کی بھیک مانگتے ہیں جب اس بھیک کے نتیجے میں انہیں حکومت ملتی ہے تو یہ بائیس کروڑ عوام کو بھکاری بنا دیتے ہیں، انہیں گھی اور آٹے جیسی بنیادی ضرورتوں کے حصول کے لئے بھی لٹیروں کو ڈبل قیمت ادا کرنا پڑتی ہے۔ ان کے ہاتھوں میں نوکریوں کی درخواستیں تھما دی جاتی ہیں جو ان کی زبانوں میں ہکلاہٹ پیدا کر دیتی ہیں، اتنی خوبصورت قوم کو بدصورت بنانے والے جب قیامت کے روز اللہ کے حضور پیش ہوں گے تو کیا ان کا اقتدار ان کی پیشانیوں پر داغ نہیں دیا جائے گا۔ قوم کو بھکاری بنانے والے یہ لوگ قوم کو قومی ہی نہیں ’’بین الاقوامی‘‘ بھکاری بھی بناتے ہیں۔

جب کوئی اللہ کا بندہ یہ کشکول توڑنے کا عزم کرتا ہے تو امریکہ کی بھیک پر پلنے والے طبقے اپنے آقاؤں سے مل کر اس کے خلاف سازش کرتے ہیں۔ بھکاری سیاستدانوں، بھکاری مولویوں، بھکاری صحافیوں اور بھکاری دانشوروں کا تعاون حاصل کرتے ہیں تاکہ ملک کا نقشہ آقاؤں کے دئیے ہوئے نقشے سے تبدیل کردیا جائے۔ سو مجھے آج تک سمجھ نہیں آئی کہ یہ جو ہمیں ہر طبقے میںفقیر ہی فقیر نظر آتے ہیں، یہ کہ میر جعفر اور میر صادق؟ اگر یہ میر جعفر اور میر صادق ہیں تو پھر یہ ہم لوگوں میں حب الوطنی کی سندیں کس حیثیت سے بانٹتے ہیں اور ہم ان سے یہ سندیں کس حساب میں وصول کرتے ہیں؟

پس نوشت: قارئین سے گزارش ہے کہ وہ میرا کالم پڑھ کر صرف داد نہ دیں، میں بھی بیوی بچوں والا ہوں، بچوں کو اسکول چھوڑنے کے لئے جو گاڑی ہےوہ صرف سترہ سو سی سی ہے جس کی وجہ سے ان کے کلاس فیلو انہیں حقارت سے دیکھتے ہیں، میری اہلیہ بھی کئی دنوں سے بتا رہی ہے کہ اس کی گاڑی ایک سال پرانی ہے اسے نئے ماڈل کی گاڑی چاہیے۔میری خیر ہے، میں او ڈی پر گزارا کرسکتا ہوں مگر بیوی بچوں کی پریشانی نہیں دیکھی جاتی۔ الحمد للہ میں بھکاری نہیں ہوں مگر آپ خود سمجھدار ہیں۔

تازہ ترین