• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

برکس اجلاس سے صدر پیوٹن تو یہ ثابت کرنے میں کامیاب ہو گئے کہ روس یوکرائن جنگ کی وجہ سے عائد معاشی پابندیوں سے لے کر انٹرنیشنل کریمنل کورٹ کی جانب سے جاری کردہ وارنٹ تک کی صورت میں دباؤ ڈالنے کے حربے ناکام ہو گئے ہیں۔ اور روس عالمی تنہائی کا شکار نہیں بلکہ بدستور عالمی سیاست میں اپنی چاليں چلنے میں جتا ہوا ہے ۔ مگر اس سب سے ہٹ کر اس بات کی بہت اہمیت ہے کہ انڈیا برکس سے کیا حاصل کرنے کی جستجو میں ہے ۔ اس کو سمجھنے کیلئے برکس کے قیام سے لے کر اب تک اس کی سوچ اور اہداف پر نظر ڈالنی ہوگی ۔ برکس کے قیام کے وقت اس کے حوالے سے یہ قیاس آرائیاں کی جا رہی تھیں کہ یہ ایک مغرب مخالف اتحاد قائم کیا گیا ہے مگر یہ صرف ایک تصور ہی تھا کیوں کہ اس صدی کے پہلے عشرے تک یہ واضح ہو چکا تھا کہ انڈیا کا واضح جھکاؤ مغرب یا امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی جانب ہے ۔ اس لئے اس کا امکان تو ابتدا میں ہی ختم ہو گیا تھا ۔ پھر جب جنوبی افریقہ کو بھی اس تنظیم میں شامل کر لیا گیا تو محسوس ہوا کہ اس کے اہداف بڑھتے جا رہے ہیں مگر جنوبی افریقہ کی شمولیت کے کوئی تیرہ برس تک اس تنظیم میں مزید ممالک کو شامل نہیں کیا گیا مگر رواں برس ایران، مصر، ایتھوپیا اور متحدہ عرب امارات کو اس کی رکنیت دے دی گئی اور پھر یہ بحث چل نکلی کہ برکس اب اپنے آپ کو فعال حیثیت سے مغرب یا امریکہ مخالف اتحاد کی صورت میں سامنے لا رہا ہے حالانکہ یہ خیال بھی غلط ہے۔ روس میں منعقدہ برکس کے حالیہ اجلاس کو کریملن نے بجا طور پر روس میں سب سے بڑی سفارتی تقریب قرار دیا ہے ۔ برکس کے نو رکن ممالک میں سے آٹھ کے سربراہان نے اس اجلاس میں شرکت کی اور برازیل کے صدر نے بھی ویڈیو لنک پر صرف اس وجہ سے شرکت کی کہ ان کو کچھ عرصہ قبل ہی سر پر چوٹ لگی تھی اور وہ سفر نہیں کر سکتے تھے۔ رکن ممالک کے رہنماؤں کے علاوہ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو ، ترک صدر اردوان، فلسطينی صدر محمود عبّاس، بیلا روس کے صدر الیکسنڈر سمیت دیگر رہنماؤں نے شرکت کی۔ برکس تنظیم کو مغرب مخالف قرار دینے کی بجائے مغربی ممالک کے بغیر تنظیم قرار دیا جائے تو درست ہوگا کیونکہ ایران اب اس میں واحد ملک ہے جس کے امریکہ اور اسکے اتحادی ممالک سے تعلقات خراب ہیں ۔ ورنہ دیگر ممالک کے تعلقات میں ایک اتار چڑھاؤ کی کیفیت ہے خاص طور پر چین اور روس کے حوالے سے یہ کہا جا سکتا ہے۔ جبکہ دیگر ممالک کے تعلقات مغرب سے ٹھیک ہیں ۔ برکس کے اس اجلاس سے ایک تجویز سامنے آئی ہے کہ امریکی ڈالر پر انحصار ختم کیا جائے مگر اسکے متبادل کے طور پر کس ملک کی کرنسی پر برکس ممالک متفق ہونگے اس سوال کا جواب موجود نہیں ، ویسے بھی اکثر ممالک کی معیشت ڈالر سے جڑی ہوئی ہے اور وہ ایسا خطرہ مول نہیں لے سکتے ، اگر چینی کرنسی کو متبادل کے طور پر پیش کیا جائے تو کیا انڈیا اس پر راضی ہو گا؟ جواب نفی میں ہے۔ اس لئے فی الحال اس تجویز کی حیثیت سوائے نعرے کے اور کچھ نہیں۔ آئی ایم ایف کے مقابلے میں برکس کی جانب سے تنظیم کے قیام کی تجویز پر غور کرنے کیلئے اس ماہ کے شروع میں روس میں وزرائے خزانہ کا اجلاس منعقد کیا گیا مگر اس میں اکثر وزرائے خزانہ نے شرکت نہیں کی بلکہ مرکزی بینکوں کے صدور تک نہ آئے، جونیئر ٹیم کو بھیج دیا گیا۔ اس سے واضح ہوتا ہے کہ ایسا کوئی اقدام ابھی بہت دور ہے۔ انڈیا کی برکس پالیسی کے دو اہداف ہیں۔ ایک تو انڈیا یہ خواہش رکھتا ہے کہ وہ برکس کے پلیٹ فارم سے روس سے اپنے دیرینہ مراسم کو برقرار رکھے اور امریکہ کی قربت کی خواہش اور کوشش اس کو روس سے دور نہ کردے ، وہ برکس کے ذریعے ہی چین سے تناؤ کو حد میں رکھنے کی بھی کوشش کر رہا ہے۔ جب دو ہزار بیس میں گلوان میں چین اور انڈیا کی فوجی جھڑپ ہوئی تھی تو انڈیا نے چین پر دباؤ ڈالنے کیلئے چینی اشیا پر بھاری کسٹم ڈیوٹی عائد کر دی تھی مگر اب انڈیا میں شور مچ رہا ہے کہ اس پالیسی کا انڈیا کو ہی نقصان ہوا اور اسی وجہ سے انڈیا نے سر توڑ کوشش کی کہ مودی کے برکس اجلاس میں شرکت سے قبل چین کے ساتھ لائن آف ایکچوئل کنٹرول پر کوئی پیش رفت ہو جائے جو کہ ہو گئی تا کہ مودی کے پاس سیاسی و سفارتی سطح پر صدر شی سے ملاقات کا جواز موجود ہو، صدر پیوٹن نے اس ملاقات کے انعقاد کیلئے بہت کوشش کی تاکہ یہ تاثر قائم ہو کہ روس بین الاقوامی تنازعات کےحل کیلئے کردار ادا کر رہا ہے۔ برکس کے مقاصد بھی جو اس اعلامیہ میں بیان کئے گئے وہ انڈین مفادات اور اسکی خارجہ پالیسی کے قریب ہی ہیں۔ گلوبل ساؤتھ کے تعلقات کا معاملہ ہو یا اقوام متحدہ میں اصلاحات کا مطالبہ سب انڈین پالیسی کا حصہ ہے کیوں کہ انڈیا کی دیرینہ خواہش ہے کہ اسکو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی مستقل رکنیت حاصل ہو جائے۔ روس کے حوالے سے انڈین وزیر خارجہ جے شنکر کا یہ بیان بہت معنی خیز ہے کہ بڑی طاقتوں میں روس واحد ملک ہے جس نے کبھی انڈیا کے خلاف کوئی اقدام نہیں کیا ۔ پھر انہوں نے چند ماہ قبل ایک یورپی ٹی وی کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا تھا کہ انڈیا اب وہی مؤقف اختیار کرے گا جو اسکے عوام کے مفاد میں ہو گا، وہ واضح طور پر کہہ رہے تھے کہ اب انڈیا یورپی ممالک کو مد نظر رکھ کر پالیسی تشکیل نہیں دے گا۔ اس سب سے انڈیا امریکہ اور اسکے اتحادی ممالک کو یہ پیغام دے رہا ہے کہ انڈیا کی عالمی پوزیشن مستحکم ہو چکی ہے اور اسکے پاس اور راستے بھی موجود ہیں تو انڈیا کو اسکی حیثیت کے مطابق اہمیت دی جائے۔ یہاں انڈیا کو چیلنج یہ نہیں کہ دونوں کے درمیان تعلقات کیسے مینج کرے بلکہ ہدف یہ ہے کہ ایک دوسرے کو دکھا کر مفادات کا حصول ممکن بنایا جائے اور وہ اس میں کامیاب بھی ہو رہا ہے۔ جرمن چانسلر سیونتھ انٹر گورنمنٹل کنسلٹیشن کیلئے انڈیا میں اس وقت موجود تھے جب کچھ دن قبل جرمنی نے’’فوکس آن انڈیا‘‘ اسٹرٹیجی پیپر جاری کیا تھا کہ جس کا آغاز اس سرخی سے ہو رہا ہے کہ ’’انڈیا اے ڈیموکریٹک پارٹنر آف جرمنی فار سٹیبلٹی اینڈ سیکورٹی‘‘ اور اسپین کے وزیر اعظم انڈیا میں ٹاٹا کمپلیکس میں سی 295فوجی ٹرانسپورٹ طیارے کے کارخانے کی بنیاد رکھ رہے ہیں۔ گزشتہ رات ترکی کے قومی دن کی تقریب میں شرکت کی ۔ لاہور میں متعین پاکستان سے محبت کرنے والے ترک قونصل جنرل دل کے عارضے کے سبب ترکی میں زیر علاج ہیں۔ دعا ہے کہ اس پاکستان دوست کو جلد شفا نصیب ہو ۔ آمین۔

تازہ ترین