• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

میئر کراچی کے براہِ راست انتخاب کیخلاف استدعا، درخواست گزاروں سے جواب الجواب طلب

میئر کراچی مرتضیٰ وہاب—فائل فوٹو
میئر کراچی مرتضیٰ وہاب—فائل فوٹو

سندھ ہائی کورٹ نے میئر کراچی کے براہِ راست انتخاب کے خلاف درخواستوں کی سماعت کرتے ہوئے درخواست گزاروں سے جواب الجواب طلب کر لیا۔

دورانِ سماعت میئر کراچی مرتضیٰ وہاب کے وکیل حیدر وحید ایڈووکیٹ نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ مخصوص نشستوں والا میئر بن سکتا ہے، مخصوص نشست والا وزیرِاعظم بھی بن سکتا ہے، آئین میں ایسی کوئی رکاوٹ نہیں، آرٹیکل 140 اے میں منتخب نمائندے کا ذکر ہے، آئین کے تحت لوکل گورنمنٹ کی تشکیل ہوتی ہے، لوکل گورنمنٹس سے متعلق صوبائی حکومت کو اختیار ہے، لوکل گورنمنٹ صوبائی حکومت کا ہی حصہ ہوتی ہے، صوبائی حکومت اپنے دائرہ اختیار میں رہتے ہوئے جیسے چاہے نظام بنا سکتی ہے۔

عدالت نے استفسار کیا کہ اس آرٹیکل میں کوئی ترمیم کی گئی ہے؟

میئر کراچی مرتضیٰ وہاب کے وکیل حیدر وحید ایڈووکیٹ نے جواب دیاکہ منتخب فرد کی کوئی تفریق نہیں ہے، سینیٹر بھی منتخب ہوتا ہے اور صدر بھی۔

سندھ ہائی کورٹ نے سوال کیا کہ وزیر کو 6 ماہ میں منتخب ہونے کا آپشن موجود ہے، کیا وزیرِ اعظم پر بھی یہ اپلائی ہوتا ہے؟ اگر وزیر 6 ماہ میں منتخب نہیں ہوتا تو وہ وزیر نہیں رہ سکتا۔

میئر کراچی مرتضیٰ وہاب کے وکیل حیدر وحید ایڈووکیٹ نے جواب دیاکہ کوئی بھی قانون پالیسی اصولوں کی بنیاد پر چیلنج نہیں کیا جا سکتا۔

عدالت نے کہا کہ قانون سازوں نے وفاقی کابینہ میں وزیر کو 6 ماہ میں منتخب ہونے کا آپشن دیا ہے، درخواست گزار کے دلائل یہ ہیں کہ یہ آپشن لوکل گورنمنٹ کے لیے جان بوجھ کر نہیں رکھا گیا۔

میئر کراچی مرتضیٰ وہاب کے وکیل حیدر وحید ایڈووکیٹ نے کہا کہ لوکل گورنمنٹ سے متعلق صوبائی حکومت کو قانون سازی کا اختیار ہے، قانون سازوں نے لوکل گورنمنٹ کے معاملات صوبائی حکومت پر چھوڑے ہیں، سپریم کورٹ نے کسی بھی قانون کو ختم کرنے سے متعلق فیصلے میں تعین کیا ہے، آئین کو تباہ کرنے والے قوانین کو ختم کیا جا سکتا ہے،آئین میں لوکل گورنمنٹ سے متعلق کوئی اسٹرکچر موجود نہیں ہے، اگر آج جو بائیڈن الیکشن میں حصہ لے رہے ہوتے تو انہیں بھی فائدہ حاصل ہوتا۔

سندھ ہائی کورٹ نے کہا کہ 2 سال پہلے والے کی کارکردگی یاد نہیں رہتی، لوگ پرانے والے کو بھول جاتے ہیں۔

سرکاری وکیل نے دلائل میں کہا کہ لوکل گورنمنٹ کی قانون سازی کا اختیار صوبائی حکومت کا ہے، آئین کی کسی اسکیم کی خلاف ورزی نہیں کی گئی، قانون سازی میں کسی قسم کی بد نیتی شامل نہیں ہے۔

عدالت نے کہا کہ اگر قانون سازی کسی ایک فرد کے لیے نہیں کی گئی تو بد نیتی نہیں ہو گی۔

سرکاری وکیل نے کہا کہ ایسا نہیں کہ کسی اور کو الیکشن میں شامل ہونے کی اجازت نہیں تھی، آئین کے آرٹیکل 140 اے کو صوبائی حکومت کے اختیار میں رکھا گیا ہے، بھارتی آئین میں بھی ایسا ہے۔

سندھ ہائی کورٹ نے کہا کہ ہم بھارتی آئین کیوں دیکھیں، حالانکہ ہمارے پاس پاکستانی آئین موجود ہے۔

سرکاری وکیل نے کہا کہ آئین کے آرٹیکل 41 میں اِن ڈائریکٹ الیکشن کا ذکر ہے، مخصوص نشست والے وزیرِ اعلیٰ بھی منتخب ہو سکتے ہیں، آئین کے مطابق کوئی بھی رکن وزیرِ اعلیٰ بن سکتا ہے، اگر کسی رکن کو ووٹ کا حق نہیں ہوتا تو آئین میں واضح لکھا ہوتا، میئر کے انتخابات کے الیکٹورل کالج میں یو سی چیئرمین شامل ہیں، شہر کے 18 ٹاون چیئرمین اِن ڈائریکٹ منتخب ہوتے ہیں، ناظم بھی براہِ راست منتخب ہوتے تھے۔

سندھ ہائی کورٹ نے کہا کہ ہمارے سامنے ناظم کے انتخاب کا معاملہ نہیں ہے۔

سرکاری وکیل نے جواب دیا کہ بھارتی شہر کلکتہ میں بھی ہماری جیسی قانون سازی کی گئی تھی، بھارتی عدالت نے اس قانون کی توثیق کی، وہ ترمیم 2019ء میں آئی تھی۔

سندھ ہائی کورٹ نے سوال کیاکہ پھر تو آپ نے ان کے جیسی قانون سازی کی ہے؟ بیشتر قانون سازی دیگر ممالک کے قانون کی طرز پر کی جاتی ہے، یہ اتفاق تو نہیں ہے کہ پورا ڈرافٹ ایک جیسا ہے۔

سرکاری وکیل نے جواب دیا کہ بھارتی آئین میں بھی میونسپلٹی سے متعلق ایک آرٹیکل نہیں ہے۔

اس کے ساتھ ہی میئر کراچی کے وکیل اور ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل کے دلائل مکمل ہو گئے۔

سندھ ہائی کورٹ نے آئندہ سماعت پر درخواست گزاروں سے جواب الجواب طلب کر لیا اور مزید سماعت 4 نومبر تک ملتوی کر دی۔

قومی خبریں سے مزید