• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

نو برس کے بعد ایک بار پھر پی آئی اے کی نجکاری ناکام ہونے کے بعد ضروری ہوگیا ہے کہ حکومت اس باب میں پیدا ہونےوالے سوالات کے جواب تلاش کرے اور ان اسباب کو دور کرے جو بدھ کے روز نیلامی کی بولی حکومت کی مقررکردہ کم از کم قیمت 85ارب روپے سے 75ارب روپے کم، یعنی 10ارب روپے کی بولی کی صورت میں سامنے آئے۔ نجکاری کمیشن نے ابتدائی طور پر جن چھ کمپنیوں کو شارٹ لسٹ کرکے بدھ کے روز نیلامی عمل شروع کیا ان میں سے صرف ایک کی بولی سامنے آئی جبکہ باقی پانچ اس عمل سے دور رہے۔ قبل ازیں پی آئی اے کے 51فیصد شیئر فروخت کرنے کا منصوبہ تھا مگر نائب وزیراعظم اسحاق ڈار کی سربراہی میں منعقدہ اجلاس کی طرف سے 60فیصد حصص فروخت کرنے کی منظوری کے بعد توقعات بڑھتی محسوس ہورہی تھیں۔ تاہم جو صورتحال سامنے آئی اس میں نجکاری کا عمل موخر ہوگیا۔ ترجمان قومی ایئر لائن کے مطابق پی آئی اے منافع بخش ادارہ ہے، اس کے صرف لندن ہیتھرو روٹ کی قدر ہی 100ملین ڈالر ہے جو 30ارب روپے کے مساوی ہے۔ اس ادارے کے پاس سترہ A320طیارے ہیں جن میں سے ہر ایک کی قیمت 120سے 150ملین ڈالر ہے۔ نیا A-320ہو تو اسکی قیمت 30ارب روپے سے زائد بنتی ہے۔ پرانے جہازوں پر تھوڑی کم قیمت لگائی جاسکتی ہے۔ ادارے کے کھاتوں میں موجود اثاثوں کی مجموعی مالیت 165ارب روپے ہے جسکے ساٹھ فیصد، جو نجکاری کیلئے پیش کئے 99ارب روپے مالیت کے حامل ہیں۔ اس دلیل سے اتفاق کرنا آسان نہیں معلوم ہوتا کہ پراسس میں شامل سرمایہ کار پی آئی اے کی بُکس اور اثاثوں کو صحیح طریقے سے پہچان نہیں سکے۔ ترجمان کی بیان کردہ دیگر حکومتی ترغیبات کی موجودگی میں بھی اگر نجکاری کی کوشش ناکام ہوگئی تو ضروری معلوم ہوتا ہے کہ صورتحال کے تمام پہلوئوں کا تفصیل سے جائزہ لینے اور ہر سطح پر مشاورت کے بعد ہی تیسری حکمت عملی ترتیب دی جائے۔

تازہ ترین