• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

السّلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ

شاید ہی کسی نے…؟

میرا ذاتی خیال ہے کہ جتنے آرٹیکل بندے نے آپ کی خدمت میں ارسال کیے ہیں، شاید ہی کسی نےآپ کوبھیجےہوں، مگراس کے باوجود، بندے کا عرصے سے کوئی بھی آرٹیکل شائع نہیں ہوا۔ بہرکیف، اپنی روایت برقرار رکھتے ہوئے ’’منشورِ انسانیت‘‘ اور ’’جواہر پارے‘‘ کے عنوان سے تحریریں حاضرِ خدمت ہیں۔ اِس اُمید کے ساتھ کہ آپ پسندیدگی کا اظہار فرماتے ہوئے ضرور شائع کریں گی۔ (بابر سلیم خان، سلامت پورہ، لاہور)

ج : آپ کا خیال سو فی صد درست ہے، لیکن اگر ’’بندہ‘‘ بار بار تنبیہ کے باوجود تھوک کے بھائو تحریریں بھیجنے سے باز نہ آئے، تو اِس میں ہمارا کیا دوش؟؟ جس قدر تحریریں آپ ارسال فرماتےہیں، اگر سب کی سب شایع کرنے کا فیصلہ کر لیا جائے، تو پھر تو جریدہ سنڈے میگزین کے بجائے ’’بندہ میگزین‘‘ ہی بن جائے گا۔ آپ براہِ مہربانی اپنی اس ’’شان دار روایت‘‘ کو ترک کریں اور جب تک ایک تحریر شایع نہ ہوجائے، دوسری بالکل مت بھیجیں، کیوں کہ ہم نے یہ 16 صفحات کا منحنی سا جریدہ آپ کے نام کرنے کا ہرگز کوئی فیصلہ نہیں کیا۔

کتاب گاڑی کا دائرۂ کار

اِس بار بھی دو ہی شماروں پر تبصرہ کروں گا۔ چند ہفتوں سے ’’سرچشمۂ ہدایت‘‘ کے صفحات ڈراپ ہونے لگے ہیں۔ پلیز، یہ متبرک صفحہ ڈراپ نہ فرمایا کریں۔ پہلا شمارہ تو واقعی ’’آزادی نمبر‘‘ تھا۔ جیسا کہ قائدِاعظم محمّد علی جناح کی سندھ سے عقیدت و محبت، محمّد علی جناح اور پاک سرزمین اورقائدِاعظم سے منسوب دل گداز واقعات، بصیرت افروز خیالات گوش گزار کیےگئے۔ ’’اسٹائل‘‘ کے صفحات بھی جشنِ آزادی کے رنگوں میں رنگے تھے۔

بلوچستان کی پانچ اضلاع پر مشتمل گرین بیلٹ اجڑ رہی ہے، تو حکومتِ وقت کو چاہیے کہ معدنیات سے بھرپور اِس صوبے کی طرف فوری توجّہ دے۔ بھارت کے دفاعی بجٹ میں مسلسل اضافہ تو خطرے کی علامت ہے۔ ’’شعراء کرام‘‘ میں ابوالفتح عُمر خیام سے متعلق دونوں اقساط بہت شان دار تھیں۔ ’’بجلی کی کہانی میں، آئی پی پیز کی اینٹری کب، کیوں کیسے؟‘‘ انتہائی تحقیقی اور دل چسپ تحریر تھی۔ 

موجودہ حکومت نے اگر عوام کا دل جیتنا ہے، تو اُسے چاہیے کہ تمام آئی پی پیز کو قومی تحویل میں لے لے تاکہ بجلی کچھ توسَستی ہو اور عوام سُکھ کا سانس لیں۔ ’’کتاب گاڑی‘‘ کے بارے میں بھی پڑھا، اِس کا دائرۂ کار پاکستان کے ہر ہر حصّے تک بڑھا دیا جائے، تو بہت سے بچّے تعلیم کی طرف راغب ہوں گے۔ (پرنس افضل شاہین، نادر شاہ بازار، بہاول نگر)

ج: آپ کی تجویز بہت اچھی ہے۔ ’’کتاب گاڑی‘‘ کا دائرۂ کار بڑھنا چاہیے، خصوصاً تمام صوبوں کے دیہی علاقوں تک رسائی تو لازماً ہونی چاہیے۔

تصویر کا دوسرا رُخ

منورمرزا ’’حالات و واقعات‘‘ میں مسلسل کہتے رہتے ہیں کہ ’’غریب ممالک، جن میں پاکستان بھی شامل ہے‘‘ لیکن تصویر کا دوسرا رُخ دیکھا جائے، تو پاکستان کو غریب تر کرنے میں بڑا ہاتھ تو خود اُس کے عوام کا ہے۔ جہاں عوام الناس مُلکی تعمیر و ترقی کے بجائے بس ایک دوسرے سےپنجہ آزمائی ہی میں مصروف ہوں، تو پھر اُن ریاستوں کا یہی حال ہوتا ہے۔ ’’شعراء کرام‘‘ میں حسن عباسی کی تحریریں پسند آرہی ہیں۔ ’’فیچر‘‘ میں رؤف ظفر نے ’’موت کے دامن میں پناہ لینے والے لوگ‘‘ کے عنوان سے ایک فکرانگیز، چشم کُشا رپورٹ تیارکی۔

’’ہیلتھ اینڈ فٹنس‘‘ میں ڈاکٹر طیّب نے کافی معلومات افزا تحریر پیش کی۔ ’’کہی ان کہی‘‘ میں وحید زہیر کی بات چیت لُطف دے گئی۔ ’’نئی کتابیں‘‘ میں اختر سعیدی کے ماہرانہ تبصرے کے کیاہی کہنے۔ ’’ڈائجسٹ‘‘ میں عشرت جہاں، نفیسہ فریاد اور نظیر فاطمہ کی نگارشات لاجواب تھیں۔ اور اب بات ہوجائے،’’آپ کا صفحہ‘‘ یعنی ہمارے صفحے کی۔ ’’اس ہفتے کی اعزازی چٹھی‘‘ شہزادہ بشیر محمّد نقش بندی کے حصّے آئی۔ اُنھیں بہت مبارک ہو۔ دیگر خطوط نگاروں نے بھی اچھی کوششیں کیں۔ (اشوک کمارکولھی، گوٹھ جکھراڑی، کوٹ غلام محمّد)

ج: جی بےشک، آپ کی بات درست ہے، لیکن اب منور مرزا کیا کریں؟؟ ایک غریب، پس ماندہ مُلک کو بہت امیر، ترقی یافتہ مُلک لکھنا شروع کردیں۔ اگر محض لکھ دینے سے بھی صُورتِ حال میں کوئی بہتری آنے کا امکان ہوتا، تو ہم یقیناً لکھ دیتے۔ شُترمرغ کی طرح ریت میں سر دَبا لینے یا کبوتر کی طرح آنکھیں بند کرلینے سے نہ تو حقیقت بدلے گی اور نہ ہی خطرہ ٹلے گا۔

بمشکل صفحات کی ترتیب

شمارہ موصول ہوا، سرِورق پر ماڈل کے رُوپ سروپ دیکھتے آگے بڑھ گئے۔ ’’حالات و واقعات‘‘ میں منور مرزا مسلم ممالک میں جمہوریت کے مسائل پر فکرمند نظر آئے۔ وہ ترقی یافتہ ممالک کےجمہوریت کے ثمرات سے بہرہ مند ہونے کا تجزیہ کر رہے تھے۔ بس اس پر تو یہ شعر ہی چسپاں کیا جا سکتا ہے کہ ؎ ایک ہم ہیں کہ لیا اپنی ہی صُورت کو بگاڑ… ایک وہ ہیں، جنہیں تصویر بنا آتی ہے۔ ’’شعراء کرام‘‘ سلسلے میں حسن عباسی، شیخ سعدی کی سوانحِ حیات اور تخلیقات سے رُوشناس کروا رہے تھے۔ 

گلستان، بوستان کی شہرت و عظمت تو آج بھی روزِ روشن کی طرح عیاں ہے۔ ’’ہیلتھ اینڈ فٹنس‘‘ میں ڈاکٹر طیّب عثمانی ہیپاٹائٹس کی تشخیص و علاج اور احتیاطی تدابیر سے آگاہی دے رہے تھے۔ ’’فیچر‘‘ میں رؤف ظفر نے خودکُشی جیسے قبیح فعل کی وجوہ پر روشنی ڈالی۔ دراصل یہ بھی دین سے دُوری ہی کا نتیجہ ہے کہ ہمارا دین صرف صبر و شُکر کی تلقین ہی نہیں کرتا، طریقہ بھی بتاتا ہے۔ 

اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے ’’نماز اور صبرسے مدد حاصل کرو‘‘۔ ہم بڑی سے بڑی مشکل میں بھی اگر نماز کی طرف متوجّہ ہوں، تواللہ تعالیٰ حل نکال دیتا ہے۔ ڈاکٹر ثناء سعد کا شکوہ بھی بجا تھا کہ پریشان حال شخص کے لیے فیملی سپورٹ کا بھی فقدان ہے۔ ’’سینٹر اسپریڈ‘‘ میں ایڈیٹر صاحبہ نے ہالی وُڈ کی مشہور اداکارہ مارلن منرو کے اقوالِ زریں رقم کیے۔ اُف آپ کی دُوربیں نگاہ بھی کہاں کہاں تک نظارہ کرلیتی ہیں۔

ہالی وُڈ کی فحاشیت سے بھی کیا سُچّے موتی نکال لائیں۔ ’’کہی ان کہی‘‘ میں وحید زہیر نے نام وَر ہدایت کار، اداکار، کمپیئر عبداللہ بادینی سے بات چیت کی۔ ’’متفرق‘‘ میں شاہ ولی اللہ جنیدی کراچی کے غیر مسلم کرکٹرز کا تعارف کروا رہے تھے، تو نئی کتابوں پر اخترسعیدی نے حسبِ روایت ماہرانہ تبصرہ کیا۔

’’ڈائجسٹ‘‘ میں ’’وظیفۂ حیات‘‘ اچھا افسانہ تھا۔ ’’اللہ کا لاڈلا‘‘ بھی پسند آیا۔ شاداب خان کی غزل، ریاض احمد کی خوشہ چینی خوب رہی۔ ’’ناقابلِ فراموش‘‘ کے دونوں واقعات دل چسپ تھے اور ہمارے باغ وبہار صحفے پر ایک بار پھر ہمیں اعزاز سے نوازنے کا شکریہ کہ ہم تو قبولیت والی چٹھی کا طریقہ بھی اسی جریدے سے سیکھتے ہیں اور یہ سید زاہد علی اچھی بھلی چٹّھی لکھتے لکھتے خادم ملک کی محبّت میں پٹری سے کیوں جا اُترتے ہیں۔ باہر رِم جھم پھوار پڑرہی ہے، موسم خوش گوار ہے، مگر میگزین میں پِن نہیں تھی، بڑی مشکل سےصفحات کی ترتیب قائم کرکے تبصرہ کیا ہے۔ (شہزادہ بشیرمحمّد نقش بندی، میرپور خاص)

ج: ہیں جی… یہ کوئی ڈیڑھ سو صفحات کا شمارہ تھاکہ جس کی ترتیب میں اِس قدر مشکل پیش آگئی۔ اور زاہد علی کے پٹری سے اُترنے کا معمّا اگر آپ ہی حل کردیں، توبڑی عنایت ہوگی کہ فی الوقت ہم تو وقت کےایسے زیاں کے ہرگز متحمّل نہیں۔

دونوں کا خط نہیں تھا

’’عالمی افق‘‘ میں منور مرزا امریکی انتخابات کا تجزیہ پیش کرتے ہوئے پاکستانیوں کو سمجھا رہے تھے کہ وہ بھی اپنے مُلک کے مفادات کا خیال کریں۔ ’’فیچر‘‘ میں رئوف ظفر نے قوتِ برداشت کی کمی پر مفصّل تحریر گوش گزار کی، تو ’’ہیلتھ اینڈ فٹنس‘‘ میں پروفیسر ڈاکٹر عبدالمالک کا مضمون بہت ہی معلومات افزا تھا، جب کہ ڈاکٹر اکرم سلطان ’’ذہنی دبائو‘‘ کو بیماریوں کی دستک قرار دے رہے تھے۔ ’’انٹرویو‘‘ میں وحید زہیر نے ڈاکٹر تاج رئیسانی سےانتہائی شان داربات چیت کی۔ 

’’شعراء کرام‘‘ بھی مفید سلسلہ ثابت ہوا۔ ’’ناقابلِ فراموش‘‘ میں جاوید محسن ملک نے جو واقعہ تحریر کیا، وہ واقعی ناقابلِ فراموش تھا۔ اِس بار ’’سرچشمۂ ہدایت‘‘ کا صفحہ شامل نہیں تھا، جب کہ ’’آپ کا صفحہ‘‘ میں میرا اور خادم ملک دونوں کا خط جگمگارہاتھا۔ اگلےجریدے میں ’’سرچشمۂ ہدایت‘‘ کا صفحہ دیکھ کر بےحد خوشی ہوئی، جسے سلطان محمّد فاتح نے اپنی بہت خُوب صُورت تحریر سے بس جگمگا سا دیا تھا۔ ’’اشاعتِ خصوصی‘‘ میں ڈاکٹر غلام محمّد سولنگی، قائدِ اعظم کی سندھ سے محبت کا ذکر کررہے تھے، جان کربہت ہی اچھا محسوس ہوا۔ ’’رپورٹ‘‘ میں عبدالستار ترین نے ضلع اوستہ محمّد کے مسائل کی طرف توجّہ مبذول کروائی۔ 

ڈاکٹر قمر عباس نے بھی اِس بار بہت شان دار، مفصّل مضمون پیش کیا اور قائدِ اعظم محمّدعلی جناح کی دُور بینی و دُوراندیشی کو بہترین خراجِ عقیدت پیش کیا۔ ’’سینٹر اسپریڈ‘‘ پر موجود ایڈیٹر صاحبہ کی تحریر کا بھی جواب نہ تھا۔ ؎ مِرا وطن ہے، مِرے شجرۂ نسب کی طرح، سُرخی ہی نے دل جیت لیا۔ ’’حالات و واقعات‘‘ میں منور مرزا نے بھارت کے دفاعی بجٹ میں مسلسل اضافے کی طرف توجّہ دلائی۔ 

’’پیارا گھر‘‘ میں ڈاکٹر عزیزہ انجم بھی پاکستان کی اہمیت بتاتے اور اُسے ’’اپنا گھر‘‘ قرار دیتے بہت پیاری پیاری باتیں سمجھا گئیں۔ ’’ڈائجسٹ‘‘ میں عالیہ زاہد بھٹّی نے شان دار افسانہ تحریر کیا۔ خیام الپاک کے ’’نغمۂ پاکستان‘‘ اور سیّد سخاوت علی جوہر کی دُعا پر دل سے ’’آمین‘‘ کہا اور ہاں، اس بار ’’آپ کا صفحہ‘‘ میں میرا اور خادم ملک دونوں کا خط موجود نہیں تھا۔ میرا نہ سہی، خادم ملک کا خط تو شامل ہونا چاہیے تھا۔ (سیّد زاہد علی، شاہ فیصل کالونی نمبر3،کراچی)

ج: آپ یوں کیا کریں ناں، ایک خط اپنے نام سے اور ایک اپنے محبوب خادم ملک کے نام سے لکھ بھیجا کریں، تاکہ اگر کبھی ان کا بونگی نامہ دست یاب نہ ہو، تو آپ کے خط سے کام چلا لیا جائے۔

ایک غلطی کی نشان دہی

خطّاط، واصل شاہد کا منور راجپوت کو دیا گیا ’’انٹرویو‘‘ پڑھ کربہت خوشی ہوئی۔ یقیناً وہ اعلیٰ درجے کے خطّاط ہیں، مگر اُن کی ایک غلطی کی نشان دہی کرنا چاہتا ہوں کہ اُنہوں نے ’’نور علیٰ نور‘‘ کی خطّاطی میں لفظ ’’نور‘‘ ایک بار اُلٹا اور ایک بار سیدھا لکھ رکھا تھا، حالاں کہ قرآنِ پاک میں یہ لفظ دونوں بار سیدھا ہی ہے۔ ویسے میں آپ کو بتاناچاہتا ہوں کہ مَیں نےآپ کے ڈھیر سارے ’’سنڈے میگزین‘‘ جمع کر رکھے ہیں اور آپ کی سب تحریریں بہت ہی ذوق و شوق سے پڑھتا ہوں۔ (غلام رسول، گلاب منزل، کھلا بٹ ٹائون شپ، ہری پور)

ج: گرچہ خطاطی، کیلی گرافی کے ضمن میں ہماری معلومات کچھ زیادہ نہیں، لیکن آپ نے جس نمونے کی طرف اشارہ کیا۔ اُس میں بہت آرٹسٹک انداز سے’’نور علی نور‘‘ میں ایک نور سیدھا اور دوسرا الٹا لکھا گیا ہے اور یہ یقیناً کوئی غلطی نہیں، آرٹسٹ کی creativity، دانستہ کوشش و کاوش ہےاوریوں بھی جو اِس قدر اعلیٰ پائے کا کام کرتے ہیں، وہ یقیناً اِس کام کی سب باریکیاں، نزاکتیں سمجھتے، گناہ و ثواب سے بھی خُوب آگاہی رکھتے ہیں۔

                             فی امان اللہ

اس ہفتے کی چٹھی

اُمید ہے، آپ اورآپ کی ٹیم بخیریت ہوگی، شمارہ موصول ہوا۔ سرِورق پر حجاب لیے ماڈلز دیکھ کر بےحد خوشی ہوئی۔ ؎ ’’اَن مول ہے وہ موتی، جو سیپ میں چُھپا ہو…‘‘ بلاشبہ ایک مسلمان عورت کی پہچان اُس کا حجاب ہی ہے۔ ہربار ’’سرچشمۂ ہدایت‘‘ پڑھ کر دینی معلومات میں گراں قدراضافہ ہوتا ہے۔ ’’دروغ گوئی، کذب وافترا‘‘بھی منفردموضوع پرلاجواب تحریر تھی۔ بےشک، جھوٹ اورایمان کبھی یک جا نہیں ہوسکتے، لیکن آج تو جھوٹ اس قدرعام ہو چُکا ہے کہ بلاضرورت چھوٹی چھوٹی باتوں پر بولاجاتاہے، لوگ یوں ہی ہنسی مذاق میں جھوٹ بول رہے ہوتے ہیں اور اِسے گناہ بھی نہیں سمجھتے، حالاں کہ یہ کبیرہ گناہ ہے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو ہدایت دیں۔ (آمین) 

اس بار ہماری دل چسپی کا محور ’’سنڈے اسپیشل‘‘ ٹھہرا کہ آج بھی پاک فوج کی بہادری کا پڑھ کر دلی مسرت ہوتی ہے اور 6 ستمبر1965 ء کا دن تو ہمارے وطنِ عزیز کی تاریخ کا ایک یادگار دن ہے۔ ’’سنڈے اسپیشل‘‘ کی دونوں تحریریں ہی بہترین رہیں اور ’’اشاعتِ خصوصی‘‘ میں ڈاکٹر سمیحہ راحیل کی تحریر ’’عالمی یوم حجاب: دو دہائیوں کا سفر‘‘ تو ایک دل چُھو لینے والی تحریر تھی۔

کیا بات کی کہ ’’وجود میرا فقط حیا سے ہے‘‘۔ سچ ہے، اللہ تعالیٰ کےنزدیک عورت ایک مقدّس، قیمتی ہستی ہے، تب ہی تو اُسے حجاب سے آراستہ ہونے کا حُکم دیا اور نبی کریمؐ کا بھی ارشاد ہے کہ ’’بہترین اولاد باپردہ بیٹیاں ہیں۔‘‘ اور پھروہ کیا ہےکہ ’’کتابیں تو بہت ہیں، مگرغلاف صرف قرآنِ پاک ہی پر ہوتا ہے۔‘‘ خیر،’’حالات و واقعات‘‘ میں منور مرزا کا شان دار تجزیہ پڑھنے کو ملا، تو ’’پیارا گھر‘‘ بھی حجاب ہی سے متعلق مضامین سے آراستہ تھا اور تمام ہی تحریریں لاجواب تھیں، بالخصوص فرحی نعیم کی نگارش۔

’’متفرق‘‘میں سہیل عامرکے مضمون میں، جنگِ ستمبر سے متعلق، جنرل اسرار احمد کی کتاب کے اقتباسات پڑھ کے دل خوش ہوگیا، جب کہ سیّد سخاوت کا ’’نغمۂ6ستمبر‘‘ بھی بہت پسندآیا۔ ’’اِک رشتہ، اِک کہانی‘‘ میں محمّد ہمایوں ظفر نے اچھی، سبق آموز کہانیاں پیش کیں۔ ’’شعراء کرام‘‘ میں حسن عباسی فارسی زبان کے ’’سات عظیم شعراء‘‘ کے دل چسپ حالاتِ زندگی قلم بند کررہے ہیں۔ اس سلسلے کو پڑھ کر معلومات میں بےانتہا اضافہ ہورہا ہے۔ 

’’شیخ سعدی شیرازی‘‘کی جرأت و بےباکی سے متعلق پڑھ کر توبہت لُطف آیا،نیز،اقوال و حکایات سے بھی سبق حاصل کیا۔ ’’ڈائجسٹ‘‘ کی دونوں تحریریں بھی خُوب تھیں، خصوصاً نظیر فاطمہ کا افسانہ شان دار رہا۔ اور’’آپ کا صفحہ‘‘ میں اعزازی چٹھی کی سند ایک بار پھر شہزادہ بشیر محمد نقش بندی نےحاصل کی۔ دُعا ہے کہ اللہ تعالیٰ سنڈے میگزین کی پوری ٹیم اورلکھاریوں کو اِسی حوصلے سے کام کرنے کی توفیق عطا فرماتا رہے۔ (آمین) (طوبیٰ زینب مغل، کوٹ غلام محمّد، میرپور خاص)

ج:’’آپ کا صفحہ‘‘میں تولگتا ہے، میرپورخاص کے’’شہزادے، شہزادیوں‘‘ ہی کی گڈی چڑھی رہے گی۔

گوشہ برقی خطوط

* کافی دنوں سے ’’سنڈے میگزین‘‘ کے ای میل ایڈریس پر میل بھیجنے پہ واپس آرہی تھی، اِسی لیے آپ کی آفیشل آئی ڈی پربھیج رہی ہوں۔ پچھلے کئی ہفتوں سےآپ کا رائٹ اَپ دیکھ رہی ہوں، تو بہت اچھا لگ رہا ہے، جب کہ اِس ہفتے کے رائٹ اَپ پہ رائے دینے کو تو دل مچل ہی اُٹھا۔

آپ نے صحیح فرمایا کہ آج کل کی تصنّع و بناوٹ کی دنیا میں ہم سب کو اپنے لیے دوسروں کی رائےمقدّم رکھنے کی عادت ہوگئی ہے اور یہ کہ فیشن کو اُتنا ہی فالو کرنا ضروری ہے کہ جس سے شخصیت، رنگت اور خدوخال متاثر نہ ہوں۔ اُمید ہے، آئندہ بھی اپنی تحریروں سے مستفید ہونے کا موقع فراہم کرتی رہیں گی۔ اِن شاءاللہ۔ (بلقیس متین، کراچی)

ج: سنڈے میگزین کی آئی ڈی سے ای میل کی واپسی کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ جس قدر پابندی سے یہ آئی ڈی چیک اور خالی کی جاتی ہے، ذاتی آئی ڈیز بھی نہیں کی جاتیں۔ آفس میں کام کا آغاز اِسی آئی ڈی سے ہوتا ہےاور روزانہ 25 سے50 تک ای میلز دیکھی جاتی ہیں۔ آپ یقیناً ایڈریس لکھنےمیں کوئی غلطی کررہی ہیں۔ رائٹ اَپ کی پسندیدگی کا بےحد شکریہ۔

* ہوش سنبھالا، توسنڈے میگزین کوگھر میں پایا۔ حال ہی میں کچھ مسائل کی بنا پر دوسال کا وقفہ آگیا۔ اب جو پھر سے پڑھنا شروع کیا تو بہت فرق پایا، اگر کوئی خاص دن ہوتا ہے، جیسے مدرز ڈے یا فادرز ڈے وغیرہ تو پورا میگزین متعلقہ تحریروں سےبھردیاجاتا ہے۔ دوسری بات یہ کہ جریدے کامعیار بھی خاصا متاثر ہوا ہے۔ یہ جو ’’اِک رشتہ، اک کہانی‘‘ کے نام سے صفحہ ہے، اس کی کیا ضرورت یا فائدہ ہے، جو ہر ہفتے ہی چھاپ دیا جاتا ہے،اس کی جگہ کوئی ایسا مواد دیں، جس سےقارئین میں خود کو سنوارنے، جدید ٹیکنالوجی سے لگن کا کوئی ذوق و شوق پیدا ہو۔ پہلے سنڈے میگزین پڑھ کر بندہ پورے ہفتے تازہ دَم رہتا تھا اب تو کچھ بھی دل چسپ نہیں رہا۔ (فری ملک)

ج :فری! فی الوقت تو سب زیادہ ڈاک اِسی صفحے کی آرہی ہے۔ اور ہمیں جریدے کا 30 سے 40 فی صد حصّہ قارئین کی تحریروں ہی سے مرتب کرنا ہوتا ہے، تو جس صفحے کے لیے زیادہ تحاریر موصول ہوں گی، وہی زیادہ تر شایع بھی ہوگا۔ آپ میگزین کےمعیارسے مطمئن نہیں، ہم خُودبھی نہیں ہیں۔ مگر کیا کریں، مسائل کی بھرمار اوراِس قدرکم وسائل میں اِس سے بہتر معیار کی توقع بھی عبث ہے۔

قارئینِ کرام !

ہمارے ہر صفحے، ہر سلسلے پر کھل کر اپنی رائے کا اظہار کیجیے۔ اس صفحے کو، جو آپ ہی کے خطوط سے مرصّع ہے، ’’ہائیڈ پارک‘‘ سمجھیے۔ جو دل میں آئے، جو کہنا چاہیں، جو سمجھ میں آئے۔ کسی جھجک، لاگ لپیٹ کے بغیر، ہمیں لکھ بھیجیے۔ ہم آپ کے تمام خیالات، تجاویز اور آراء کو بہت مقدّم ، بے حد اہم، جانتے ہوئے، ان کا بھرپور احترام کریں گے اور اُن ہی کی روشنی میں ’’سنڈے میگزین‘‘ کے بہتر سے بہتر معیار کے لیے مسلسل کوشاں رہیں گے۔ ہمارا پتا یہ ہے۔

نرجس ملک

ایڈیٹر ’’ سنڈے میگزین‘‘

روزنامہ جنگ ، آئی آئی چندریگر روڈ، کراچی

sundaymagazine@janggroup.com.pk