السّلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ
باری باری شائع کردیں
مَیں چند روز آؤٹ آف سٹی رہا، اِس لیے خط پوسٹ نہیں کرسکا۔ سو، اب لفافے میں چار شماروں پر تبصرے پہ مبنی دو خطوط شامل ہیں۔ گزارش یہ ہے کہ باری باری ترتیب سے شائع فرمائیے گا۔ ہمیشہ کی طرح اِس بار بھی دو شماروں پر تبصرہ کروں گا۔ ایک میں ’’سرچشمۂ ہدایت‘‘ کا صفحہ موجود تھا، دوسرے میں نہیں۔ گزارش ہے کہ یہ صفحہ ہرگز ڈراپ نہ کیا کریں۔ ’’ٹرمپ پر قاتلانہ حملہ، امریکی صدارتی انتخابات پر مرتّب ہونے والے اثرات‘‘ ایک مدلّل تجزیہ تھا۔
’’آن لائن ذرائع آمدنی، منہگائی کا بہترین توڑ‘‘ مضمون بہت ہی معلوماتی لگا۔ ’’شعراء کرام‘‘ میں مولانا محمّد جلال الدین رومی کی آخری دو اقساط اچھی رہیں۔ ’’لازم و ملزوم‘‘ میں مولانا شبلی نعمانی اور موازانۂ انیس بہترین تحریر تھی۔ اور ہاں، اس بار شہزادہ بشیر محمّد نقش بندی نے ہماری نقل کرتے ہوئے دوشماروں پرایک ساتھ تبصرہ کیا، مگراچھا لگا۔
امریکی صدر جوبائیڈن کی صدارتی دوڑ سے دست برداری سمجھ سے بالاتر ہے۔ ’’عدم برداشت کے بخار میں تپتا معاشرہ‘‘ کے عنوان سے مضمون نے تو جھنجوڑ کر رکھ دیا۔ ’’ذہنی دباؤ، بیماریوں کی دستک‘‘ بہت ہی معلومات افزا تحریر تھی۔ نام وَر ڈراما نگار، ڈاکٹر تاج رئیسانی نے اپنے انٹرویو میں درست فرمایا کہ ’آج کا نوجوان دنیا میں ہونے والی تمام تر تبدیلیوں سے بخوبی آگاہ ہے۔‘‘ ہماری دُعا ہے کہ روزنامہ جنگ دن دونی، رات چوگنی ترقی کرے۔ (پرنس افضل شاہین، نادر شاہ بازار، بہاول نگر)
ج: پر، کِتھوں…؟؟ جنگ اخبار دن دونی، رات چوگنی ترقی کیسےاورکہاں سےکرے، فی الوقت توسروائیول کی جنگ لڑی جارہی ہے کہ آئے روز کسی نہ کسی اخبار یا جریدے کے بند ہونے ہی کی خبریں سُننے میں آرہی ہیں۔ ہاں، آپ کے خطوط، آپ کے فرمائشی پروگرام کے عین مطابق باری باری شایع کردیئے جائیں گے۔
پسندیدگی کا اظہار
اِس ہفتے کے سنڈے میگزین میں شائع ہونے والے مضامین میں ’’قائدِاعظم کی سندھ سے عقیدت و محبت‘‘، ’’پاکستان کی بقا میں ہماری بقا مضمر ہے‘‘، فارسی زبان کے سات عظیم شعراء سلسلے میں ’’عُمر خیام‘‘، ’’صلح جُو، معاملہ فہم، دُوربین و دُوراندیش محمّد علی جناح‘‘، ’’نظامِ تعلیم کی تشکیل و مرمت‘‘ اور دیگر مضامین لاجواب تھے۔
’’ڈائجسٹ‘‘ میں شامل افسانہ ’’آزادی، پابندِ سلاسل‘‘ بھی اپنی مثال آپ معلوم ہوا۔ بلاشبہ، سنڈے میگزین کے تمام ہی لکھاری قابلِ تعریف ہیں۔ میرے دو مضامین ’’جنگِ ستمبر 1965ء کے 17دن‘‘ اور ’’بادشاہ اور رعایا پر ٹیکس‘‘ کے عنوانات سے بھی حاضرِ خدمت ہیں۔ اُمید ہے، پسندیدگی کا اظہار فرماتے ہوئے شائع کردیں گی۔ (بابر سلیم خان، سلامت پورہ، لاہور)
ج: جی… ایک مضمون تو پسندیدگی کا اظہار فرماتےہوئےشائع کردیاگیا ہے، جب کہ دوسرے مضمون پر باوجود کوشش کے، پسندیدگی کا اظہار نہ فرمایا جاسکا۔
ادبی صفحات…؟
سنڈے میگزین کے ادبی صفحات پر اشاعت کی غرض سے ایک غزل اور دو نظمیں بعنوان ’’حُسنِ ظن‘‘ اور ’’سراب‘‘ ارسال کی جارہی ہیں، اُمید ہے، شاملِ اشاعت فرمائیں گی۔ (پرویز احمد، کراچی)
ج: سنڈے میگزین میں کون سے ادبی صفحات ہیں؟؟ غالباً آپ صفحہ ’’ڈائجسٹ‘‘ کی بات کر رہے ہیں۔ بہرحال، کلام، اوزان پر پورا اُترا تو باری آنے پر شایع کردیا جائے گا۔
15کروڑ اور ایک کرولا کار
’’اسٹائل‘‘ میں مارلن منرو کے اقوال کا ذکر نہ کیا کریں، وہ کوئی شیخ سعدی تو نہیں۔ اور بھلا جوتوں کے انتخاب کا کام یابی سے کیا تعلق۔ ارشد ندیم کو ڈھیروں مبارک باد کہ 40سال بعد انہوں نے پاکستان کو گولڈ میڈل جِتوادیا۔ اب اُن سے ایک درخواست ہے کہ آپ پر جو انعامات کی بارش ہورہی ہے، تو اس میں سے 15کروڑ روپے اور ایک کرولا کار ہمیں عنایت فرما دیں۔ ویسے بھی آپ تبلیغی آدمی ہیں، تو چار ماہ کے لیے تبلیغ پر جائیں اور ڈھیروں ثواب کمائیں۔ پیسا تو ہاتھ کا میل ہے۔
انسان دنیا میں خالی ہاتھ آیا ہے اور خالی ہاتھ ہی اِس دنیا سے جائے گا۔ اور ہاں، اگر کسی کو ہمارے اس طرح مانگنے پر کوئی اعتراض ہےتو جناب! ہمارے تو وزیرِاعظم صاحب کشکول لے کر مُلک مُلک گھومتے اور ساتھ فرماتے ہیں کہ مانگنا ہماری مجبوری ہے، تو پھر بھلا ہم کس کھیت کی مولی ہیں۔ ہمارا مُلک 77 سال سے بیرونی امداد ہی پرچل رہا ہے، تو اگر ہم نے بھی تھوڑی سی امداد مانگ لی، تو کیا بُرا کیا۔ براہِ مہربانی، آپ لوگوں کی باتوں میں مت آئیے گا، اپنے ضمیر کے مطابق فیصلہ کیجیے گا۔ (نواب زادہ بےکار ملک، سعید آباد، کراچی)
ج :آپ کا خط پڑھ کے ہرگز کوئی حیرت اور افسوس نہیں ہوا کہ جو قوم ’’عُمرہ ویزا‘‘ کے نام پر گداگری کر سکتی ہے، پھراُس سے کچھ بعید نہیں۔
دونوں کا خط شامل تھا
شمارہ ہاتھ میں ہے۔ ’’عالمی افق‘‘ پر حسبِ روایت منور مرزا کی گہری نظر ہے۔ اِس بار انہوں نےبرطانیہ، فرانس اور ایران کے انتخابات پر خیال آرائی فرمائی۔ نیز، پاکستانی حُکم رانوں، سیاست دانوں اور عوام کو بھی یہ بات سمجھانےکی کوشش کی کہ ہر معاملے میں پہلی ترجیح مُلک کو دیں۔ ’’سرچشمۂ ہدایت‘‘ ہر دل عزیز سلسلہ ہے اور دینی و دنیاوی اور روحانی تربیت کا ذریعہ بن رہا ہے۔ ’’شعراء کرام‘‘ میں حسن عباسی نے مولانا محمّد جلال الدین رومی کا ذکر کیا۔
یہ کافی دل چسپ سلسلہ ہے، پڑھ کر معلومات میں بیش بہا اضافہ ہو رہا ہے۔ ’’رپورٹ‘‘ میں مدثر کاکڑ نے بلوچستان کے تاریخی شہرزیارت میں قائداعظم پبلک لائبریری کی ازسرِنو تعمیر کی تفصیل بیان کی۔ ’’فیچر‘‘ میں رئوف ظفر نے بڑا ہی فکر انگیز مضمون تیار کیا۔ یہ بھی ایک المیہ ہی ہے کہ ’’عُمر گزر جاتی ہے، جیون ساتھی نہیں ملتا‘‘۔ ’’انٹرویو‘‘ میں فرخ شہزاد ملک نے نوجوان ٹیلنٹڈ باکسر شیرباز مزاری سے ملاقات کروائی۔ ’’پیارا گھر‘‘ میں پروفیسر حکیم سید عمران فیاض آم کی مشہور اقسام اور طبّی فوائد بیان کر رہے تھے، تو ’’ناقابلِ فراموش‘‘ کے تینوں ہی واقعات سبق آموز تھے۔
’’آپ کا صفحہ‘‘ میں میرا خط شامل نہیں تھا، کوئی بات نہیں، آئندہ شامل ہوجائے گا۔ اگلے شمارے کی طرف آتے ہیں۔ امریکی انتخابات پر منور مرزا تبصرہ فرما رہے تھے۔ ’’سرچشمۂ ہدایت‘‘ میں سلطان محمّد فاتح تعلیماتِ نبویﷺ کی روشنی میں صبروتحمّل اور رواداری کی تعلیم دیتے نظر آئے۔ مضمون میں کئی بہترین مثالیں بھی پیش کی گئیں۔ ’’رپورٹ‘‘ میں محمّد عمیر جمیل نےآن لائن ذرائع آمدنی کا ذکر کیا۔
بے شک، مسلمان تارکینِ وطن کی بقا شخصی مذہبی آزادی میں ہے اور اِسے صحیح طریقے ہی سے استعمال کرنا چاہیے۔ ’’لازم و ملزوم‘‘ میں ڈاکٹر قمر عباس کا مضمون کچھ گنجلک سا تھا۔ بہرکیف، آخر میں ثابت یہ ہوا کہ انیس، دبیر سے بہتر ہیں۔ ’’ہیلتھ اینڈ فٹنس‘‘ میں فرخ شہزاد نے ڈاکٹر مقبول احمد لانگو سے معلومات افزا بات چیت کی۔ ’’اِک رشتہ، اِک کہانی‘‘ میں ڈاکٹر ناظر محمود اپنے پیارے والد رشاد محمود کی زندگی کی کہانی سُنا رہے تھے، جو واقعتاً بہت دل چسپ تھی۔ ’’پیارا گھر‘‘ کے ذریعے حافظ بلال بشیر نے اچھے، بُرے کی پہچان کروائی۔ اِس شمارے میں ’’ہیلتھ اینڈ فٹنس‘‘ اور ’’ڈائجسٹ‘‘ کے صفحات شامل نہیں تھے، البتہ ’’آپ کا صفحہ‘‘ میں ہمارا خط شامل تھا اور ساتھ ساتھ ہردل عزیز خادم ملک کا خط بھی جگمگا رہا تھا، بہت بہت شکریہ۔ (سیّد زاہد علی، شاہ فیصل کالونی نمبر 3، کراچی)
ج: خادم ملک کے خط کی اشاعت پر آپ کی اِس قدر خوشی اور پھر شُکرگزاری ہنوز سمجھ سے بالاتر ہے۔ کہیں آپ دونوں ’’کنبھ کے میلے‘‘ میں بچھڑے بھائی تو نہیں۔
کیوں شائع نہیں ہوگا؟
اس مرتبہ زیادہ تر مضامین ’’عالمی یومِ حجاب‘‘ کی مناسبت سے تھے اور سب ہی پڑھنے سے تعلق رکھتےتھے۔ سرِورق کی ماڈل بھی باحجاب تھی، دیکھ کر بہت ہی خوشی ہوئی اور ماڈل کے ہینڈ بیگز بھی بہت پسند آئے۔ پرنس افضل شاہین نے لکھا تھا کہ شمارے میں ’’آپ کا صفحہ‘‘ موجود نہیں تھا تو بھئی، 16 صفحے پورے تھے یا نہیں؟ اگر 16 صفحے پورے موجود تھے، تو پھر ’’آپ کا صفحہ‘‘ بھی ضرور ہوگا۔ ’’گوشۂ برقی خطوط‘‘ میں یہ ’’مشرقی لڑکی‘‘ کون ہیں، ان کا نام کیوں شائع نہیں ہوتا۔ میرے خیال میں تو ایسے خطوط یا ای میلزآپ کو شامل ہی نہیں کرنی چاہئیں۔ (رونق افروز برقی، دستگیر کالونی، کراچی)
ج: اخبارات کی دنیا میں قلمی ناموں سے لکھنا ہرگز کوئی اچنبھے کی بات نہیں۔ اگر کوئی اپنے نام و پتے کے ساتھ سامنے نہ آنا چاہے، تو ہم اُسے ہرگز مجبور نہیں کرسکتے۔ ہمیں اگر کوئی ای میل ’’مشرقی لڑکی‘‘ کے نام سے موصول ہو رہی ہے، تو ہم یقیناً اُسے اِسی نام سے شائع کریں گے، نہ کہ کوئی من گھڑت، فرضی نام لکھ دیں۔ جب کہ ای میل لکھی بھی بہت اچھے انداز سے گئی ہوتی ہے۔
200 کے قریب نظمیں
ایک زمانہ تھا، ہم بھی ’’جنگ‘‘ میں لکھتے تھے۔ ’’بچّوں کا جنگ‘‘ میں میری کوئی دو سو کے قریب نظمیں شائع ہوچُکی ہیں اور بعدازاں وہ کتابی شکل میں ’’روشن ہیں سبھی تارے‘‘ کے نام سے بھی شائع ہوئیں۔ لکھنے لکھانے کا یہ شوق تاحال چل رہا ہے۔ اب تک چھے کتابیں شائع ہوچُکی ہیں، لیکن اخبارات و رسائل میں اشاعت کے لیے کلام بھیجنا کم سے کم ہوتا چلا گیا۔ آج ’’آپ کا صفحہ‘‘ دیکھا، پڑھا تو اُس سے کافی متاثر ہوا۔ سو،ایک غزل ارسال کررہا ہوں۔ اُمید ہے، پسند آنے پرکسی قریبی اشاعت میں شامل کرلیں گی۔ (امجد شریف، چاہِ صرافاں، حافظ آباد روڈ، گوجرانوالہ)
ج: نظم قابلِ اشاعت ہوئی توباری آنے پرضرور شامل ہو جائے گی۔ ویسے اگر آپ کی200 کے قریب نظمیں شائع ہو چُکی ہیں، اور وہ بھی ’’جنگ‘‘ اخبار میں، تو یقیناً سکّہ بند شاعر ہی ہوں گے۔ بہرکیف، ہم نےاپنی پالیسی کے مطابق کلام چیکنگ کی غرض سے اپنے مستند شاعر صاحب کی خدمت میں ارسال کردیا ہے۔
فی امان للہ
تین شمارے، مگر تبصرہ ایک۔ ماڈلنگ کی بات کریں، تو ؎ ’’یہ حُسنِ نوبہار، یہ ساون کی بدلیاں…‘‘ ؎ ’’کیسےکیسے رُوپ لیےشہرِ غزل میں آیا وہ…‘‘ اور ؎ ’’اَن مول ہے وہ موتی، جو سیپ میں چُھپا ہو…‘‘ گاگلز پہنے حُسنِ بے باک سے باحجاب شہزادیوں تک، سب ہی ماڈلز اپنی مثال آپ تھیں۔ بجلی کی کہانی میں آئی پی پیز کی اینٹری پر ’’رپورٹ‘‘ فکر انگیز رہی۔ آج منہگی بجلی کی وجہ سے صنعتیں بند، کاروبار ٹھپ ہورہے ہیں اور عام آدمی کو دو وقت کی روٹی کے لالے پڑے ہوئے ہیں کہ کمائے کیا اور کھائے کیا؟ اوپر سے یہ بجلی کے بھاری بھرکم بل کہاں سے ادا کرے۔ ’’بنگلا دیش میں انقلاب‘‘، مسلسل پکتی ہانڈی میں آخراُبال تو آنا ہی تھا۔
حسینہ واجد نے جماعتِ اسلامی کے اکابرین کو قید میں ڈالا اور پھر طلبہ کو ان کا حق دینے کی بجائے رضاکار (غدّار) کہا تو انہوں نے پھر رضا کاری قبول کرتے ہوئے بنگلادیش کو ایک اور انقلاب دے ہی ڈالا۔ یہاں تک کہ شیخ حسینہ واجد کو مُلک سے فرار ہونا پڑگیا۔ خانہ بدوش بچّوں کے لیے تعلیم و تفریح کا ذریعہ ’’کتاب گاڑی‘‘ سے متعلق پڑھ کر بہت اچھا لگا۔ ایسی دل چسپ تعلیم و تفریح کو تو پورے ملک میں عام ہونا چاہیے۔ ڈاکٹر ہدایت اللہ سے بات چیت بہترین رہی، اگر حکومتی سطح پر صحتِ عامہ کے لیے کچھ کیا جائے، تو نئے اسپتالوں کی تعمیر ممکن ہے۔
’’شعراء کرام‘‘ سلسلے میں عُمر خیام کی آخری قسط زبردست رہی۔ ’’برسوں کے بچھڑے آن ملے‘‘ ڈاکٹر معین نواز کی تحریر لاجواب تھی۔ ’’غزہ میں جاری کُشت و خون‘‘، انسانی حقوق کے علم برداروں سے کیا گلہ، جب جسم کا درد محسوس کرنے والی اُمتِ مسلمہ ہی پڑی سو رہی ہے۔ مسلمان حُکم ران گِھسے پٹے بیانات دے کر سمجھتے ہیں کہ ہم نےجہاد کرلیا، اُدھر فلسطین میں روزانہ سیکڑوں بے گناہ شہادت کی منزل پا رہے ہیں۔ حریم شہزاد کی تحریر ’’کھلاؤ سونے کا نوالہ، دیکھو شیر کی نگاہ سے‘‘ زبردست تھی۔
آج کے والدین کو بچوں پرخصوصی نظر رکھنی چاہیے اور ماحول کے مطابق ان کی تعلیم و تربیت پر بھی دھیان دیں۔ نہیں تو، یہی بچّے الٹا والدین کو شیر کی نگاہ سے دیکھیں گے۔ ہجرتِ پاکستان کے حوالے سے ’’داستانِ الم‘‘ نے دُکھی کر دیا۔ بلاشبہ، پاکستان ایسی ہی بےبہا قربانیوں سے حاصل ہوا ہے۔ خودکُشی سے متعلق ’’رپورٹ‘‘ بہت تشویش ناک تھی۔ مُلکی سطح پراس کا سدباب ازحد ضروری ہے۔
منور مرزا کے بقول، جمہوریت کے نہ پنپنے میں سب سے بڑا ہاتھ کرپٹ معاشرے کا ہے۔ جب حُکم رانوں سے لے کرنچلے ہرادارے تک میں کرپشن ہوگی، تو طے ہے کہ جمہوریت 100 سالوں میں بھی نہیں پنپ سکتی، اُلٹا مسائل کی دلدل ہی میں دھنستی چلی جائے گی۔ ہدایت کار، کمپئعبداللہ بادینی سے بات چیت بھی خُوب رہی۔ اُن کا کہنا ہے کہ ایرانی طرز پر کہانیاں پیش کی جانی چاہئیں اور میرے خیال میں یہ صائب مشورہ ہے۔ ’’کراچی کے غیرمسلم کرکٹر‘‘ جنہوں نے پاکستان کا نام روشن کیا، منفرد معلومات سے مزیّن مضمون تھا۔ ’’وظیفۂ حیات‘‘، ’’اللہ کا لاڈلا‘‘، ’’راز‘‘ اورنظیر فاطمہ کی ’’ماڈرن ازم‘‘ سب ہی لاجواب کاوشیں تھیں۔ مطلب، ’’ڈائجسٹ‘‘ کےصفحے میں خاصی بہتری آگئی ہے۔ ’’ناقابلِ فراموش‘‘ واقعات بھی اچھے تھے۔
نیز، عالیہ زاہد کی’’ثناء خوان تقدیسِ مشرق‘‘ بھی حجاب ڈے کی مناسبت سے شان دار کاوش لگی۔ ’’سرچشمۂ ہدایت‘‘ کی توہراِک تحریر ہی دل کو جالگتی ہے۔ ’’جنگِ ستمبرکے 17 دن‘‘اور میجر راجا عزیز بھٹّی سے متعلق تحاریر بھی اُجلی اُجلی سی لگیں۔ خصوصاً ’’معرکۂ قلعہ بوڑھے جال‘‘ کے میجر (ر) تنویر حسین شاہ کی زبانی اصل حقائق سُننے کا لطف آگیا۔ اے کاش کہ پاکستان کی ترقی و خوش حالی کے ضمن میں جذبے ایسے ہی جواں رہیں تو پاکستان آج بھی ترقی یافتہ ممالک کی صف میں کھڑا ہو سکتا ہے۔ شیخ سعدی شیرازی نے گلستان و بوستان لکھ کر ہرزمانے کو اپنا گرویدہ کیا۔ اور ’’آپ کا صفحہ‘‘ کے شہزادہ بشیر محمد نقش بندی کو مبارک باد کہ مسلسل اعزازی چٹھیاں اپنے نام کر رہے ہیں، جب کہ دیگر مستقل نامہ نگاران بھی قابلِ ستائش ہیں۔ (عبدالجبار رومی انصاری، قصور)
ج: چلیں، شہزادہ صاحب کے ’’مسلسل‘‘ میں آج آپ کی رکاوٹ آ ہی گئی۔
* ایڈیٹر صاحبہ اور تمام دوستوں کو احترام و محبت بَھرا سلام! کافی عرصے سے میگزین پڑھ رہا ہوں، مگرآج آپ کی کھٹی میٹھی ڈانٹ سننے کے لیے ای میل پہلی بار کر رہا ہوں۔ ساتھ ’’ڈائجسٹ‘‘ سلسلے کے لیےایک کہانی بھی بھیج رہا ہوں۔ براہِ مہربانی مطلع ضرور کیجیے گا کہ میری شہرۂ آفاق تحریر، میگزین کی زینت کوچارچاند لگانےکےقابل ہےیا ردی کے حوالے ہوگی۔ (مجاہد لغاری، گاؤں قاضی نورمحمّد لغاری،ضلع ٹنڈو الہیار)
ج: شہرۂ آفاق تحریر…؟؟ جوپہلےہی شہرۂ آفاق ہے، اُس کو ’’سنڈے میگزین‘‘ جیسے عام سے جریدےمیں شایع کروا کے کیا کریں گے؟؟ ویسےآپ کی خُود اعتمادی کےلیے کم از کم 21 توپوں کی سلامی تو بنتی ہے۔
* تازہ شمارے میں علامہ اقبال کےفلسفۂ خودی پہ مضمون بہت ہی پسند آیا۔ ’’اسٹائل‘‘ کے رائٹ اَپ میں رانجھے کا نام غلطی سے دوبار لکھ دیا گیا۔ ایک بارہیرکےساتھ اور دوسری بار سوہنی کے ساتھ۔ ویسے کالے لباس پہ کاپر کلر کا کام اور ساتھ میچنگ دوپٹا بہت جچ رہا تھا۔ امریکا کا یہ سفرنامہ بھی کوئی سفرنامہ ہوا کہ ایک ہی ریاست میں گھوم پِھر کے واپس بھی آگئے۔ مجھے لگا، سفرنامہ نگار پورے امریکا کی سیر کروائیں گے۔
’’پیارا گھر‘‘ میں چکن مورنگا کی ترکیب بہت پسند آئی۔ ہمارے پاکستان والے گھر کے صحن میں بھی اِس کا درخت تھا، یہاں تو یہ سبزی کہیں نہیں دیکھی۔ ’’ڈائجسٹ‘‘ کی غزل میں ایک مصرع بے وزن لگا۔ ’’میری آنکھوں میں ابھی تک گھٹا باقی ہے‘‘ میں سے شاید لفظ ’’وہ‘‘مِس ہوگیا۔ افسانہ ’’دو آنسو‘‘ بہت ہی بہترین تحریر تھی۔ اور ’’آپ کا صفحہ‘‘ میں ضیاء الحق کا منظوم تبصرہ بہت پسند آیا۔ اب بس، اپنی ای میل کی اشاعت کا انتظار ہے۔ (قرات نقوی،ٹیکساس، امریکا)
ج: آپ کی ای میلز تو اب تسلسل کے ساتھ شایع ہورہی ہیں۔ انتظارکیوں کرنا پڑگیا؟ اور رانجھے کے نام والی غلطی اچھی نوٹ کی۔ ہم کاپی پریس بھیجنے سے قبل کوئی10بارتواپنا اسکرپٹ پڑھتےہیں، پھر بھی غلطی رہ جائے، توبس پھر بندۂ بشرکا مارجن دے دیا کریں۔
قارئینِ کرام !
ہمارے ہر صفحے، ہر سلسلے پر کھل کر اپنی رائے کا اظہار کیجیے۔ اس صفحے کو، جو آپ ہی کے خطوط سے مرصّع ہے، ’’ہائیڈ پارک‘‘ سمجھیے۔ جو دل میں آئے، جو کہنا چاہیں، جو سمجھ میں آئے۔ کسی جھجک، لاگ لپیٹ کے بغیر، ہمیں لکھ بھیجیے۔ ہم آپ کے تمام خیالات، تجاویز اور آراء کو بہت مقدّم ، بے حد اہم، جانتے ہوئے، ان کا بھرپور احترام کریں گے اور اُن ہی کی روشنی میں ’’سنڈے میگزین‘‘ کے بہتر سے بہتر معیار کے لیے مسلسل کوشاں رہیں گے۔ ہمارا پتا یہ ہے۔
نرجس ملک
ایڈیٹر ’’ سنڈے میگزین‘‘
روزنامہ جنگ ، آئی آئی چندریگر روڈ، کراچی
sundaymagazine@janggroup.com.pk