شگفتہ ضیاء
؎ ’’تُوغنی از ہر دوعالم مَن فقیر… روزِ محشر عذر ہائے مَن پذیر… ور حسابم را تو بینی ناگزیر… از نگاہِ مصطفیٰ پنہاں بگیر۔‘‘ نمازِ فجر کا سلام پھیرا ہی تھا کہ بڑے دنوں بعد دادی جان کی آواز سُنائی دی۔ وہ چھوٹے سے باغیچے میں چہل قدمی کرتے ہوئے اپنے پسندیدہ ترین اشعار ہمیشہ کی طرح ایک جذب کے ساتھ پڑھتی جارہی تھیں۔ بچپن سے سُن سُن کر مجھے اِن کا ہر ہر لفظ ازبر تھا اور مفہوم بھی۔
مَیں بھی اُسی کیفیت میں چلی گئی۔ اے میرے رب! تُو دوجہان کے لیے غنی ہے اور مَیں فقیر، روزِ محشر میرے عُذر قبول فرما لینا، اور اگر میرا حساب لینا ناگزیر ہو تو پھر نگاہِ مصطفیٰﷺ سے پوشیدہ رکھنا۔ مَیں بچپن میں اکثر سوچتی۔ ’’اتنی اچھی دادی جان کو روزِ محشر بھلا کیا پریشانی ہوگی…؟‘‘ مگرجب مَیں اُن سے یہ سوال کرتی، تو وہ مزید دل گرفتہ ہوجاتیں۔ ’’سوہنی! ذرا غور توکر، مَیں کس دروازے سے جنّت میں داخل ہوں گی۔ نہ تو مَیں اتنی عبادت گزار کہ اللہ مجھے باب الریان سے اندر بلا لے۔
نہ اللہ نے مجھ سے کوئی قربانی مانگی کہ شہداء کی طرح میرا استقبال ہو۔ بچپن سے آج تک کرم ہی کرم ہے۔ مَیں تو اِس قابل بھی نہ تھی کہ اللہ مجھے آزماتا۔ میرا رب ہر ضرورت بن مانگے پوری کرتا رہا۔ بس، اِسی سے ڈرتی ہوں، دامن تو خالی ہے میرا…کس دروازے سے اندر پہنچوں گی!!‘‘ اُن کی فکر مندی اور لہجے کی شکستگی مجھے بھی پریشان کر دیتی اور کبھی مَیں بھی سوچنے لگتی، دادی جان کس دروازے سے جنّت میں جا سکتی ہیں۔ اگر اللہ بغیر دروازوں کی جنّت بنا دیتا، تو کتنا اچھا ہوتا۔
٭٭٭٭٭
انٹر کے امتحانات کے بعد ٹیسٹ کی تیاری کے دوران اُن کے ساتھ گزارنے کے لیے کچھ وقت نکالنا میرے لیے ایک خوش گوار سرگرمی تھی۔ دادی جان بتدریج کم زور تو ہوتی جا رہی تھیں، لیکن بیمار نہیں تھیں۔ انہوں نے ایک فعال زندگی گزاری، جو رفتہ رفتہ اُن کی عادتِ ثانیہ اور شخصیت کا حصّہ بن گئی۔ مَیں نے کبھی اُنہیں دیر تک سوتے یا بے کار وقت ضائع کرتے نہ دیکھا۔ بہت سارے کاموں کے درمیان بھی مطالعے کے لیے وقت نکال لیتیں، کیوں کہ یہ اُن کا شوق اور پسندیدہ مشغلہ ہی نہیں تھا بلکہ اُن کی اُمنگِ زندگی، توانائی اور خوشی و اطمینان کے سوتے یہیں سے پُھوٹتے تھے۔
اُن کے پاس زیادہ ڈگریاں تو نہیں تھیں، البتہ اعلیٰ اردو اور فارسی سے بے حد شغف رکھتی تھیں۔ زیادہ تر اقبال اور کبھی رومی اور حافظ کے اشعار تحت اللفظ اور ایسے دل نشیں انداز میں پڑھتیں، گویا شعر، مجسّم ہوجاتا۔ میری کلامِ اقبال سے وابستگی کا پہلا قدم، کان میں ہر دم پڑتے رہنے والے یہی اشعار تھے ؎ اے جوئے آب بڑھ کے ہو دریائے تند و تیز…ساحل تجھے عطا ہو تو ساحل نہ کر قبول۔ ؎ اِسی کشمکش میں گزریں مِری زندگی کی راتیں…کبھی سوز و سازِ رومی، کبھی پیچ و تابِ رازی۔ ؎ نہ تُو زمیں کے لیے ہے، نہ آسماں کے لیے…جہاں ہے تیرے لیے، تُو نہیں جہاں کے لیے۔ اور… اسی طرح کے بہت سے اشعار۔
کبھی بابا، نجم بھائی کی کسی فرمائش پر توجّہ نہ دیتے اور وہ دادی جان کے پاس آکر احتجاج کرتے، تو دادی جان مُسکرادیتیں اور ایک شانِ استغنا سے کہتیں ؎ تعمیرِ خودی کر اثرِ آہِ رسا دیکھ... اور ان کی زیرتربیت وہ دس سالہ بچہ نئی سائیکل، تعمیرِخودی اور رآہِ رسا کے باہمی تعلق کی گُتھی ہی سلجھاتا رہ جاتا۔
جب کوئی بچّہ بار بار اُٹھانے پر بھی نماز کے لیے نہ اُٹھتا، تو نیّت باندھنے سے پہلے سنجیدہ لہجے میں قدرے بلند آواز میں کہتیں ؎ یہ ایک سجدہ، جسے تُو گراں سمجھتا ہے…ہزار سجدوں سے دیتا ہے آدمی کو نجات۔ اور پھر شعر کا مکمل مفہوم سمجھے بغیر دادی جان کا حتمی انداز نماز کے لیے اٹھنے پر مجبور کر دیتا۔
٭٭٭٭٭
شامِ زندگی کی دستک کے باوجود وہ صبحِ تازہ کی طرح سرگرمِ کار رہتیں۔ بَھرے پُرے گھر کے تمام افراد اپنے معمولاتِ زندگی میں مصروف، اور وہ عام عُمر رسیدہ خواتین کی طرح کبھی گھر کے کسی چھوٹے، بڑے کی توجّہ کا بارِ احسان اُٹھائے بغیر اپنے کاموں میں مگن رہا کرتیں۔ چھوٹے بچّوں کو کہانیاں سُنانا اور ہر عُمر کے بچّے کی دل چسپیوں میں دل چسپی لینا بھی اُن کی ایک خوئے دل بَری تھی، جس کے ہم سب اسیر تھے۔ تمام پوتے پوتیوں اور نواسے نواسیوں کے اپنے حساب سے نام رکھے ہوئے تھے۔ کوئی سوہنی تھی، جو زیادہ لاڈ میں چھونی بن جاتی۔
کوئی موہنی، کوئی آبگینہ، کوئی اسکالر تھا، کوئی شاہ زادہ۔ بجیا کے دوپٹا لپیٹے پھرنے سے محظوظ ہوتیں اور اکثر اُنہیں ’’میری سیپ کا موتی‘‘ کہہ کر لپٹا لیتیں۔ نجم بھائی کو مدبّر کہہ کے پکارتیں اور اکثر اُنہیں دیکھ کر ایک خاص لے میں اقبال کا شعر پڑھا کرتیں ؎ کبھی اے نوجواں مسلم! تدبّر بھی کیا تُونے…اور کبھی سوالیہ انداز میں صرف دوسرا مصرع دہراتیں ؎ وہ کیا گردُوں تھا، تُو جس کا ہے اِک ٹُوٹا ہوا تارا۔ جب نجم بھائی چھوٹے تھے، تو ایک روز دادی جان کے اس شعر پر منہ پُھلا لیا اور یہ کہتے ہوئے باہر نکل گئے۔ ’’مَیں کوئی ٹوٹا ہوا تارا، وارا نہیں ہوں۔‘‘ شام تک دادی جان کچھ خاموش اور فکرمند رہیں۔
پھر رات کو اُنہوں نے حضرت عُمرفاروق رضی اللہ کے واقعاتِ زندگی کچھ اس طرح ُسنائے کہ اُس وقت پیدا ہونے والی گرویدگی آج تک دل ودماغ پر نقش ہے۔ اور حضرت عُمر کی شخصیت ایک مینارۂ نور کی طرح صحرائے حجاز کی وسیع وعریض سلطنت کے بیچوں بیچ اِستادہ نظر آتی ہے۔ جب آخر میں ہم ساکت ہو کر دریائے فرات کے نام لکھے جانے والے خط کا قصّہ سُن چکے، تو دادی جان نے نجم بھائی کو بانہوں میں سمیٹ لیا اور گلوگیر لہجے میں بولیں۔ ’’مَیں تمہیں آسمان پر تارے کی طرح چمکتا ہوا دیکھنا چاہتی ہوں لیکن تدبّر کے بغیر یہ روشنی کیسے حاصل ہو سکتی ہے؟؟‘‘ مجھے یقین ہے، اُس رات کے بعد نجم بھائی کو گردُوں، تارے اور تدبّر کے معنی سمجھنے میں مشکل پیش نہیں آئی ہو گی۔
٭٭٭٭٭
ابھی اینٹری ٹیسٹ کی تیاری مکمل بھی نہ ہوئی تھی کہ دادی جان اچانک بیمار ہوگئیں اور بیماری نے چند دن میں وہ شدت اختیار کی کہ وہ بستر ہی کی ہو کر رہ گئیں۔ اب بات چیت کم کرتیں، مگر بےچینی سے کروٹیں بدلتی رہتیں۔ کبھی بہت دیر تک خاموشی سے درو دیوار کو ایسے تکتیں کہ صاف محسوس ہوتا، دیوار کو نہیں دیوار کے پار دیکھ رہی ہیں۔ گویا جسم یہاں ہے، لیکن دل دماغ اور رُوح کسی اور اُدھیڑبُن میں مصروف ہے۔
مجھے سو فی صد یقین تھا کہ یہ بےچینی جسمانی نہیں، کوئی جان لیوا احساس ہے، جو رُوح کو گھائل کیے دے رہا ہے، لیکن ہزار کوشش کے باوجود مَیں سمجھنے سے قاصر تھی۔ اِسی کیفیت میں جب میں ایک دن ان کے بستر کے قریب ان کے نرم ملائم ہاتھ کو ہاتھ میں لیے بیٹھی تھی تو انہوں نے دیوار سے نظریں ہٹاکر میری آنکھوں میں دیکھا اور آہستہ سے لبوں میں حرکت ہوئی۔ ’’سوہنی بیٹا! جنّت کے دروازوں میں شُکر کا دروازہ بھی تو ہو۔
میرے پاس تو اُس پروردگار کے شُکرانِ نعمت کے سوا کچھ بھی نہیں۔‘‘ نہ جانے اِس جملے کے اندر کیا کیا چُھپا ہوا تھا۔ خوف، اندیشے، حسرتیں، تمنّائیں، التجائیں اور اُمیدیں… یقین و بے یقینی بھی۔ انہوں نے اپنے اتنے گمبھیر سوال کے جواب کا انتظار کیے بغیر آنکھیں موند لیں اور آنسو گالوں سے لڑھکتے ہوئے تکیے میں جذب ہوتے رہے۔
پھر اچانک نجم بھائی مِڈ سیمسٹر بریک پر چند دن کے لیے آگئے۔ دادی جان کی مختصر علالت اور منفرد سی کیفیت کی رُوداد موقع ملتے ہی مَیں نے بیان کر ڈالی، جسے وہ بڑی توجّہ سے سُنتے رہے۔ رات وہ اُن کے کمرے ہی میں سوئے۔ اگلا پورا دن انہوں نے دادی جان کے ساتھ گزارا۔
نجم بھائی کو دیکھ کر دادی جان کے چہرے پر تازگی اور آواز میں کچھ جان پیدا ہوئی، لیکن آنکھوں کی نمی سے اَن جانی سی امید و بیم کی کیفیت چھلکتی رہی۔ وہ خُود تو زیادہ بول نہیں پا رہی تھیں، لیکن نجم بھائی کی طرف اِس والہانہ انداز سے متوجّہ تھیں، جیسے کوئی درماندہ مسافر آسمان پر راہنما ستارے کو مجسّم امید بن کر تلاشتا ہو۔
٭٭٭٭٭
ناشتے کی ٹرے لے کر جب مَیں کمرے میں داخل ہوئی، تو نجم بھائی ایک ہاتھ سے اُن کا سر سہلاتے ہوئے دھیمی سی آواز میں باتوں میں مگن تھے۔ ’’آپ نے تو ہمیں ہمیشہ عقل کے مقابلے میں عشق کی فوقیت کا سبق سکھایا، آپ ہی نے تو ہمیں گھول کر پلایا تھا کہ ؎ اچھا ہے دل کے ساتھ رہے پاسبانِ عقل…لیکن کبھی کبھی اُسے تنہا بھی چھوڑ دے۔ اور اب آپ اُسے تنہا نہیں چھوڑ رہی ہیں اور ہر چیز کو علم اور کتاب کے پیمانے سے ناپ کر پریشان ہو رہی ہیں!!‘‘دادی جان نے بے بسی سے اُن کی طرف دیکھا، مگر بولیں کچھ نہیں۔ ’’آپ کو یاد ہے، یونی ورسٹی جانے سے پہلے مجھے ایک سنہری موقع مِلا تھا، آپ کے ساتھ وقت گزارنے کا۔
یاد ہے ناں دادی جان؟ مَیں خیام کو پڑھنا چاہتا تھا، لیکن آپ نے کہا ’’مدبّر! تمہیں تو اکیسویں صدی کے تاریک آسمان پر ستارہ بن کے جگمگانا ہے، اقبال شناس نہیں ہو گے تو چمکو گے کیسے؟‘‘ دادی جان کی آبگیں آنکھوں میں یادوں کے دیپ جلتے بجھتے رہے اور نجم بھائی بولتے رہے… ’’پھر آپ کو یاد ہوگا، آپ نے مجھے زبورِ عجم، ارمغانِ حجاز اور ضربِ کلیم کی چیدہ چیدہ نظمیں پڑھائیں۔ چلیں، آج مَیں آپ کو ’’علم و عشق‘‘ سُناتا ہوں… آپ نے کہا تھا، ضربِ کلیم کی اس نظم سے زندگی، بلکہ مابعد حیات کے سبھی مراحل طے ہو جاتے ہیں۔‘‘ دادی جان ہمہ تن گوش تھیں اور نجم بھائی بالکل دادی جان کی طرح ہر لفظ کی شستہ اور واضح ادائی کے ساتھ نظم پڑھنے لگے۔
٭٭٭٭٭
؎ ’’علم نے مجھ سے کہا، عشق ہے دیوانہ پن…عشق نے مجھ سے کہا، علم ہے تخمین و ظن…بندۂ تخمین و ظن! کِرمِ کتابی نہ بن… عشق سراپا حضور، علم سراپا حِجاب…عشق کی گرمی سے ہے معرکۂ کائنات…علم مقامِ صفات، عشق تماشائے ذات…عشق سکُون و ثبات، عشق حیات و ممات…علم ہے پیدا سوال، عشق ہے پِنہاں جواب…عشق کے ہیں معجزات سلطنت و فقر و دِیں…عشق کے ادنیٰ غلام صاحبِ تاج و نگیں…عشق مکان و مکیں، عشق زمان و زمیں…عشق سراپا یقیں، اور یقیں فتحِ باب!!
ناشتے کی ٹرے جوں کی توں میز پر دَھری تھی، دادی جان کا چہرہ پرسُکون تھا، وہ سکینت کی نہ جانے کس منزل پہ گام زن تھیں، ہونٹ آہستگی سے ہل رہے تھے۔ ’’اور یقیں فتحِ باب…اور یقیں فتحِ باب۔‘‘ شاید جنّت کے سب دروازے کُھل چُکے تھے۔
ناقابلِ اشاعت نگارشات اور ان کے تخلیق کار برائے’’صفحہ ڈائجسٹ‘‘
پردہ رہ گیا(ثمینہ نعمان)مدد ایسے بھی ہوتی ہے(مبشّرہ خالد) مَن چاہی زندگی (آسیہ محمد عثمان) مختصر کہانیاں(رفیق زاہد، گوادر، بلوچستان) دھڑکن (ریطہ فرحت) وقت پردَم، وقت کا پھیلائو(شہیرہ عنایت، کوٹ ادّو) معیار (عشرت جہاں، لاہور) دھوکا (محمّد علی سحر، محمود آباد، کراچی) مانو کی نند (محمد نعمان جاوید،کراچی) منتقل (ادینہ صدیقی)ماں کی گود (افروز عنایت)کب ہوجاتا ہے حلال، حرام (ارم نفیس ناظم آباد، کراچی)، عشقِ محرم (ارسلان اللہ خان)۔