کرن نعمان
اُس کا نام حریم تھا اور عُمر سولہ سال۔ اسکول میں اُس کا آخری سال تھا۔ میرا اور اُس کا تعلق صرف دو سال پرانا تھا۔ اِس سے پہلے بھی مَیں اُسے دیکھتی ضرور تھی، پر بات شاذ و نادر ہی ہوتی تھی۔ ملتان کے اِس گورنمنٹ اسکول میں اب میری حیثیت سینئر ٹیچر کی تھی۔ حریم کا شمار اسکول کی اُن چند ایک پُرجوش و پُرعزم لڑکیوں میں ہوتا تھا، جو ہر میدان میں آگے رہنے کی متمنّی ہوتی تھیں۔ کلاس میں ہمیشہ اول، کھیل کے میدان میں فاتح اور شاعری، ڈیبیٹس کے مقابلوں کی بھی ونر۔
وہ ہر ٹیچر کی پسندیدہ تھی، تو ہرلڑکی بھی اُس سےمرعوب ہی دکھائی دیتی۔ اور اِن سب باتوں کے ساتھ وہ بے حد فیشن ایبل بھی تھی۔ جب کہ صرف اِسی ایک بات پر وہ کبھی کبھی ٹیچرز سے ڈانٹ بھی کھاتی تھی کہ یونی فارم میں ہونے کے باوجود اُس کے اسٹائل میں فیشن کی جھلک نمایاں ہوتی تھی۔
اُس کی عُمر کی دوسری لڑکیاں اسکول آتے جاتے چادر یا دوپٹا اوڑھتی تھیں، لیکن مَیں نے اُسے کبھی دوپٹےمیں نہیں دیکھا۔ وہ صرف یونی فارم کے ساتھ دی گئی، وی ہی استعمال کرتی تھی اور اکثر چُھٹی کے وقت وہ بھی اُس کے کندھے پر جھول رہی ہوتی تھی۔ بال کُھل جاتے تھےاور اُس کےبلند آواز، شوخ قہقہے اکثر گیٹ کے پار کھڑے مَردوں کو بھی اپنی جانب متوجّہ کر لیتے تھے۔
اسکول کی میڈم سے لے کر چپراسی تک ہر کسی سے اُس کی اچھی بنتی تھی، لیکن میرے اور اُس کے درمیان ایک تناؤ ہمیشہ موجود رہا تھا۔ اُس نے بظاہر مجھ سے کبھی بدتمیزی نہیں کی تھی، لیکن اسکول میں چلتے پِھرتے، اپنی سہیلیوں سے بات چیت کرتے، وہ اکثر باآوازِ بلند مجھے تنقید کا نشانہ بنایا کرتی تھی یا کم از کم مجھے ایسا ہی لگتا تھا۔ جس کی واحد وجہ مجھے یہی سمجھ آتی تھی کہ میرا پردہ اور گاہے بگاہے کلاس میں بچیوں کو اخلاقی طور پر اچھے، بُرے کا فرق سمجھاتے رہنا، اُسے کھلتا تھا۔
میری اِن باتوں سے کلاس کی کئی بچیاں متاثر ہوتی تھیں، تو کئی ایک کان سے سُن کر دوسرے سے اُڑا دیتی تھیں۔ لیکن حریم واحد تھی، جو اکثر مجھ سے باقاعدہ بحث مباحثہ کیا کرتی اور کُھل کر پردے کو تنقید کا نشانہ بھی بناتی۔ کبھی کبھی میرے دل میں خیال آتا کہ مَیں اُسے قائل کروں۔ مگر مَیں نے دانستہ کبھی یہ کوشش نہیں کی، کیوں کہ مَیں سمجھتی تھی کہ پردہ جب تک دل کی رضامندی سے نہ ہو، اُس کا مقصد ہی پورا نہیں ہوتا۔ اور مَیں ہمیشہ کلاس کو ٹینشن کے ماحول سے بچانے کے لیے اُسے درگزر ہی کردیا کرتی تھی، مگر پچھلے تین چار ماہ سے یہ سلسلہ کچھ زیادہ ہی دراز ہوگیا تھا۔
شاید میرے مسلسل درگزر نے اُس کی ہمّت بڑھا دی تھی۔ اُنہی دنوں اسکول میں ’’پیرنٹس، ٹیچرمیٹنگ‘‘ ہوئی، تو مَیں نے پہلی بار اُس کی ماں کو دیکھا۔ انتہائی دل کش، نفیس عورت، سلیقے سے چادر میں لپٹی ہوئی۔ وہ میرے سامنے آکر بیٹھ گئیں اور چند ایک نصابی باتوں کے بعد کہنے لگیں۔ ’’میں یہاں صرف آپ کو دیکھنے آئی تھی۔‘‘ میرے وجہ پوچھنے پر بولیں۔ ’’بس ویسے ہی۔ حریم بہت ذکر کرتی ہےآپ کا۔‘‘
پھر کچھ ہچکچاتے ہوئے پوچھنے لگیں۔’’آپ کو کوئی شکایت تو نہیں اُس سے؟‘‘ مَیں سمجھ گئی کہ وہ گھر میں بھی میرے خلاف بولتی رہتی ہوگی۔ مَیں چند لمحے اُس کی ماں کو خاموشی سے دیکھتی رہی۔’’آپ فکر نہ کریں۔ ان شاءاللہ وہ کام یاب ہو جائےگی۔‘‘ اور، مَیں نے دیکھا۔ میرے سامنے بیٹھی عورت ندامت کی تصویر ہوگئی۔
اگلے کچھ دنوں میں مجھے حریم کا رویّہ بدلا ہوا لگا۔ اب وہ مجھے طنز بَھری نظروں سے نہیں دیکھتی تھی بلکہ ایک سختی اور جھنجھلاہٹ بَھرا تاثر اُس کی نگاہوں میں آ ٹھہرا تھا۔ دِلوں کے حال تو اللہ بہتر جانتا ہے، لیکن اُس کی لاکھ میرے لیے ناپسندیدگی کے باوجود میں اُسے ناپسند نہیں کرسکی تھی۔ وہ میری دُعاؤں میں سب سے زیادہ شامل رہتی تھی اور نہ جانے کیوں مجھے یقین تھا کہ ایک دن اُس کے دل کی کایا پلٹ جائے گی۔
اِس سے پہلے کہ میٹرک کلاس فارغ ہوتی، ایک دن وہ میرے پاس آ گئی۔ اُس نے اپنے رویّوں کی مجھ سے معافی نہیں مانگی۔ کہنے لگی۔ ’’اگر آپ کو یہ لگتا ہے کہ مَیں نے آپ کے ساتھ غلط رویّہ رکھا، تو آپ نےمجھے سمجھایا کیوں نہیں؟؟‘‘ ایک لمحے کو تو دل چاہا کہ اُسے خُوب ڈانٹوں۔ پر، مَیں جوش پر ہوش کو ترجیح دینے کی عادی تھی۔
مَیں نے نہایت نرمی سے اُس کے کندھے پر ہاتھ رکھا۔ ’’کیا ضروری ہے، سمجھانے کے لیے الفاظ ہی کا سہارا لیا جائے؟؟‘‘ وہ کچھ نہیں بولی۔ پر نگاہ جُھک گئی۔ ’’مجھے لگتا ہے ٹیچر! یہ پردہ مذہب کی چادر ہے، جو آپ جیسی عورتیں ہر وقت خُود پر چڑھائے رکھتی ہیں۔ یہ ایسی دیوار ہے، جو ہمیشہ آپ کے اور میرے بیچ حائل رہی ہے۔ مجھے یہ بات عجیب لگتی ہے کہ…‘‘ وہ تذبذب میں مبتلا ہو کر انگلیاں مروڑنے لگی۔ اُس کی بات نے مجھے شدید حیرت سے دوچار کیا تھا، لیکن مَیں نے جلد اپنی حیرت پر قابو پالیا۔
’’تم مجھ سے اپنے دل کی ہر بات شیئر کرسکتی ہو۔‘‘ اس کی آنکھوں میں ممنونیت کی جھلک اُبھری۔ ’’مجھے لگتا ہے ٹیچر! ہم پردے سے چہرہ چُھپا سکتے ہیں، لیکن خُود کو خواہش کرنے سے روک نہیں سکتے۔ کپڑے کا یہ چھوٹا سا ٹکڑا، مرد کی نگاہ اور عورت کے چہرے کے درمیان آڑ ہوسکتا ہے، پر عورت کی نگاہ اور مرد کے وجود کے درمیان کچھ حائل نہیں ہوتا۔ نہ ہی دل پر پردہ ڈالا جا سکتا ہے، پھر صرف اور صرف چہرہ چُھپا لینے سے کیا فائدہ!!‘‘ ایک سولہ سالہ لڑکی کے منہ سے نکلنے والی یہ باتیں میرے لیے تعجب خیز تھیں۔
مَیں نے بمشکل تھوک نگلا، کیوں کہ مجھے اندازہ ہوگیا تھا کہ عام انداز سے اُسے کوئی نصیحت کرنا بےکار ہے۔ مجھے لگا کہ لفّاظی کے پردے میں وہ مجھے اپنے دل کا راز بتا گئی ہے۔ مَیں نے دل ہی دل میں اللہ سے مدد چاہی۔ اُس کے ہاتھ میں ایک اسپورٹس میگزین تھا، جس کے سرِورق پر ایک کرکٹ اسٹار کی تصویر نمایاں تھی۔ مَیں نے اُس کے ہاتھ سے میگزین لے کر تصویر والا پیج پھاڑ دیا۔ ’’چیزوں کی کشش اُس وقت تک ہوتی ہے، جب تک ہم اُنہیں دیکھتے رہتے ہیں، لیکن جب ہم ایک شعوری کوشش کرکے اُس خاص چیز یا منظر یا انسان سے نظر پھیر لیتے ہیں، تو آہستہ آہستہ اُس کی کشش ماند پڑجاتی ہے۔
بہت جلد اُسے دیکھنے پر اکساتی چبھن کا احساس بھی ہمارے اندر سے نکل جاتا ہے اور اِس خلا کو پُر کرنے کے لیے ایک نیا احساس ہمارے اندر بُھر جاتا ہے۔ اور، وہ احساس ہوتا ہے، شرمندگی کا پشیمانی کا۔ پھر یہ شرمندگی، پشیمانی کسی بھی نئی چیز اور احساس کو ہمارے اندر گھر کرنے سے روکے رکھتی ہے۔‘‘ مَیں نے اُس کے سامنے اُس تصویر کے پرزے پرزے کیے اور قریبی ڈسٹ بِن میں پھینک کر وہاں سے چلی آئی۔ لیکن مجھے یقین تھا، اُس کی نظر بہت دور تک میرے ساتھ رہی تھی۔
اُس دن کے بعد وہ مجھے اسکول میں کبھی نظر نہیں آئی۔ لیکن تقدیر نے ہماری ایک ملاقات مزید طے کی ہوئی تھی۔ جب دس سال بعد میں اپنے بھائی سے ملنے کراچی آئی، تو ایک شاپنگ سینٹر میں پیچھے سے کسی کی صدا پر مجھے رکنا پڑا۔ میں اُسے نہیں پہچانی، پر وہ مجھے میرے نقاب اور حجاب کے اسٹائل سے پہچان گئی تھی۔ اُس نے مجھے اپنے شوہر اور دو چھوٹے چھوٹے بچّوں سے ملوایا۔
وہ مجھ سے مل کر بچّوں کی طرح خوش تھی۔ اُس کا شوہر بچّوں کو پلے ایریا کی طرف لے گیا، تو وہ مجھے کیفے ٹیریا کی طرف لے آئی۔ مجھے اُس میں کچھ تبدیلی سی محسوس ہوئی تھی۔ وہ مجھ سے اسکول کی باتیں پوچھتی رہی اور اپنی زندگی میں آنے والی تبدیلیوں کا بھی بتاتی رہی۔ لڑکی سے عورت پن کا بہت واضح فرق جھلک رہا تھا، اُس کی ذات سے۔
مجھے چوں کہ جلدی گھر پہنچنا تھا، اس لیے مَیں جلد وہاں سے اُٹھ گئی، لیکن جاتے جاتے اس نے ایک عجیب بات مجھ سے کہی۔ ’’ٹیچر! اگر آپ اُس دن میرے سامنے وہ تصویر نہ پھاڑتیں، تو شاید آج مَیں خواہشاتِ نفس کے پیچھے بھاگتی ایک ایسی دنیا میں جا بسی ہوتی، جہاں رہنے والیاں عزت و احترام کی دنیا میں بسنے کے خواب دیکھتی ہیں۔
مَیں آپ کی احسان مند ہوں کہ آپ نے مجھے نگاہ کی حفاظت اور خواہش سے روکے رہنے کا درس دے کر میری زندگی کو بہت بڑی تباہی سے بچا لیا۔‘‘ اور… یہ کہہ کر وہ مجھے الوداع کہتی پلے ایریا کی طرف بڑھ گئی۔ لمحہ لمحہ مجھ سے دُور جاتی حریم نے مجھے حیران کردیا تھا۔ سب سے زیادہ حیرت مجھے یہ دیکھ کر ہوئی تھی کہ اُس کا وجود بڑے سے دوپٹے سے ڈھکا اور سر اور چہرہ حجاب سے کورڈ تھا۔