تحریر: نرجس ملک
ماڈل: مصباح
ملبوسات: اویس کلیکشن
آرائش: دیوا بیوٹی سیلون
عکّاسی: عرفان نجمی
لے آؤٹ: نوید رشید
کسی نے ایک طویل، خوش گوار زندگی کے لیے اِک چھوٹا سا نسخہ لکھ بھیجا۔ ’’بھوک سے آدھا کھائو، ضرورت سے دگنا چلو، خواہش سے سہہ گنا ہنسو مُسکراؤ اور لامحدود، بے شمار و بے پناہ محبّت بانٹو۔‘‘ کہنے کو نسخہ چھوٹا سا ہے، مگر غور کیا جائے، تو واقعتاً ایک بہترین زندگی کے لیے کامل کلیہ ہے۔
دینی اعتبار سے بھی بھوک رکھ کے کھانے، محنت و مشقّت کرنے، ہمہ وقت متحرک رہنے، نرم دلی و نرم خوئی کے ساتھ ہونٹوں پر ہمہ وقت مسکراہٹ سجائے رکھنے (احادیثِ نبوی ﷺ میں کسی کی طرف مُسکرا کر دیکھنے، کسی سے اچھی بات کہنے، کسی کو برائی سے روکنے، اپنے ڈول سے کسی دوسرے مسلمان بھائی کے ڈول میں پانی ڈالنے، راستے سے تکلیف دہ چیز ہٹانے، کسی نابینا کو رستہ دکھانے اور کسی کے لیے دُعا کرنے کو بھی ’’صدقہ‘‘ قرار دیا گیا ہے) اور اپنوں، غیروں سے ہمیشہ حُسنِ اخلاق کا مظاہرہ کرنے، پیار و محبّت تقسیم کرنے ہی کا حُکم ہے۔
وہ مبارک صدیقی کی ایک بہت خُوب صُورت سی غزل ہے ناں ؎ خزاں کی رُت میں گلاب لہجہ بنا کے رکھنا، کمال یہ ہے… ہوا کی زد پہ دیا جلانا، جلا کے رکھنا، کمال یہ ہے… ذرا سی لغزش پہ توڑدیتے ہیں سب تعلق زمانے والے… سو، ایسے ویسوں سے بھی تعلق بنا کےرکھنا، کمال یہ ہے… کسی کودینا یہ مشورہ کہ وہ دُکھ بچھڑنے کا بھول جائے… اور ایسے لمحے میں اپنے آنسو چُھپا کے رکھنا، کمال یہ ہے… خیال اپنا، مزاج اپنا، پسند اپنی، کمال کیا ہے… جو یار چاہے، وہ حال اپنا بنا کے رکھنا، کمال یہ ہے… کسی کی رہ سے خدا کی خاطر اُٹھا کے کانٹے، ہٹا کے پتھر… پھر اُس کے آگے، نگاہ اپنی جُھکا کے رکھنا، کمال یہ ہے… وہ جس کو دیکھے، تو دُکھ کا لشکر بھی لڑکھڑائے، شکست کھائے… لبوں پہ اپنے، وہ مُسکراہٹ سجا کے رکھنا، کمال یہ ہے۔ تومانا کہ ایک خوش گوار، بہترین زندگی کا کلیہ بظاہر چند لفظی ہے، مگر یہ اتنا بھی آسان نہیں۔ وہ کیا ہے کہ دنیا کےطرزِعمل کے مقابل اتنا ’’کُول‘‘، ٹھنڈا، پُرسکون اورمتحمّل ردّعمل دینا ایک ’’کمال‘‘ ہی ہے اور ہر ایک سے اِس کمال کی توقع نہیں رکھی جاسکتی، وگرنہ تو دنیا جنّت کے مثل نہ ہوجائے۔
خصوصاً ہماری عمومی معاشرتی و معاشی ابتر حالت، نتیجتاً بدترین خانگی حالات نے تو اچھے بھلے ٹھنڈے، دھیمے مزاج لوگوں کو بھی اِس قدر پریشان حال کردیا ہے کہ کسی کا ہم درد، مونس و غم خوار ہونا تو دُور، وہ تو خُود بھی ہنسنا مُسکرانا بھولتے جا رہے ہیں، جب کہ حضرات کی نسبت خواتین کچھ زیادہ ہی دباؤ اور تناؤ کی شکار نظر آتی ہیں۔
کسی ملازمت پیشہ خاتون سے بات کر کے دیکھیں یا کسی خانہ دار عورت سے، چھوٹی بچیوں، نوعُمر لڑکیوں بالیوں، سیانی بیانی عورتوں سے لے کر عُمر رسیدہ، بوڑھی خواتین تک، ہرایک کے پاس اپنے اپنے مسائل، فِکروں، پریشانیوں کی گویا ایک پوری بَھری گٹھری، لمبی فہرست موجود مِلے گی۔
بات یہ ہے کہ دورِ حاضر اِس قدر افراتفری، نفسا نفسی، آپا دھاپی کا ہے کہ آج ہر شخص اپنی اپنی جنگ، اپنے ہی زورِ بازو پہ لڑ رہا ہے۔
اپنے دُکھ، دلدّر دُور کرنے ہیں، تو خُود ہی کوشش و جستجو کرنی ہوگی۔ پہلے خُوب بھاگ دوڑ، دوڑ دھوپ ہوگی، تب ہی خوشیوں، مسرّتوں کا حصول بھی ممکن ہے۔ طشتری میں سجا سجایا کچھ نہیں ملے گا، علاوہ ہماری اِس بزم کے۔ جو سال ہا سال سے بِناء آپ کے کہے، ہم ہر ہفتے صرف اس خواہش اور اُمید پہ سجا لاتے ہیں کہ خواتین کے فطری شوق کی کسی طور تو تکمیل ہو اور ایک سے بڑھ کر ایک رنگ و انداز دیکھ کے کچھ دیر کے لیے ہی سہی، اَکھین، مَن آنگن میں اِک قوسِ قزح سی تو اُترے، بِکھرے۔
تو چلیں بھئی، آج ہماری محفل روایتی انداز سے لے کر چند جدید طرز پہناووں تک سے مرصّع ہے۔ ذرا دیکھیے، سفید رنگ میں خُوب صُورت لیس ورک سے آراستہ کاٹن کے دل کش قمیص (لانگ شرٹ) پاجامے، دوپٹّے کا انداز جداگانہ ہے، تو سیاہ اور کاسنی رنگوں میں جارجٹ کی حسین میکسیز کےاسٹائل کے بھی کیا ہی کہنے۔
پھر جینز کے ساتھ چھوٹے چیک کی مردانہ طرز فرنٹ اوپن شرٹ کی جاذبیت ہے، تو ہلکے پستئی رنگ میں پلین جارجٹ اور نیوی بلیو شیڈ میں پھول دار پرنٹڈ شرٹ کا بھی جواب نہیں۔ جاتےجاتے خوش گوار زندگی کے لیے ایک اور نصیحت گرہ میں باندھ لیں۔
’’زندگی میں کسی کو بھی کسی بھی سبب مطعون نہ کریں کہ اچھے لوگ اگر آپ کو کوئی دلی خُوشی دے جاتے ہیں، تو بُرے لوگ عُمر بھر کے لیے ایک تلخ تجربہ۔ بدترین افراد سے آپ کوئی نہ کوئی سبق سیکھتے، درس حاصل کرتے ہیں، تو بہترین افراد ہمیشہ کےلیےآپ کی حسین یادوں کا حصّہ بن جاتے ہیں۔‘‘ اب اِن ملبوسات میں سے جو دل کو زیادہ بھا جائے، اُسے اپنانے کا ارادہ باندھیں اور پھر اپنی کسی سکھی سہیلی سے یہ سرگوشی بھی سُن لیجیے گا ؎ حیراں ہیں سارے آئینے ماضی و حال کے..... جلوے بِکھر گئے ہیں، یہ کس خوش جمال کے۔