پنجاب کے دارالحکومت لاہور میں اسموگ(فضائی آلودگی)اور فوگ سے صورتحال ابتر ہوگئی ہےاور اس کے اثرات وسطی پنجاب کےگنجان آباد اضلاع تک پھیل گئے ہیں۔جس سے پورے علاقے میں ناک، کان اور گلے کی بیماریوں نے تشویشناک صورت اختیار کرلی ہے۔حکومت پنجاب نے وزارت خارجہ کو اس صورتحال کے تدارک کیلئے بھارت سے بات چیت کی تجویز دی ہےکیونکہ اس وبا کا منبع مشرقی پنجاب ہے جہاں کسان فصلوں کی باقیات جلارہے ہیںاور ہوا کا رخ مشرق سے مغرب کی جانب ہونے کے باعث جلائی جانیوالی فصلوں اور کچرے کے دھوئیں سے ضلع لاہور سب سے زیادہ متاثر ہوا ہےاور اسکے اثرات نے نہ صرف وسطی بلکہ جنوبی پنجاب کے گنجان آباد اضلاع کو بھی لپیٹ میں لے لیا ہے۔امریکی خلائی ادارےکے مطابق بھارت سے آنے والی ہوائوں کی وجہ سے اتوار کو لاہور عالمی ایئر کوالٹی انڈیکس میں پہلے نمبر پر رہا۔خود بھارت میں بھی مشرقی پنجاب سے مغربی بنگال تک اسموگ نے تباہی پھیلادی ہےاور آلودگی میں دہلی اور کلکتہ دنیا میں دوسرے اور تیسرے نمبر پر آگئے ہیں۔اسموگ کے منفی اثرات بچوں اور بوڑھوں پر زیادہ مرتب ہوتے ہیں جس کی وجہ سے حکومت پنجاب نے انھیں گھروں سے باہر نکلنے سے منع کردیا ہےاور پرائمری اسکول ایک ہفتے کیلئے بند کردیے ہیں۔اس مدت میں توسیع بھی ہوسکتی ہے۔ انسانوں کے علاوہ حیوانات اور بجلی کا نظام بھی اس سے متاثر ہوسکتا ہے جس کے تدارک کیلئے صوبائی حکومت مختلف اقدامات کررہی ہے۔ان میں گرین لاک ڈائون کے قلیل اور درمیانی مدت کے اقدامات شامل ہیں۔احتیاطی تدابیر کی خلاف ورزی کرنے والوں کو گرفتار اور جرمانے عائد کرنے کی تنبیہ کی گئی ہے۔کسانوں سے کہا گیا ہے کہ فصلوں کی باقیات کو نہ جلائیں،عام لوگ گھروں سے اشد ضرورت کے بغیر باہر نہ نکلیں اور ملازمت پیشہ افراد جہاں تک ممکن ہو ،گھروں پر ہی کام کریں۔لوگوں پر ماسک پہننے کی پابندی بھی عائد کی گئی ہے۔حکومت پنجاب نے صورتحال سے نمٹنے کیلئے مصنوعی بارش برسانے کی ٹیکنالوجی حاصل کرلی ہے ،جسے بوقت ضرورت بروئےکارلایا جاسکتا ہے۔ماحولیاتی تحفظ کے ادارے میں جنگی بنیادوں پر کام ہورہا ہے۔اور اس مقصد کیلئے وارروم قائم کردیا گیا ہے۔پنجاب کی سنیئر وزیر مریم اورنگ زیب نے ایک پریس کانفرنس میں اسموگ اور فوگ کی تباہ کاریوں سے لوگوں کو خبردار اور انسانی جانوں کو درپیش خطرات سے آگاہ کیا ہے۔اسموگ صرف لاہور اور وسطی پنجاب ہی کیلئے خطرناک نہیں ،ہوائیں اس کے اثرات دوسرے علاقوں تک بھی لے جاسکتی ہیںکیونکہ ہوا پر کسی کا کنٹرول نہیں جو اپنا رخ خود متعین کرتی ہے۔مشرقی پنجاب میں اس وقت جالندھر ،لدھیانہ، چندی گڑھ، بٹھنڈہ، کرنال، گورداسپور، امرتسر اور اٹاری وغیرہ فوگ کی لپیٹ میں ہیں اور ہوائیں اس کے تباہ کن اثرات لاہور اور وسطی پنجاب تک پہنچا رہی ہیں۔یہ مسئلہ بھارت کی مدد کے بغیر حل نہیں ہوسکتا ،اسلئے ضروری ہے کہ پاکستان پڑوسی ملک سے رابطہ کرکے اس پر قابو پانے کی تدابیر اختیار کرے۔ اسموگ اور دھند سے سڑکوں پر ٹریفک میں بھی مشکلات پیش آرہی ہیں اور حادثات رونما ہورہے ہیں۔موسمیاتی تبدیلی کے اثرات سے اس وقت پوری دنیا دوچار ہے اوران پر قابو پانے کیلئےسنجیدہ کوششیں بھی ہورہی ہیں لیکن پسماندہ اور ترقی پذیر ممالک کیلئے یہ مسئلہ وقت گزرنے کے ساتھ گھمبیرتر ہوتا جارہا ہے۔ایک سروے کے مطابق 2070ءتک پاکستان اس کی وجہ سے قدرتی وسائل کے بھاری نقصانات سے دوچار ہوسکتا ہے جو ایک قومی المیہ ہوگا۔وفاقی حکومت کو بھارت کے ساتھ سفارت کاری کے ذریعے پیش قدمی کرنا ہوگی۔