گزشتہ سے پیوستہ
قارئین کرام ! ’’آئین نو‘‘ کے جاری موضوع پر 2نومبر کی پہلی اشاعت میں واضح کیا گیا تھا ،اپریل 22کے پس منظر میں ’’ہارس ٹریڈنگ اور بیرونی مداخلت یا دھمکی ‘‘ کی سیاسی کج بحثی ملکی سیاسی ابلاغ پر جاری ہو کر عمران حکومت کے خاتمے کیساتھ جو آئینی بحران پیدا ہوا تھا وہ انڈے بچے دیتا مختلف شکلیں اختیار کرتا بدستور جاری ہے۔اقتدار سے محروم ہوتے ہی عمران خان کی مقبولیت کا گراف اور انکا عوامی رابطے کا گراف تیزی سے بلند ہوتا بے قابو ہوا تونہلے پہ دہلا (کتنے ہی نوعیت کے عدالتی و سیاسی کھلواڑ کے بعد 8فروری واضح نتائج یکسر پلٹ کر موجود متنازع حکومت کا قیام ہوا سپریم کورٹ کے انتہائی حساس عدالتی فیصلے کے غلط تشریحی (بقول سابق چیف جسٹس) ماورا ئےآئین مقتدر بن گئے الیکشن کمشنر نے کرکے اسی پر عملدرآمد کے حوالے سے اپنا تباہ کن تشخص دھڑلے سے جاری رکھا ،یوں الیکشن کا عوامی اعتبار آج زیرو ہے۔ 26ویں ترمیم جس طرح ہوئی نتیجتاً سپریم کورٹ کا ٹیلر میڈاور مکمل مرضی کا سیٹ اپ مسلط کرنے کیلئے ’’انصاف کی تیز تر فراہمی ‘‘کی آڑ میں غیر جمہوری جتن جاری ہیں کوئی محقق اتنی معمولی سی تحقیق کرکے واضح کر دے کہ اپریل 22سے جاری اس ملکی پرآشوب بحرانی کیفیت میں عشروں سے مسلسل بڑھتے سماجی انصاف کے بلند درجے پر اچانک تیز ترین انصاف کی فراہمی کیلئے سپریم کورٹ کے ججز بڑھانے کا سیاسی بیان کب اور کس خبری ماحول میں سیاسی ابلاغ اور میڈیا کے تجزیوں میں جگہ بنانے لگا تو سپریم کورٹ کی توسیع کے پس پردہ حکومتی نیت کا پردہ مکمل چاک ہو جائیگا ۔گویا عوام کوتیز تر انصاف کی فراہمی اچانک تب یاد آئی جب عدلیہ پر انتظامیہ کو بذریعہ متنازع قانون سازی بھی آسان نہیں رہا مجوزہ 27ویں ترمیم الگ معاشرے کو مزید خوفزدہ کرنے کا سبب بن رہی ہے۔ یوں آئین، قانون، عدلیہ، پارلیمان اور حکومت سب کے سب متنازع ہو گئے اور حکومت کے نزدیک اپوزیشن فتنہ، تو ایک ہی راہ رہ گئی ہے کہ ریاستوں کےتمام نظام صرف حکومتی و سیاسی ہی نہیں تعلیمی و صحت اور انتظامی و زراعت و خوراک سے لیکر سلامتی و دفاع اور داخلی امن تک مختلف مخصوص علوم (ڈسپلنز یا باڈیزآف نالج) کے اطلاق کے تابع ہیں انہی علوم کی دریافت، ارتقا اور جلابخشی سے آج کی جدیددنیا کے مختلف پیشے (پروفیشن ) نےانسان کے ارتقا و ترقی کو ایسا عروج بخشا کہ عروج آدم خاکی سے انجم سہمے جاتے ہیں کہ یہ ٹوٹا ہوا تارہ (مطلب جنت سے نکال کر زمین پر لایا گیا) مہ کامل( چودھویں کا چاند) نہ بن جائے ۔مرشد اقبال کی اس VISUALIZATIONکا عمل میں ڈھل جانا آج علوم کی عملی شکل اور مختلف پیشہ ہائے زندگی کا ہی کمال و شاہکار ہے۔
قارئین کرام ! متذکرہ ملکی سیاسی تناظر میں آئین و قانون کی اپنی اپنی تشریح پر صرف سیاسی جماعتوں کا ہی نہیں اداروں کے اندر بھی اور موجود حکومت کا متنازع تشخص ،بحران کے ختم اور تیزی سے کم کرنے کی قومی ضرورت کے حصول میں جتنی بڑی رکاوٹ بن گیا اس سے مسلسل ایک سے بڑھ کر ایک تفرقے ہی پیدا ہو رہے ہیں مملکت کی اہم ترین مقتدر شخصیات اور قوت اخوت عوام کے نمائندوں میں حائل سیاسی خلیج پاٹنا محال ہو گیا ایسے میں گورننس، سیاست، سماجی رویوں میڈیا اور سب سے بڑھ کر تباہ حال بنیادی اخلاق اور اسکی ذمے دار سیاسی جماعتوں کے عملی کردار کو علوم کے اطلاق کے دائروں میں لانا ہوگا۔ یہ اتنی فوری و اولین قومی ضرورت عشروں سے موجود ہے لیکن اسے میڈیا بھی بوجوہ اپنا ایجنڈا نہیں بنا پایا۔ ہم پر مسلط اسٹیٹس کو( نظام بد) میں تبدیلی برپا کرکے اس حساس ترین ضرورت کو پورا کرنا سیاسی جماعتوں اور حکومتوں کا کام ہے لیکن ہر دو اس سے بیزار ہیں یا انہیں اس کا شعور بھی مطلوب درجے سے بہت کم تر ہے جب کبھی گورننس کے بڑے بڑے ڈیزاسٹر ہوتے ہیں جیسے پی آئی اے بحران کا اختتام 10ارب کی بولی یا صوبوں کی اس سے کئی گنا حاصل کرنے کی پیشکش، یا گندم کی تیار اور شاندار فصل سے قبل برابر مقدار میں ہی جزواً گلی سڑی گندم کی درآمد یا بڑے ڈیزاسٹر میڈیا کے جارح فالو اپ کا موضوع بن جائے تو پھر ٹیکنو کریٹس کی حکومت لائے جانے کی افواہیں گردش کرتی ہیں یا انہیں یاد کیا جاتا ہے حالانکہ وہ حکومت کیلئے نہیں گڈ گورننس کے معاون ہونے چاہئیں۔ موجود جاری پرآشوب ملکی صورتحال میں جو ڈیزاسٹر ہوگئے ان کا علم کی روشنی میں حل تلاش کرکے اس کے اطلاق پر زور دیا جائے اسکے بعد نئی قانون سازی اور انقلابی حکومتی اقدامات عوام کے سامنے تجویز کے طور پر عام کئے جائیں تاکہ علوم کی بنیاد پر جائزہ لیا جائے کہ یہ کس متعلقہ علم کے دائرے میں آتے ہیں اور انکے ترقی پذیر خصوصاً پاکستان سے قریب تر اقتصادی، سیاسی و سماجی یکسانیت والے ممالک میں ان کا اطلاق کیسے ہوا اور انکے کیا نتائج نکلے جب حل ایسی تجاویز اور مجوزہ شکل میں سامنے آئینگے۔ متنازع چیف جسٹس کی ریٹائرمنٹ سے ضرور ہوئی لیکن موجود کے تیسرے نمبر پر سینئر ہونے کے باوجود انکے مزاج اور کارکردگی میں پروفیشنل ازم کے غلبے کی شہرت سے انکے رفقا و ججز ،عوام کا تقرری پر اعتبار اطمینان بخش ہے یہ ہی کچھ جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس منیب اختر کے حکم نامہ فیصلے پر ہوا کہ انہوں نے اپنے جونیئر کے چیف جسٹس مقرر ہونے پر دل جلا کر استعفیٰ دیکر گھر بیٹھنے کی بجائے فیصلہ کیا کہ اس انتہائی نازک ملکی صورتحال میں اپنی خدمات جاری رکھیں یقیناً ایک حکیمانہ اور اعلیٰ پیشہ ورانہ فیصلہ تھا اب سپریم کورٹ میں توسیع کیلئے حکومت قانون سازی کیلئے تلی بیٹھی ہے اس تناظر میں ناچیز نے ججز کی معیاری تقرری اور سپریم کورٹ کے مطلوب حجم بارے آرٹیفشل انٹیلی جنس اختیار کرتے ہر دو میں علوم کے دخل کو سٹڈی کیا تو جواب ہے کہ ججز کی تقریر کا معیار ماپنے میں کیلئے TORsاہلیت کی بنیادی شرائظ کا تیار کرنا ناگزیر ہے شاید ہمارے ہاں مکمل تخصیص کے ساتھ معیاری انصاف کی فراہمی کی یہ ضرورت کبھی پوری تو کیا ہوتی جب سے انتظامی علوم کی سائنس (پبلک ایڈمنسٹریشن) کے لٹریچر میں TORS(ٹرمز آف ریفرنس) کی اصطلاع استعمال ہوئی شاید ججز کی تقرری کے حوالےسے دریافت علم کی پیروی کیلئے اس پر بات تک نہ ہوئی اپوزیشن اور میڈیا کا اس طرف متوجہ ہونا انکے بنیادی فرض اور پیشے کا تقاضا ہے۔