چھبیسویں آئینی ترمیم کے ’’دولہا‘‘ جے یو آئی کے مولانا فضل الرحمان کو قرار دیا جا سکتا ہے جو کہنے کو تو صرف آٹھ کی عددی ’’اقلیت‘‘ رکھتے ہیں لیکن پارلیمان میں انہوں نے ’’عددی برتری‘‘ نہ ہونے کے باوجود آٹھ ارکان کی اہمیت کو اس قدر قیمتی بنا دیا کہ یہ آٹھ ارکان پارلیمان میں بیٹھی حکمران جماعت اور اس کے اتحادیوں کی عددی قوت پر بھاری پڑ گئے، ان کی ’’خوشنودی اور تائید‘‘ حاصل کرنے کیلئے جس قدر پھیرے حکمران اتحاد کے چوٹی کے لیڈروں بشمول وزیر اعظم نے لگائے اتنے شاید وہ کبھی نہ لگاتے۔ مولانا کی سیاست کا یہ حسن ہے کہ ان کا گھر ’’مرجع‘‘ اہل سیاست بنا رہا اور ساتھ ہی جوڑ توڑ کے ماہرین کو ’’دانتوں تلے پسینہ‘‘ بھی آتا رہا۔ مولانا نے سب کی خاطر مدارت بھی خوب جم کر کی، کسی کو ناراض بھی نہیں کیا۔بہ قول داغ دہلویؔ
ظالم نے کیا نکالی رفتار رفتہ رفتہ
اس چال پر چلے تلوار رفتہ رفتہ
کیا شک ہے کہ سود کا خاتمہ اہل وطن کی دیرینہ آرزو رہی ہے؟ لیکن طبقہ اشرافیہ ہی نہیں عام لوگ بھی بینکوں میں دو چار ہزار بھی رکھیں تو اس پر زیادہ سے زیادہ منافعے کے طلب گار رہتے ہیں، وہ یہ نہیں سمجھتے کہ کاروبار میں ہمیشہ منافع ہی نہیں نقصان بھی ہوتا ہے، وہ نقصان بینک کا اور منافع اپنا سمجھتے ہیں۔ عام گھریلو استعمال کی مہنگی اشیاء اقساط پر خریدتے ہیں تو وہاں بھی بھاری سود ادا کرتے ہیں۔ سود کے بارے میں اللہ تعالیٰ اور اسکے آخری نبیﷺ اور دین اسلام نے جو بتا دیا ہے وہ حرف آخر ہے کہ ’’سودی لین دین اللہ سے براہ راست جنگ کرنا ہے‘‘ تاقیامت کوئی بھی شخص اللہ سبحان و تعالیٰ سے جنگ جیت ہی نہیں سکتا۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں، یہ کہہ دینا خود کو اور اس امت کو دھوکہ دینے کے مترادف ہے کہ بتدریج سودی نظام معیشت ختم کیا جائیگا اور اس میں ابھی مزید وقت لگے گا۔ اگر مال کو پاک کرنا ہے تو پھر ’’اگر مگر‘‘ کی کوئی گنجائش نہیں رہتی۔ ان ممالک کو دیکھیں جہاں سودی نظام معیشت نہیں ہے اور وہ کامیابی کے ساتھ اپنی معیشت کا نظام بہترین انداز میں چلا رہے ہیں۔ اب کہا جارہا ہے کہ سن2028 تک سودی نظام ختم ہو جائیگا جبکہ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ جتنی بھاگ دوڑ حکمرانوں، انکے اتحادیوں اور حواریوں نے آئینی ترمیم پاس کرانے کیلئے کی ان کو چاہیے تھا کہ وہ پہلی ترجیح کے طور پر سودی نظام ختم کرنے کیلئے یہ بھاگ دوڑ کرتے مگر اب یہ بہت بعد کی بات نظر آ رہی ہے۔ چار سال کے بعد کیا حالات ہوں گے سوائے مالک عالم الغیب کے کسی کو معلوم نہیں۔ کیا ہم چار سال تک اللہ سبحان و تعالیٰ کی نافرمانی کرتے رہیں گے اور آہستہ آہستہ اپنے مال کو پاک کرکے اس دلدل سے نکلیں گے۔ صاحب زکوٰۃ افراد کسی صورت بھی نصاب کے مطابق پوری زکوۃ ادا نہیں کررہے اور جو کررہے ہیں ان کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ اگر صاحب زکوٰۃ لوگ ایسا کرتے تو حضرت عمرؓ کے دور کی یاد تازہ نہ ہو جاتی کہ جب ڈھونڈے سے بھی مستحقین زکوۃ نہیں ملتے تھے اور ہر شخص ’’صاحب نصاب‘‘ اور خوش حال تھا لیکن آج ایسا نہیں ہے۔
اپنے آبائی علاقے ڈیرہ اسماعیل خان میں جلسے سے خطاب کرتے ہوئے مولانا فضل الرحمان کا کہنا تھا کہ مملکت خدا داد آئینِ پاکستان کی بنیاد اسلام پر رکھی گئی تھی اور آئینِ پاکستان یہ کہتا ہے کہ ’’اسلام‘‘ پاکستان کا مملکتی مذہب ہوگا اور اس کے تمام قوانین قرآن و سنت کے تابع ہوں گے۔ بقول مولانا کہ آئندہ اسلامی نظریاتی کونسل قرآن و سنت کی روشنی میں سفارشات مرتب کرے گی اور چھبیسویں آئینی ترمیم کے تحت اسلامی نظریاتی کونسل کی سفارشات پارلیمنٹ میں محض پیش نہیں ہوں گی بلکہ پاس بھی کرائی جائیں گی اور اسلامی نظریاتی کونسل کی سفارشات کا نتیجہ قانون سازی پر ہوگا۔ یہی کہا جاسکتا ہے کہ اللہ سبحان و تعالیٰ کرے کہ ایسا ہی ہو۔ مولانا کا موقف تھا کہ عوام کی شراکت داری کو تسلیم کیا گیا ہے، اب آمریت نہیں ہوگی بلکہ حقِ حکمرانی عوام کے منتخب لوگوں کو حاصل ہو جائے گی۔
معذرت کے ساتھ یہ نظام جسے ہم جمہوریت کا نام دیتے ہیں اس میں عام آدمی کیلئے کچھ بھی نہیں ہے۔ مولانا فضل الرحمان کے بقول ان کی جماعت کے آٹھ شیر جوان تھے اور چھبیسویں آئینی کے ترمیم کے موقع پر حکومت کی طرف سے گیارہ ارکانِ پارلیمان کو خریدا گیا ، آئینی ترمیم کیلئے حکومت نے گیارہ ووٹ خرید لیے تھے اور اس کے نتیجہ میں بہت ہی ظالمانہ مسودہ منظر عام پر آتا جس سے مسائل مزید بڑھ جاتے۔ آئینی ترمیم میں چھپن شقیں تھیں جسے ہم بائیس پر لے آئے، پانچ شقیں جے یو آئی کی شامل ہوئیں اور آئینی ترمیم کی شقیں ستائیس ہو گئیں، اگر ہم حمایت نہ کرتے تو حکومت نے اپنی تعداد ارکانِ اسمبلی خرید کر پوری کرلی تھی۔ مولانا فضل الرحمان کا ایک بار پھر وہی موقف تھا کہ میں عمران خان سمیت تمام سیاسی لیڈران کی قید و بند کے خلاف ہوں، نئے انتخابات سے ہی اب ملک کو بچایا جاسکتاہے۔ ایک مہینے کی محنت کے بعد جے یو آئی نے اپنا ہدف حاصل کرلیا، پی ٹی آئی نے اپنے حالات کی وجہ سے ووٹ نہیں دیا۔ ہم نے تو پی ٹی آئی کو مذاکرات میں لمحہ بہ لمحہ باخبر رکھا، جن کی حکومت بنائی گئی وہ چھبیسویں آئینی ترمیم لانے میں مکمل ناکام رہے۔
کہا جاسکتا ہے کہ حکومت نے ایڑی چوٹی کا زور لگایا تاکہ چھبیسویں آئینی ترمیم پاس کرائی جاسکے۔ رت جگے بھی کیے گئے، بار بار وقت بھی تبدیل کیا گیا لیکن اب انہیں ستائیسویں آئینی ترمیم کا ’’جانگسل‘‘ مرحلہ درپیش ہے، بقول منیر نیازیؔ کے
اک اور دریا کا سامنا تھا منیر مجھ کو
میں ایک دریا کے پار اترا تو میں نے دیکھا