(گزشتہ سے پیوستہ)
شہر کی سیاست راجہ عبداللہ اور سجاد نبی کے گرد گھومتی تھی اس دور میں پاکستان کے وزیر اعظم خواجہ ناظم الدین تھے جو بنگالی تھے ان کی شرافت اور بسیار خوری دونوں کی بہت شہرت تھی۔ 1953ء میں پاکستان میں اینٹی قادیانی تحریک کا آغاز ہوا اور جنرل اعظم خان کا مارشل لا لگا جس نے تحریک کے شرکا پر اندھا دھند گولیاں چلائیں۔ وزیر آباد میں بھی اس تحریک کی بازگشت سنائی دی۔ مولانا عبدالغفور ہزاروی اور مولانا محمد رمضان اس میں پیش پیش تھے۔ مولانا محمد رمضان سندھی تھے اور وزیر آباد میں آباد تھے والد مولانا بہائوالحق قاسمی اپنے استاد مفتی محمد حسن کے حکم پر اکیلے لاہور آ گئے اور لاہور کی مسجد وزیر خان سے دوسرے علماء کے ساتھ گرفتار ہوئے انہیں شاہی قلعے میں تشدد کا نشانہ بنایا گیا ہمیں تین ماہ تک ان کے بارے میں کچھ پتہ نہ تھا کہ وہ کہاں ہیں، زندہ ہیں یا شہید کر دیئے گئے ہیں۔ تین ماہ بعد جب ان کا مقدمہ عدالت میں پیش ہواتو ہمیں ان کے زندہ ہونے کی اطلاع ملی۔ والد محترم کے بیانات روزنامہ ’’تسلیم‘‘ میں شائع ہوتے تھے جن میں گھیرائو جلائو، تشدد کی مخالفت کی گئی ہوتی تھی چنانچہ ان بیانات کی بنیاد پر انہیں صرف تین ماہ قید کی سزا سنائی گئی۔ ۔اُس زمانے میں وزیر آباد کے اکثر گھروں کے کسی کمرے یا کسی کونے میں کسی ’’بزرگ‘‘ کا ڈیرہ بھی ہوتا تھا۔ جب گھر کا کوئی فرد اس ’’بزرگ‘‘ کے ’’دیدار‘‘ کی واردات بیان کرتا تو سب حیرت اور تجسس سے اس کی باتیں سنتے۔ اُس ’’بزرگ‘‘ کے قیام کی جگہ کا تعین دو تین چیزوں سے کیا جاتا تھا مثلاً گھر کے کسی کونے یا کسی کمرے میں اگر کوئی غیرمعمولی واقعہ پیش آیا تو اس جگہ کو ان بزرگ کی رہائش گاہ تصور کر لیا جاتا یا اگر کسی فرد کو وہ بزرگ نظر آئے اور ایک مقام پر پہنچ کر وہ نظروں سے غائب ہو گئے تو سمجھ لیا جاتا کہ وہ یہیں قیام پذیر ہیں۔ چنانچہ اہلِ خانہ اس مقام کو مقدس جان کر روزانہ وہاں جھاڑو دیتے، دیے جلاتے اور اکثر پھول بھی رکھ دیتے۔ ہمارے گھر کے گرائونڈ فلور کا آخری کمرہ جہاں بہت اندھیرا ہوتا تھا ،اس بزرگ کی قیام گاہ سمجھا جاتا تھا تاہم والد محترم چونکہ ان چیزوں کو وہم کا کرشمہ قرار دیتے تھے لہٰذا ہم لوگ صرف یہ کرتے کہ اس کمرے کا رخ نہ کرتے۔ اگر کسی کو مجبوراً ادھر جانا پڑتا تو وہ کسی کو ساتھ لے کر اُدھر جاتا ہم بچوں کو اس بزرگ سے بہت خوف آتا تھا۔
وزیر آباد کی گرمیوں کی شامیں مجھے نہیں بھولتیں، چھت پر چھڑکائو کیا جاتا۔ دیوار کے ساتھ لگی چار پائیاں اٹھا کر چھت کے درمیانی حصے میں بچھائی جاتیں۔ اگر گزشتہ رات کی بارش کی وجہ سے چارپائی کو ’’کانڑوں‘‘ پڑی ہوتی تو پہلے یہ ’’کانڑ‘‘ نکالی جاتی جس کا طریقہ یہ تھا کہ چارپائی کا جو پایہ اٹھا ہوتا اس طرف اور اس کے متوازی دوسری طرف دو بندے بیٹھ جاتے اور یوں اس کا بیلنس درست ہو جاتا، پھر ان چارپائیوں پر اجلے بستر بچھتے، برابر میں مٹی کے گھڑے میں پانی دھرا ہوتا جس پر موتیے کے پھول ہوتے ،گھر کا کوئی فرد مچھروں سے بچنے کیلئے مسہری بھی لگا لیتا تھا۔ نچلی منزل پر جن اشیائے خور و نوش کے خراب ہونے کا اندیشہ ہوتا انہیں ’’ڈولی‘‘ میں رکھ کر چھت پر لایا جاتا۔ آنکھوں کے سامنے تاروں بھرا آسمان ہوتا اور ٹھنڈی ہوا کے جھونکوں میں تارے گنتے نیند آ جاتی۔ تاہم اس وقت طبیعت بہت مکدر ہوتی تھی جب رات کو اچانک بارش آجاتی، ان لمحوں میں شہر کے مکانوں کی سوئی ہوئی چھتیں دوبارہ نیند سے بیدار ہو جاتیں اور ہاں اُس زمانے میں چارپائیوں میں کھٹمل بھی ہوتے تھے جن کے خاتمے کیلئے چارپائیاں دھوپ میں رکھ دی جاتیں یا پھر چارپائی پر ڈنڈے مار مار کر ان کھٹملوں کو کونوں کھدروں سے نکالا جاتا۔وزیر آباد کے لوگ اس زمانے میں اور آج بھی ’’ج‘‘ کو ’’ز‘‘ کی آواز میں بدل دیتے ہیں، چنانچہ جمعرات کو ’’زمعرات‘‘ اور گجرات کو ’’گزرات‘‘ وغیرہ بولتے ہیں۔ اس کے علاوہ ایک لفظ ’’وئی‘‘ غالباً صرف وزیر آباد سے مخصوص ہے۔اس کا استعمال پنجابی کے دوسرے لہجوں میں نظرنہیں آتا۔ گلہ بکریانوالہ میں گگڑوں کے بھی گھر تھے یہ لوگ مختلف بیماریوں کا علاج جونکوں سے کرتے تھے۔ جسم کے جس حصے میں خرابی ہوتی یہ وہاں جونکیں چمٹا دیتے جو وہاں سے گندہ خون چوس لیتیں۔ اس گھر کے ایک فرد سرور کا نام میرے ذہن میں محفوظ ہےاس کا صرف ایک ہاتھ تھا۔ بھائی جان کے دوستوں میں ایک کیفی صاحب بھی تھے جو مجھے محض اس لئے یاد ہیں کہ وہ پتلون پہنتے تھے، اس زمانے میں پتلون پہننے والے لوگ بہت کم تھے چنانچہ اس شہر میں وہ صرف اپنے لباس کی وجہ سے جانے اور پہچانے جاتے تھے۔
وزیر آباد کے نالہ پلکھو کی شہرت کچھ اچھی نہیں تھی۔ ایک تو اس لئے کہ ہر سال سیلاب میں وہ دوچار جانیں ضرور لیتا تھا، دوسرا شہر کے آوارہ لڑکے نالہ پلکھو کے پل کے نیچے پائےجاتے یہاں راجو ںکا ثمن برج بھی تھا جس کے متعلق بہت سی کہانیاں مشہور تھیں مثلاً یہ کہ پرانے زمانے میں اس ثمن برج کے اندر جن بےگناہوں کو پھانسی دی جاتی رہی تھی ان کی روحیں آج بھی وہاں منڈلاتی ہیں۔ سننے میں آیا تھا کہ پھانسی گھر اور سرنگیں وغیرہ آج بھی موجود ہیں تاہم ظاہر ہے یہ اب استعمال میں نہیں تھیں۔ اس پرانے قلعے کے مین گیٹ کے دونوں طرف بنے چبوتروں پر دو تین افیمی سوئے ہوتے تھے۔ اس زمانے میں گھڑی شازونادر ہی کسی کے پاس ہوتی تھی، کلائی والی گھڑی تو مجھے یاد نہیں پڑتا میں نے دیکھی ہو البتہ شہر کے معززین اپنی شیروانی یا اپنے کوٹ کی سامنے والی جیب میں گھڑی رکھتے تھے جس کی زنجیر باہر کو لٹکی ہوتی۔ اس زمانے کے ’’امراء‘‘ ’’تھری کاسل‘‘ سگریٹ کا ٹِن کا ڈبہ ہاتھ میں پکڑ کر چلتے، عام گھروں میں لائف بوائے صابن استعمال ہوتا جو لوگ ’’سن لائٹ‘‘ استعمال کرتے انہیں خوشحال اور شوقین مزاج سمجھا جاتا تھا۔سو یہ تھا میرا پرانا وزیر آباد جہاں نہ عالیشان بنگلے تھے نہ کاریں تھیں، جہاں ٹی وی، فریج، موبائل فون، ڈش، ایئر کنڈیشنر، مائیکرو ویو اوون، کمپیوٹر، ٹیلی فون وغیرہ کچھ نہیں تھا جہاں لوگ روکھی سوکھی کھاتے تھے مگر کوئی اپنے لختِ جگر کو ملک سے باہر نہیں بھیجتا تھا۔ یہ وہ دور تھا جب عدالت پر اعتماد تھا کہ وہ انصاف کرے گی ،جب جرنیلوں اور سیاست دانوں میں مالی کرپشن نام کی کوئی چیز نہیں تھی، دہشت گردی نہیں تھی، فرقہ پرستی نہیں تھی، ملاوٹ نہیں تھی، تازہ تازہ ملک بنا تھا، بےشمار مسائل تھے مگر مایوسی کہیں نہیں تھی، یہ اس دور کا وزیر آباد تھا اور یہ آج کا پاکستان ہے!